بی جے پی کو اب مودی کی گارنٹی کا سہارا

0
75

 

 

 

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

ملک میں پارلیمانی انتخابات میں دو مراحل کی ووٹنگ ہو چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی تشہیر ہر روز نیا ریکارڈ بنا رہی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی اور بی جے پی مودی کی جانب سے گارنٹی کے ساتھ نت نئے شگوفے چھوڑے جا رہے ہیں۔ بی جے پی کے انتخابی منشور یعنی "مودی کی گارنٹی” سنکلپ پتر کے اجرائے موقع پر راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ہم نے ملک کے شہریوں سے کیا گیا ہر وعدہ نریندر مودی جی کی سربراہی میں پورا کیا۔ چاہے 2014 کا سنکلپ پتر ہو یا 2019 کا گھوشنا پتر۔ مودی جی نے اپنے ہر عہد کو پورا کیا ہے۔ 2014 میں جو سنکلپ پتر تیار کیا گیا تھا اس کمیٹی کے صدر مرلی منوہر جوشی تھے۔ اس وقت یہ خیال رکھا گیا تھا کہ جو بھی وعدے کئے جائیں وہ پورے ہوں۔ 2014 کا الیکشن "اچھے دن” کی یقین دہانی پر 2019 کا پلوامہ میں شہید ہوئے فوجیوں اور بالاکوٹ حملہ کے نام پر جزباتی اپیل کے ساتھ لڑا گیا تھا۔ اس بار پارلیمانی جمہوریت کا الیکشن ایک شخص کے نام پر صدارتی انداز میں لڑا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ انتخابی منشور میں بھی اس شخص کو باقی سبھی چیزوں سے اوپر رکھا ہے۔ "مودی کی گارنٹی” کی ٹیگ لائن منشور کے لگ بھگ ہر صفحہ پر وزیر اعظم کی تصویر کے ساتھ موجود ہے۔ عوام سے مودی کے نام پر مینڈیٹ مانگا جا رہا ہے۔ بی جے پی کے ایک نیشن، ایک الیکشن، ایک لیڈر کے تصور نے پارٹی کے قد کو بونہ کر دیا ہے۔ حالانکہ آر ایس ایس نے ہمیشہ سے ایک شخص کے بجائے ادارے/ تنظیم کی اہمیت پر زور دیا ہے لیکن اس بار وہ خاموش ہے۔ 2014 میں اقتدار بدل رہا تھا، اس وقت بڑے بڑے خواب بڑی بڑی منشائیں تھیں۔ ایسے ایسے نعرے، وعدے کئے گئے کہ لوگوں کو اچھے دن آنے کا یقین ہو گیا۔ مہنگائی پر لگام لگانے کے لئے ‘قیمت مستحکم فنڈ’ کا قیام، ہر سال دو کروڑ روزگار، خواتین کو تحفظ اور برابری کا حق، کسانوں کی آمدنی دو گنی، کالی دولت کی واپسی، معاشی عدم مساوات کو ختم کرنا، ڈالر کے مقابلہ روپے کو مضبوط بنانا، کرپشن کا خاتمہ، ضلع روزگار دفاتر کو روزگار مرکز میں تبدیل کرنے کا عہد کیا تھا، اس وقت صرف اتر پردیش کے روزگار دفاتر میں رجسٹرڈ بے روزگاروں کی تعداد ایک کروڑ کو پار کر گئی ہے۔ پورے ملک میں یہ تعداد 20 کروڑ سے زیادہ ہے۔ مچھواروں اور مویشی پالنے والوں کے لئے کوآپریٹو نظام کا قیام، کسانوں کی فصل کی حفاظت اور ذخیرہ اندوزی کے لئے ایف سی آئی کے گوداموں میں اضافہ کرنا تھا مگر ایف سی آئی کی حالت سدھرنے کے بجائے اور خراب ہو گئی وہ 4 لاکھ کروڑ کے قرض میں ڈوب گیا۔ اس کے برعکس اڈانی کے گودام بڑے پیمانے پر قائم ہو گئے۔ کسان اپنی فصل ان میں رکھنے کو مجبور ہیں۔ کم از کم حکومت زیادہ سے زیادہ گورننس کا دعویٰ تھا لیکن اسی دور میں ہجومی تشدد اور دھرم سنسد میں نفرتی بیان بازی کے واقعات ہوئے۔ غریبوں کو غریبی سے نجات دلانے کا وعدہ تھا مگر 80 کروڑ سے زیادہ غریب پانچ کلو مفت اناج پر گزارا کر رہے ہیں۔ اس سنکلپ پتر کے صفحہ تین پر وزیر اعظم نریندر مودی نے تین عہد کئے تھے، پہلا ملک کی عوام مجھے جو بھی ذمہ داری دے گی ذاتی طور پر میں اسے پورا کرنے میں کوئی بھی کمی نہیں رکھوں گا، دوسرا میں اپنے لئے کچھ نہیں کروں گا۔ اب ان سے کون پوچھے گا کہ 8500 کروڑ روپے کا جہاز کیوں خریدا، دس لاکھ کا سوٹ کیوں پہنا، مہنگی گاڑیوں کا قافلہ ان کے ساتھ کیوں چلتا ہے۔ ایس پی جی اور حفاظت پر عوام کے 500 کروڑ روپے کیوں خرچ ہوتے ہیں؟ تیسرا وعدہ تھا کہ میں غلط ارادے سے کوئی کام نہیں کروں گا یہ یقین دلاتا ہوں۔ 2019 کے بعد اعلانات کی جھڑی لگ گئی۔ 500 اعلانات تو صرف ان وزارتوں سے ہوئے جو مودی جی کے پاس ہیں۔ اس وقت پانچ ٹرلین معیشت کا ذکر تھا۔ 100 لاکھ کروڑ کی سرمایہ کاری اور معیشت کو transparent بنانے اور جی ڈی پی میں مائنگ سے 2.5 فیصد کا اضافہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ لیکن ہوا الٹا پیسے جٹانے کے لئے حکومت ملک کے اثاثے کوڑیوں کے فاؤ بیچنے میں لگ گئی۔ مویشی پالنے اور ڈیری کے کاروبار کو فروغ دینے کے لئے کواپریٹو بنا کر گرام سوراج لانے کا وعدہ تھا۔ ٹیکس کم کر شہروں میں رہ رہے مڈل کلاس کو راحت دینے اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی بات کی گئی تھی۔ چھوٹے دوکانداروں کے لئے پینشن اسکیم کا ذکر تھا۔ تمام بے گھروں کو 2020 تک پکا گھر دینے کا اعلان تھا۔ اقلیتوں کو عزت دینے اور ان کی ترقی کا وعدہ تھا۔ لیکن این آر سی، سی اے اے اور دھرم سنسدوں کے ذریعہ ان میں خوف پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اتنا ہی نہیں اقلیت کا کوئی ایک شخص بھی سیاسی طور پر ساتھ جڑ جائے یہ بی جے پی کو برداشت نہیں۔ اتنا ہی نہیں مولانا آزاد فاونڈیشن سے اقلیتی طلبہ کو ملنے والے وظائف بھی بند کر دیئے گئے۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس محض جملہ بن کر رہ گیا۔ بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ، خواتین کے تحفظ، انہیں ڈولپمنٹ کے ساتھ جوڑنے اور برابری کا حق دینے کا شور تھا۔ مگر کٹھوا، اناؤ، ہاتھرس جیسے واقعات اور انصاف کے لئے پہلوان بیٹیوں کے جنتر منتر پر احتجاج نے اس دعوے کی قلعی کھول دی۔ بیٹیوں کی حالت کتنی خراب ہوئی یہ پورے ملک نے دیکھا۔ شمال مشرق کی ریاستوں کا ڈولپمنٹ اور سول سروسز، گورننس، پولس، عدلیہ کا ریفارم بھی اس میں شامل تھا۔ لیکن منی پور کے واقع کے بعد وزیر اعظم وہاں جھانکنے تک نہیں گئے۔ رہا آئینی اداروں کے ریفارم کا سوال تو حکومت نے اس بہانے ان پر قبضہ کر لیا۔ پولس اور آزاد ادارے حکومت کی مرضی کے مطابق کام کرنے لگے۔ کرپشن پر زیرو ٹولرینس کی بات کرنے والی حکومت کی ایجنسی سی ایس ڈی ایس کے سروے کا کہنا ہے کہ 53 فیصد لوگ مانتے ہیں کہ کرپشن بڑھا ہے۔ 27 فیصد نے کہا کہ یہ مرکزی حکومت کی وجہ سے بڑھا ہے۔ موجودہ دور میں کرپشن لیگا لائز ہوا ہے۔ الیکٹرولر بانڈ، چندہ دو دھندا لو کی شکل میں سامنے آیا ہے۔بی جے پی کا 2024 کے لئے "مودی کی گارنٹی” کے نام سے جو سنکلپ پتر آیا ہے اس میں کوئی بھی نیا وعدہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی ٹیگ لائن ہے "وکاس بھی وراثت بھی”۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 4 کروڑ مکان بنا کر دے دیئے ہیں۔ تین کروڑ اور بنا دیں گے۔ 25 کروڑ لوگ غریبی سے اوپر اٹھ گئے ہیں۔ دس کروڑ گیس سلنڈر گھروں میں پہنچ گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ جنہیں مفت سلنڈر یاد گیا وہ دوبارہ ریفل نہیں کرا پا رہے۔ گیارہ کروڑ خواتین کے آگے بڑھنے اور دو لاکھ پنچائیتوں میں انٹرنیٹ پہنچنے کی بات کی گئی ہے۔ پچاس کروڑ لوگوں کے ہیلتھ انشورینس کے دائرے میں آنے اور 33 فیصد خواتین کے ریزرویشن کو 2029 میں لاگو کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 70 سال سے زیادہ عمر کے بزرگ اگر بیمار پڑتے ہیں تو ان کا آیوشمان بھارت اسکیم کے تحت اعلاج کرانے کی گارنٹی دی گئی ہے۔ وندے بھارت کا تو ذکر ہے لیکن ریلوے کی بد حالی پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ بد حالی راجدھانی تک میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس مرتبہ این پی اے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ 2014 میں این پی اے 2 لاکھ 41 ہزار کروڑ روپے تھا۔ 2024 آتے آتے 16 لاکھ کروڑ روپے تو قرض لے کر ملک چھوڑ کر بھاگنے والوں کے معاف کر دیئے گئے۔ گنگا، قدرتی جھرنوں، ندیوں اور آبپاشی کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔ جبکہ 2019 میں مشن موڈ میں آبپاشی کرنے کی بات ہوئی تھی۔ آبپاسی میں 0.25 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ دس سال میں جو بلند بانگ نعرے، دعوے اور وعدے کئے گئے وہ سب اس دور میں جھوٹے لگنے لگے۔ شاید اسی لئے بی جے پی کوئی وعدہ کرنے کے بجائے "مودی کی گارنٹی” پر الیکشن لڑ رہی ہے اور 2047 تک انڈیا کو ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب دکھا رہی ہے۔
رام مندر، دفعہ 370 اور مودی کی گارنٹی سے بی جے پی نے اپنی انتخابی تشہیر شروع کی تھی۔ مہنگائی، روزگار اور معاشی عدم مساوات کا رسماً بھی ذکر نہیں کیا گیا۔ لیکن جیسے ہی کانگریس نے اپنا انتخابی منشور "نیائے پتر” جاری کیا۔ بی جے پی کے بول بگڑنے شروع ہو گئے۔ وزیراعظم نے کانگریس کے منشور پر مسلم لیگ کی چھاپ بتا کر نشانہ سادھا۔ وہ یہ بھول گئے آر ایس ایس کے فاونڈر شیاما پرساد مکھر جی نے مسلم لیگ کے ساتھ بنگال اور سندھ کی حکومت بنائی تھی۔ انہوں نے مسلم لیگ کے ساتھ بھارت چھوڑو تحریک کی بھی مخالفت کی تھی۔ پھر مودی جی نو راترے میں ‘مچھلی مٹن’ کھا کر ہندوؤں کو چڑھانے کی بات کر کے انڈیا اتحاد پر خوب برسے۔ جبکہ مچھلی کھاتے ہوئے تیجسوی یادو کی تصویر کئی ماہ پرانی تھی۔ راہل گاندھی جب لالو یادو سے ملنے ان کے گھر گئے تھے تب مٹن بنا نے کی خبر سامنے آئی تھی۔ نریندر مودی کے مچھلی، مٹن، مغل والے بیان پر مغربی بنگال سے سخت ردعمل آیا۔ پھر انہوں نے راجستھان کے بانسواڑہ میں کہا کہ کانگریس ماؤں بہنوں کا منگل سوتر، سونا چھین کر زیادہ بچے پیدا کرنے والوں میں بانٹ دے گی یہ کانگریس کے انتخابی منشور میں لکھا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ من موہن سنگھ جی نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔ جبکہ کانگریس کے منشور میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ملیکارجن کھرگے نے مودی جی سے ملنے کا وقت مانگا تاکہ وہ انہیں بتا سکیں کہ مبشور میں کیا ہے اور کیا نہیں۔ رہا زیادہ بچے پیدا کرنے کا سوال تو مودی جی خود چھ بہن بھائی ہیں اور یوگی ادتیہ ناتھ سات۔ کرناٹک میں نریندر مودی مسلم ریزرویشن کی بات کہہ کر عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 27 فیصد او بی سی کے کوٹہ سے ان کا حق مار کر مسلمانوں کو ریزرویشن دیا جا رہا ہے۔ امت شاہ کہہ رہے ہیں کہ مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن ختم کریں گے۔ حالانکہ ریزرویشن مرکز کا موضوع ہے، پچھلے پانچ سال کرناٹک میں اور دس سال سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ اسے کیوں ختم نہیں کیا گیا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ کانگریس آئی تو وہ گائے کاٹنے کی اجازت دے گی۔ حالانکہ گو کشی کا قانون کانگریس نے ہی بنایا تھا۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران بیف کے ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ تر ایکسپورٹرز بھی غیر مسلم ہیں۔ دراصل سی ایس ڈی ایس کے سروے نے بتایا کہ عوام میں ووٹ دینے کو لے کر جوش نہیں ہے۔ لوگوں کو رام مندر اور دفعہ 370 میں بھی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ روزگار، مہنگائی اور ریزرویشن ختم ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ بی جے پی مودی کی گارنٹی کی بات تو کر رہی ہے لیکن دس سال کے دوران جو وعدے کئے گئے انہیں پورا کرنے کی گارنٹی نہیں لے رہی۔ جبکہ کانگریس نیائے کی بات کر رہی ہے اور عوام کے سوال اٹھا رہی ہے۔ اس صورتحال نے ہی مودی سمیت بی جے پی کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس لئے بی جے پی سب کے ساتھ اور وکاس کی بات کرتے کرتے دھرم کے آزمائے ہوئے فارمولہ پر چل پڑی ہے۔ تاکہ سماج کی تقسیم اور بکھراؤ کا اسے فائدہ مل جائے۔ اسی وجہ سے ہر روز نیا جھوٹ اور گمراہ کن بیان دیا جا رہا ہے۔ الیکشن کمیشن جھوٹ اور مذہب کو انتخابات میں استعمال نہ کرنے کی پہلے ہی ہدایات جاری کر چکا۔ کمیشن اپوزیشن کو چھوٹے سے چھوٹی بات پر نوٹس جاری کر رہا ہے لیکن وہ بی جے پی اور وزیر اعظم پر کاروائی کرنے سے بچ رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جھوٹ سر چڑھ کر بولے گا یا عوام کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کو مجبور ہوگا۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا