تحصیل علم دین میں نیت کی درستی ضروری

0
0

 

 

 

 

 

 

ڈاکٹر محمد واسع ظفر

جس طرح انسان کے ہر عمل کا دار و مدار اس کی نیت پر موقوف ہوتا ہے اور اس کی قبولیت کے لئے اخلاص و للہیت کا ہونا لازمی ہے، ٹھیک اسی طرح تحصیل علم دین کا بھی معاملہ ہے۔ اس لئے نیت کی درستی یہاں بھی ضروری ہے۔ تحصیل علم دین میں طلب حق اور اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنا ہی اصل مقصود ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اس کی اطاعت و بندگی میں اپنی زندگی گزارے اور اس کی نافرمانیوں سے اجتناب کرے لیکن یہ سب تب تک ممکن نہیں جب تک انسان کو شریعت کے اوامر و نواہی اور سنن نبویؐ کا علم نہ ہو۔ اسی مقصد سے علم دین کا حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے جیسا کہ مشہور حدیث ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ (رواہ ابن ماجہ، رقم الحدیث ۲۲۴)سے مستفاد ہے۔
اس لئے طلب علم کی راہ میں پہلی نیت تو اپنی جہالت دور کرنا اور دین کی سمجھ پیدا کرنا ہونا چاہیے۔ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے بھی اپنے خطبے میں اس جانب اشارہ فرمایا: ’’أَلَا إِنَّ رَبِّي أَمَرَنِي أَنْ أُعَلِّمَکُمْ مَا جَھِلْتُمْ‘‘ (مفہوم): ’’سنو! بے شک میرے رب نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں ان باتوں کی تعلیم دوں جن سے تم جاہل (ناواقف) ہو‘‘۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ۷۲۰۷)۔ دوسرے موقع پر آپؐ نے فرمایا: ’’ خِیَارُھُمْ فِي الْجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُھُمْ فِي الإِسْلاَمِ، إِذَا فَقُھُوا‘‘۔ یعنی تم میں سے جو لوگ جاہلیت میں اچھے تھے ، وہ اسلام میںبھی اچھے ہیں بشرطیکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کرلیں۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث ۳۳۵۳)۔ اس حدیث سے یہ ظاہر ہے کہ اسلام میں شرافت و بزرگی کو دین کی سمجھ سے وابستہ کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس دل میں علم و حکمت کی شمع روشن ہوجاتی ہے اس سے جہالت کی تاریکی خود بخود رخصت ہوجاتی ہے۔ دین کی سمجھ جسے عربی میں تفقہ فی الدین سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسی علم و حکمت کا ثمرہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان کو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ کا کون سا حکم اس کے اوپر کب عائد ہوتاہے اور اس کی ادائیگی کا طریقہ کار کیا ہے؟ نیز تفقہ فی الدین کی بنیاد پر ہی انسان مختلف احکام و اعمال کی حکمتوں اور ان کے مابین فرق مراتب کو سمجھ پاتا ہے۔ اس لئے اس انسان کے عمل میں نسبتاً زیادہ پائیداری ہوتی ہے جو تفقہ کی بنیاد پر دین پر کھڑا ہوتا ہے بالمقابلہ اس انسان کے جو کسی کی نقل میں کم علمی کے ساتھ یا جذبات کی بنیاد پر دینی احکام پر عمل پیرا ہو۔ اس لئے تفقہ فی الدین اللہ رب العزت کی عطا کردہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ یُرِدِ اﷲُ بِہِ خَیْرًا یُفَقِّھْہُ فِي الدِّینِ‘‘ یعنی اللہ جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔ (صحیح بخاریؒ، رقم الحدیث ۷۱) ۔
اس کے برعکس جس کا دل علم و حکمت سے خالی ہو وہ ویران گھر کے مانند ہوتا ہے۔ اس سلسلے میںرسول اللہ ﷺ سے ایک روایت بھی جس کے الفاظ ہیں: ’’قلبٌ لیس فیہ شیئٌ من الحکمۃ کالبیت الخَرِب، فتعلَّموا وعلِّموا، و تفقَّہوا، ولا تموتوا جُہَّالًا، فَإِنَّ اللّٰہ تبارک و تعالی لا یَعِذر علی الجھل‘‘۔ (مفہوم): ’’ جس دل میںحکمت نہ ہو وہ مثل ویران گھر کے ہے، پس تم علم سیکھو اور سکھاؤ اور دین میں سمجھ پیدا کرو اور حالت جہل میں مت مرو کیوں کہ اللہ تعالیٰ عذر جہل قبول نہیں فرماتا ہے‘‘۔ (ریاضۃ المتعلمین للامام أبي بکر أحمد ابن السنیؒ، دارالنوادر، دمشق، رقم الحدیث ۴۸)۔
اس حدیث سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ مذکورہ علم و حکمت اور تفقہ فی الدین حاصل کرنے کے لئے علم کا سیکھنا سکھانا اور اس کے لئے جد و جہد کرنا مطلوبہ اسباب میں سے ہیں۔ اس کے ساتھ خلوص و للہیت ، رزق حلال اور دعا کا التزام بھی ضروری ہے۔ جو بندہ اپنے جہل کو دور کرنے کی غرض سے تحصیل علم کی راہ میں جد و جہد کرتا ہے اس کے لئے حدیث میں بڑی بشارت آئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ما من عبدٍ یَغْدُو في طلب علم مَخَافَۃَ أیموت جاہلاً، أو في إِحیَاء سُنَّۃٍ مخافۃ أن تُدْرس،إلّا کان کالغازي الرابح في سبیل اللّٰہ عزوجل، و من بطأ بہ عملہ لم یسرع بہ نسبُہ‘‘۔(مفہوم): ’’ جو بندہ جاہل مرجانے کے خوف سے طلب علم میں نکلتا ہے یا سنت مٹ جانے کے خوف سے اس کے احیاء کے لئے چلتا ہے تو اس کی مثال غازی کی سی ہے جو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے نکلتا ہے اور جسے اس کے عمل نے پیچھے کردیا ، اس کانسب اسے آگے نہیں کرے گا‘‘۔ (جامع بیان العلم و فضلہ للحافظ ابن عبدالبرؒ ، دار ابن الجوزیہ ، الدمام، رقم الحدیث ۴۸)۔
اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ محض علم حاصل کر کے مطلوبہ فضیلت کو حاصل نہیں کیا جاسکتا جب تک علم اور عمل کے درمیان مطابقت پیدا نہ ہو اور نہ ہی نسب کی بنیاد پر ایسی کوئی فضیلت حاصل کی جاسکتی ہے اگر عمل میں انسان پیچھے رہ گیا ہو۔
تحصیل علم کی راہ میں دوسری اہم چیز یہ ہے کہ علم دین و شریعت سے دنیا کا مال و اسباب حاصل کرنے کی نیت نہ رکھے بلکہ خالصتاً اللہ کی خوشنودی اور قرب مطلوب ہو۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: ’’مَنْ تَعَلَّمَ عِلْمًا مِمَّا یُبْتَغَی بِہِ وَجْہُ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ لَا یَتَعَلَّمُہُ إِلَّا لِیُصیْبَ بِہِ عَرَضًا مِنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْ عَرَْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، یَعْنِي رِیْحَھَا‘‘۔ ’’جس شخص نے ایسا علم جس سے اللہ عز و جل کی خوشنودی حاصل کی جاتی ہے صرف اس لئے سیکھا کہ اس کے ذریعے اسباب دنیا حاصل کرے تو وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک نہیں پائے گا‘‘۔ (سنن ابی داؤد، رقم ۳۶۶۴)۔
اس علم سے کون سا علم مراد ہے ، اس کی تشریح کرتے ہوئے شیخ الحدیث مولانا منظور احمد صاحب، استاد دارالعلوم الشہابیہ، سیالکوٹ نے یوں لکھا ہے: ’’اس علم سے مراد علوم شریعہ ہیں ورنہ کاروبار اور کسب مال کے لئے تو لوگ کسی نہ کسی علم یا فن یا پیشے کو سیکھتے ہی ہیں ۔ دنیا کے لئے دینی علوم کو استعمال کرناقطعی یہودیت ہے جس پر قرآن گواہ ہے۔‘‘ ۔ (فضل المعبود شرح اردو سنن ابی داؤد ، المصباح، لاہور، جلد ۴ ، صفحہ ۸۲۱-۸۲۲)۔ اسی حدیث کی تشریح میں شیخ ابوالقاسم محمد محفوظ اعوان حفظہ اللہ نے لکھا ہے: ’’جو چیز محض عبادت ہو، جیسے قرآن و حدیث کی تعلیم، صدقہ و خیرات، جہاد اور دوسرے امور اسلام، ان کے حصول کے وقت کوئی دنیوی مقصد مدنظر نہیں کھنا چاہیے، یہ انتہائی نازک مسئلہ ہے اور کم لوگ ہیں جو اس نزاکت کو سمجھ پاتے ہیں، جبکہ یہ معاملات انتہائی سنجیدگی اور غور و فکر کا مطالبہ کرتے ہیں‘‘۔ (الفتح الربانی فقہی ترتیب مسند امام احمد بن حنبلؒ، انصا ر السنہ پبلیکیشنز۔ لاہور، جلد ۱، صفحہ ۲۶۳)۔
نبی کریم ﷺ نے بشمول دیگر امور کے تعلیم و تعلم کے میدان میں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خالص رضائے الٰہی کی بنیادوں پر کھڑا کیا اور انہیں تعلیم دین کے عوض کسی بھی قسم کے مال و متاع سے پرہیز کرنے کی ہدایات دیں۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے، کہتے ہیںکہ میں نے اہل صفہ کے کچھ افراد کو قرآن پڑھایا اور لکھنا سکھایا تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیتاً دی۔ میں نے (دل میں) کہا: یہ کوئی اہم مال بھی نہیں ہے اور میں جہاد میں اس کے ذریعہ سے تیر اندازی کر سکتا ہوں، البتہ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس جاتا ہوں اور اس کے متعلق پوچھتا ہوں۔ چنانچہ میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے ایک آدمی نے ایک کمان ہدیہ کی ہے جسے میں نے لکھنا سکھایا اور قرآن پڑھایا ہے، اور یہ کوئی اہم مال بھی نہیں ہے، میں اس کے ذریعہ سے جہاد میں تیر اندازی کرسکتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’إِنْ کُنْتَ تُحِبُّ أَنْ تُطَوَّقَ طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْھَا‘‘ یعنی اگر تمہیں یہ پسند ہو کہ تمہارے گلے میں آگ کا طوق ڈالا جائے تو اسے قبول کر لو۔ (مستدرک علی الصحیحین للحاکمؒ، دار الکتب العلمیہ، بیروت، رقم الحدیث ۲۲۷۷)۔
دیکھئے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت عبادہؓ کو تعلیم دین کے عوض ایک ایسی چیز کو بھی قبول کرنے سے روک دیا جو جہاد فی سبیل اللہ میں کار آمد ہوسکتا تھا اور پھر ایسی سخت وعید سنائی کہ حضرت عبادہؓ ہی کیا، کوئی بھی صحابی اس کے خلاف کچھ سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے: ’’اِقْرَئُ وا الْقُرْآنَ، وَلَا تَأْکُلُوا بِہِ، وَلَا تَسْتَکْثِرُوا بِہِ، وَلَا تَجْفُوا عَنْہُ، وَلَا تَغْلُوا فِیْہِ‘‘۔ ’’قرآن کی تلاوت کرو اور اس کو کھانے کا ذریعہ نہ بناؤ اور نہ ہی اس کے ذریعہ مال کی کثرت طلب کرو، اور اس کے معاملے میں سنگ دل نہ ہوجاؤ (یعنی اس کی تلاوت سے دوری اختیار نہ کرو) اور نہ ہی اس میں غلو کرو۔‘‘ (مسند أحمد، مکتبۃ دارالسلام، رقم الحدیث ۱۵۵۳۵)۔
ان احادیث کی وجہ سے فقہاء متقدمین تعلیم قرآن اور فقہ پر اجرت لینے کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ فقہ حنفی ہی کی چھوٹی سے بڑی کوئی بھی کتاب اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو فقہاء کا یہی موقف ملے گا۔ مثال کے طور پر مختصر القدوری کی یہ عبارت دیکھیں: ’’وَ لَا یَجُوْزُ الْاِسْتِئجَارُ عَلَی الْأَذَانِ، وَالإِقَامَۃِ، وَ تَعْلِیْمِ الْقُرآنِ، وَالْحَجِّ‘‘ (ترجمہ): ’’اور نہیں جائز ہے اجرت لینا اذان اور اقامت پراور قرآن کی تعلیم دینے پر اور حج کرنے پر‘‘۔ (مختصر القدوري للإمام أبي الحسین احمد بن محمد القدوريؒ، دار السراج، مدینہ منورہ، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۱۴م ، صفحہ ۱۵۷)۔
اسی طرح الھدایہ میں یہ لکھا ہے: ’’و لا الاستئجار علی الأذانِ والحج، و کذا الإمامۃُ، و تعلیمُ القرآن، والفقہ، والأصل: أن کلَّ طاعۃ یختص بہا المسلمُ لا یجوز الاستئجارُ علیہ عندنا‘‘ یعنی اذان، حج، امامت اور قرآن و فقہ کی تعلیم پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ قائدہ کلیہ یہ ہے کہ ہر وہ عبادت جو مسلمانوں کے ساتھ خاص ہے ، ہمارے یہاں (مراد احناف کے نزدیک) اس پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔(الھدایۃ شرح بدایۃ المبتدي للإمام برھان الدین ابي الحسن علي بن أبي بکر المرغیناني، مکتبۃ البشریٰ، کراچی، الطبعۃ الجدیدۃ ۲۰۱۱م، المجلد السادس، صفحہ ۲۹۶)۔
لیکن بعد کے فقہاء تعلیم قرآن و فقہ، اذان اور امامت کی اجرت کے جائز ہونے کا فتوی دین کے ممکنہ نقصانات سے حفاظت کے پیش نظر دینے لگے کہ اگر اس سے روکا گیا تو تعلیم دینے کے لئے کوئی استاد، اذان دینے کے لئے کوئی مؤذن اور نماز پڑھانے کے لئے کوئی امام نہیں ملے گاکیوں کہ لوگوں میں اب وہ جذبہ نہیں رہا جو صحابہ اور تابعین کے درمیان موجود تھا۔ اب اسی تناظر میں شرح الوقایہ کی یہ عبارت دیکھئے: ’’و لم تصحّ للأذان، والإمامۃ، والحج، و تعلیم القرآنِ، والفقہ، والغنائ، والنَّوح، والملاھي، وعسب التَّیس، ویُفتَی الیوم بصحَّتِہا؛ لتعلیم القرآنِ، والفقہ‘‘ (ترجمہ): ’’اذان، امامت ، حج، تعلیم قرآن و فقہ اور گانے اور نوحہ کرنے اور گانے کے آلات اور نر جانور کو مادہ سے جفتی کرانے کی اجرت لینا صحیح نہیں ہے لیکن آج کے زمانے میں قرآن اور فقہ سکھانے کے اجارہ کے صحیح ہونے کا فتوی دیا جائے گا۔(شرح الوقایۃ للإمام عبید اللہ بن مسعود المحبوبي الحنفي و معہ منتھی النقایہ علی شرح الوقایۃ الدکتور صلاح محمد ابوالحاج، مؤسسۃ الوراق، عمان، الطبعۃ الأولی ۲۰۰۶م، المجلد الثاني، صفحہ ۲۸۴- ۲۸۵)۔
بعض فقہاء نے جواز کے اس فتوے کی تاویل اس طرح کی کہ یہ اجرت جو دی جاتی ہے وہ طاعت پر نہیں بلکہ حبس وقت پر دی جاتی ہے لیکن یہ تاویل اس لئے قابل قبول نہیں کہ حبس وقت کا عذر تو دور صحابہ کے معلمین پر بھی صادق آتا تھا پھر بھی اس کا لحاظ اس وقت نہیںرکھا گیا اور عدم جواز ہی کا فتوی دیا گیا۔ صحیح یہی ہے کہ تعلیم قرآن، اذان اور امامت پر اجرت کے جواز کا فتوی مجبوری کی حالت میں دین کے نقصان سے بچنے کی بنیاد پر دیا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کے دلوں سے اس کی قباحت ہی ختم ہوگئی اور آگے چل کر لوگ عصری علوم کی طرح دینی علوم بھی روزی روٹی کے ذریعہ کے طور پر حاصل کرنے لگے۔ دینی علوم کو سند (Degree) سے جوڑنے کے پیچھے بھی شاید یہی محرک کار فرما تھا ۔ اس جواز کے فتوے کا فائدہ یہ تو ہوا کہ دینی علوم اعداد و شمار کے حوالے سے (Quantitatiely) بہت پھیلا لیکن نیت میں فساد کی وجہ سے اس کی روح نکل گئی۔ چنانچہ علماء کی کثیر تعداد میں موجودگی کے باوجود سماج پر ان کے اثرات نظر نہیں آتے اور مسلمانوں میں دینی گراوٹ اپنے شباب پر ہے۔ پہلے ایک علاقے میں ایک دو ہی عالم ہوا کرتے تھے لیکن معاشرے پر ان کی پکڑ ہوتی تھی، لوگ ان کی پیروی کرتے تھے کیوں کہ ان کے اندر خلوص و للہیت ہوا کرتی تھی اور وہ اخلاق و کردار کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا کرتے تھے، اب ایک خطے میں سینکڑوں عالم ہوتے ہیں لیکن اکثر روحانیت سے خالی اور طلب دنیا میں گم، الا ماشاء اللہ! اس کے اثرات تعلیم و تعلم، اذان و نماز، دعوت و تبلیغ سب پر مرتب ہوئے اور آج سب روحانیت سے خالی ڈھانچے کی مانند ہیں۔
ہمیں یہ غور کرنا چاہیے کہ دین کی مصلحتوں کو انبیاء کرام علیہم السلام سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی یہی سنت رہی ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے پیغامات اور شریعت کے احکام لوگوں تک بلا کسی دنیوی غرض یا بدلے کے پہنچایا ہے اور اپنے متبعین کو بھی اسی کی تعلیم دی ہے۔ قرآن کریم بھی اس بات پر شاہد ہے۔ سورۃ الشعراء کے اندر کئی نبیوں کا نام لے لے کر یہ بتایا گیا ہے کہ سب نے اپنی قوم سے یہی کہا: {وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ} (الشعرائ: ۱۰۹، ۱۲۷، ۱۴۵، ۱۶۴، ۱۸۰) یعنی میں تم سے اس کام پر کسی قسم کی کوئی اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو صرف اس ذات نے اپنے ذمے لے رکھا ہے جو سارے جہان کا پروردگار ہے۔ یہی بات نبی کریم ﷺ نے بھی اپنی قوم سے کہی تھی۔ صاحب تفسیر مظہری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’لا یجوز أخذ الأجرۃ علی الطاعۃ وإلا لا تکون الطاعۃ طاعۃ للّٰہ تعالی ولا یستحق الأجر من اللّٰہ تعالی‘‘۔ (ترجمہ): ’’اطاعت و فرمانبرداری پر اجرت لینا جائز نہیں ورنہ وہ اطاعت اطاعت الٰہی نہیں ہوگی اور نہ وہ اللہ تعالیٰ سے اجر کا مستحق ہوگا‘‘۔(تفسیر مظہری ، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۲۰۰۴م، جلد۷، صفحہ ۷۹)۔
اس لئے تحصیل علم کی راہ کے دیوانوں کو ان باتوں پر غور کرنا چاہیے اور کوشش کرنا چاہیے کہ اس راستے کی ان کی ساری تگ و دو صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے ہو نہ کہ مالی منفعت اور متاع دنیوی کے حصول کے لئے۔ روزگار کے لئے کوئی اور علم و فن سیکھنا چاہیے اور اسی کو کسب معاش کے لئے اختیار کرنا چاہیے جیساکہ ماضی میں بہت سارے علماء نے کیا بھی ہے۔ یہ زہد و تقوی سے زیادہ قریب ہے۔ رہی عالمانہ ذمے داری تو اپنے روز و شب کے ۲۴ گھنٹوںمیں سے ہر عالم ایک دو گھنٹے بھی اگر روزانہ تعلیم و تعلم کے لئے نکال کر آس پڑوس کے پانچ سات بچوں یا نوجوانوں کو صرف اللہ کے لئے علم دین سکھانے میں لگا دے تو معاشرے میں خاطر خواہ تبدیلی واقع ہوگی اور ان کی نجات کے لئے ان شاء اللہ وہی کافی ہوگا۔ اس سلسلے میں ہمیں حضرت علیؓ کے اس قول کوبھی یاد رکھنا چاہیے: ’’أیھا الناس إن ھذا الأمر لن یصلح آخر ہ إلا بما یصلح بہ أولہ‘‘ یعنی اے لوگو ! بے شک اس (دین کے ) معاملے میں امت کے آخری حصے کی اصلاح بس اسی طریقے سے ہوگی جس سے اس کے پہلے حصے کی اصلاح ہوئی ہے۔ (الرّیاض النّضرۃ في مناقب العشرۃ للإمام أبي جعفر الشھیر الطبريؒ، دار الکتب العلمیۃ، بیروت، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۸۴م، الجزء الأول، صفحہ ۴۰۲)۔
تحصیل علم کی راہ میں نیت کی درستی کے سلسلے میں تیسری اہم بات یہ ہے کہ علم دین کو دنیوی جاہ و منصب اور فخر و مباہات کے لئے حاصل کرنے سے بچے کیوں کہ ایک تو یہ للہیت سے انحراف ہے اور دوسرے خود کو اعلیٰ مقاصد سے گرا کر حقیر ترین مقاصد میں الجھانا ہے۔اللہ کے رسول ﷺ سے اس سلسلے میں واضح ہدایات وارد ہوئی ہیں ۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’لَا تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ لِتُبَاھُوا بِہِ الْعُلَمَائَ، وَلَا لِتُمَارُوا بِہِ السُّفَھَائَ، وَلَا تَخَیَّرُوا بِہِ الْمَجَالِسَ، فَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ فَالنَّارُ النَّارُ‘‘۔ یعنی ’’علم اس لئے حاصل نہ کرو کہ علماء کے مقابلہ میں فخر کا اظہار کرو، نہ اس لئے کہ کم عقلوں سے بحث و تکرار کرو اور نہ اس لئے کہ اس کے ذریعے مجالس میں ممتاز مقام حاصل کرو، جس نے ایسا کیا اس کے لئے آگ ہے، آگ۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ۲۵۴)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’مَنْ طَلَبَ الْعِلْمََ لِیُمَارِيَ بِہِ السُّفَھَائَ، أَوْ لِیُبَاھِيَ بِہِ الْعُلَمَائَ، أَوْ لِیَصْرِفَ وُجُوہَ النَّاسِ إِلَیْہِ، فَھُوَ فِي النَّارِ‘‘۔ یعنی ’’جس شخص نے علم اس لئے حاصل کیا تاکہ بے وقوفوں (کم علموں) سے بحث و تکرار کرے یا علماء کے سامنے فخر کا اظہار کرے یا لوگوں کو اپنی طرف مائل کرے تووہ جہنم میں جائے گا‘‘۔ (سنن ابن ماجہ، رقم الحدیث ۲۵۳)۔
ایک مشہور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جن لوگوں کا سب سے پہلے فیصلہ کیا جائے گا ان میں شہید اور سخی مالدار شخص کے علاوہ وہ شخص بھی ہوگا جس نے علم (دین ) سیکھا اور سکھایا اور قرآن پڑھا ہوگا، اسے اللہ عزوجل کے حضور پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گاجن کا وہ اقرار کرے گا، پھر اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا : میں نے علم حاصل کیا اور اسے دوسروں کو سکھایا اور تیری رضا کی خاطر قرآن کی قرأت کی۔ اللہ عزوجل فرمائے گا کہ تو نے جھوٹ بولا، تو نے علم اس لئے حاصل کیا تھا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے، سو یہ سب کہا جا چکا، پھر اس کے بارے میں حکم دیا جائے گا تو اسے منہ کے بل گھسیٹا جائے گا حتی کہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث ۴۹۲۳)۔
خلاصہ کلام یہ ہے علم دین و شریعت کو محض دنیوی مال و منصب، شہرت و ناموری یا فخر و مباہات کے لئے حاصل کرنا بڑی شقاوت اور بدبختی ہے۔ اس لئے میرے پیارے بھائیوں بہنوں ! اس بات کا ادراک رہے کہ تحصیل علم دین کی راہ میں بھی گہری کھائیاں ہیں اور سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔ جس طرح ہر عمل کا نتیجہ انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملتا ہے ٹھیک اسی طرح تحصیل علم کا معاملہ بھی ہے۔ اس لئے اپنی نیتوں کی اصلاح کے ساتھ ہی اس راہ میں قدم بڑھائیں تاکہ حتمی کامیابی و کامرانی آپ کا مقدر ہو ۔ اللہ پاک احقر کو بھی ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور اپنی رضا و خوشنودی کی خاطر ہی علوم شریعہ بلکہ ہر نفع بخش علم کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کا جذبہ عطا کرے ۔ آمین!
استاذ وسابق ڈین، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
mwzafar@gmail.com

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا