بھری بزم میں راز کی بات۔۔۔

0
59
  • جو چیز انسان کو  وحشیت ،درندگی ،بر بریت ،بے شعو ر ، بے  اختیار  اور  بے  خود  انسانی  گروہ سے نکال کر ایک مہذب، متمدن،خود آگاہ  اورصاحب شعور انسان بناتی ہے  وہ ہیـــ۔۔۔ـ تعلیم ۔۔  یہی وہ ہتھیار ہے جس سے قومیں افق کی بلندیوں تک پیونچتی ہیں۔ لیکن آئے دن ملک بھر میںتعلیمی نظام پر جس طرح سے ہملے ہو رہے ۔اس سے  ہر با شعور  انسان  واقف ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں بھی وقتاـ ـــ۔فوقتا تعلیم کی بہتری کے لئے مختلف طریقہ کار اپنائے گئے۔ ریاست میں کولیشن سرکار کے آنے کے بعد جب تعلیمی نظام جناب نعیم اختر صاحب کو سونپا گیا ۔  تو اس وقت بھی تعلیمی نظام کو درست کرنے کے لئے کئی کوششیں کی گئی تھیں ۔جن میں سے انہوں نے ایک قد م ر ہبر تعلیم اساتذہ کی طرف بھی بڑھایا  تھا۔  جوکہ ایک اسکول میں  آر۔ ٹی، ٹیچر  کو گائے پر مظمون نہ لکھ سکنے کی  وجہ سے بڑھایا تھا ۔ اس دوران ریاست میں طرح طرح کی چے مے گوئیاں شروع ہو گیں تھیں ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس کی ہر طرح  کی مخالفت کی ۔ جبکہ وز یر تعلیم نے اساتزہ کی حالت دیکھ کر ریاست بھر میں آر۔ٹی ۔ٹیچرس  کا اسکرین نگ ٹسٹ کرنے کا فیصلہ لیا تھا ۔ایک طرف اساتذہ ا س کا لے دھبے کو مٹانے کیلئے ریاست بھر میں ہرتال اور  کرنے لگے۔جگہ جگہ  مظاہرے ہونے لگے ۔ اور کچھ  لوگ( تعلیم کامتوسط طبقہ) آر ۔ ٹی ۔ ٹیچرس کا ساتھ دینے لگا۔ کیوں کے آر۔ ٹی ۔ٹیچرس جانتے تھے کہ اگر اسکرین نگ ٹسٹ ہوا تو  شائدہی کشتی پار لگ پائے ۔اساتذہ اس چیز کے بالکل خلاف تھے۔تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  وہ کس حد تک اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔  جو چیز انسان کو  وحشیت ،درندگی ،بر بریت ،بے شعو ر ، بے  اختیار  اور  بے  خود  انسانی  گروہ سے نکال کر ایک مہذب، متمدن،خود آگاہ  اورصاحب شعور انسان بناتی ہے  وہ ہیـــ۔۔۔ـ تعلیم ۔۔  یہی وہ ہتھیار ہے جس سے قومیں افق کی بلندیوں تک پیونچتی ہیں۔ لیکن آئے دن ملک بھر میںتعلیمی نظام پر جس طرح سے ہملے ہو رہے ۔اس سے  ہر با شعور  انسان  واقف ہے۔ ریاست جموں و کشمیر میں بھی وقتاـ ـــ۔فوقتا تعلیم کی بہتری کے لئے مختلف طریقہ کار اپنائے گئے۔ ریاست میں کولیشن سرکار کے آنے کے بعد جب تعلیمی نظام جناب نعیم اختر صاحب کو سونپا گیا ۔  تو اس وقت بھی تعلیمی نظام کو درست کرنے کے لئے کئی کوششیں کی گئی تھیں ۔جن میں سے انہوں نے ایک قد م ر ہبر تعلیم اساتذہ کی طرف بھی بڑھایا  تھا۔  جوکہ ایک اسکول میں  آر۔ ٹی، ٹیچر  کو گائے پر مظمون نہ لکھ سکنے کی  وجہ سے بڑھایا تھا ۔ اس دوران ریاست میں طرح طرح کی چے مے گوئیاں شروع ہو گیں تھیں ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس کی ہر طرح  کی مخالفت کی ۔ جبکہ وز یر تعلیم نے اساتزہ کی حالت دیکھ کر ریاست بھر میں آر۔ٹی ۔ٹیچرس  کا اسکرین نگ ٹسٹ کرنے کا فیصلہ لیا تھا ۔ایک طرف اساتذہ ا س کا لے دھبے کو مٹانے کیلئے ریاست بھر میں ہرتال اور  کرنے لگے۔جگہ جگہ  مظاہرے ہونے لگے ۔ اور کچھ  لوگ( تعلیم کامتوسط طبقہ) آر ۔ ٹی ۔ ٹیچرس کا ساتھ دینے لگا۔ کیوں کے آر۔ ٹی ۔ٹیچرس جانتے تھے کہ اگر اسکرین نگ ٹسٹ ہوا تو  شائدہی کشتی پار لگ پائے ۔اساتذہ اس چیز کے بالکل خلاف تھے۔تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ  وہ کس حد تک اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔  لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے آخر ایک استاذ جو ایک گائے پر مضمون نہ لکھ سکے  وہ بچوں کو کیا پڑھاتا ہو گا ؟؟ چونکہ ریاست بھر میں جو آر۔ٹی اساتذہ ہیں وہ گورنمنٹ اسکولوں میںغر یب لوگوں کے بچوں کو پڑھاتے ہیں ۔مالداروں کی بچے تو اچھے اچھے پرائویٹ اسکولوں میں ہوتے ہیں۔ان غریب لوگوں کے مستقبل کا فیصلہ ان ہی اساتذہ کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ جو ان غریب بچوں کے مستقبل کو تاریک بنا دیتے ہیں۔اس  کا دوشی ہر استاذ کو نہیں ٹھہرایا جاتا لیکن پھر بھی ستر فیصد اساتذہ بچوں کے مستقبل کو تاب ناک بنانے میں  نا کام نظر آرہے ہیں۔ لیکن سوال پھر بھی قایم ہے۔ ۔۔۔آخر یہ بچے کون ہوتے ہیں؟؟؟ جن کا مستقبل اندھیرے میں جا رہا ہوتا ہے؟؟؟؟۔۔۔۔۔وہ بچے ظاہر سی بات ہے ان غریب لوگوں کے ہوں گے جن کے پاس اتنے پیسے نہیںہوتے ۔جن سے وہ پرائویٹ اسکولوں کی فیس ادا کر پائیں۔ وہ مجبورا اپنے بچوں کو ان سرکاری اسکولوں میں داخل کراتے ہیں۔ جہاں اساتذہ اپنے فرائض ہی انجام نہیں دیتے ۔اور دوسری طرف ان اساتذہ کا تعلیمی معار ہی اتنا گرا ہوا ہی کی گائے پر مضمون لکھنے سے قاصر ہیں ۔ وہ اساتذہ ان  بچوں کو جدید دور کے compititionکے لئے کیسے تیار کریں گے۔ ٓخر وہ کلاس میں اسی بات پر اکتفا  کرتے ہیں کہ صفحہ نمبرفلاں کے سوال نمبر فلاں کو یاد کر کے آجانا۔  غورطلب بات یہ ہے کہ جہاں ملک کو  Super Power,Digital India Modern  India  نہ جانے کون کون سے القاب سے نوازنے میں حکومت لگی ہوئی ہے۔ اور یہاں کا تعلیمی معار اساتذہ اور طلبہ کا یہ ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن قوم کے ٹھیکیداروں  کا کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ ان کے بچے تو اعلی اسکولوں ،یونیورسٹیوں ۔اور بیرونی ممالک میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ اور کل آکر ہمارے ہی ٹھیکیدار بنیں گے۔ در اصل مقصود اساتذہ کی محالفت کرنا نہیںبلکہ ایک  استاذ کی ہاتھوں  ہی پڑھ کر اے۔ پی۔جے ابولکلام بنتا ہے۔ استاذ کے ہاتھوں پڑھ کر شاہ فیصل بنتا ہے ۔استاذ کے ہی ہاتھوں پڑھ کر سر سید احمد خاں بنتا ہے۔ غرض ہر کامیاب ہستی کے پیچھے ایک  استاذ کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔لیکن  کامیاب لوگوں کی کامیابی کی بڑی وجہ  ان اساتذہ کی سچائی،ایمنداری محنت،انصاف کی تعلیم نہیں ہوتی ہے اور سب سے بڑی بات ان اساتذہ کا تعلیمی معار بھی بلند ہی ہو گا جس سے  ایک ہستی بننے میں مدد ملی۔ اور یہاں ان اساتذہ سے نکلا ہوا طالب علم  جا کر دسویں کے امتحان میں مات کھا جاتا ہے۔ اور پھر وہ اپنی لئے تلاش معاش میں یا تو مزدور بن جاتا ہے۔ یا ڈاکو  اور چور بن جاتا ہے  یا کسی کے اکسانے پر دہشت گردی قبول کر لیتا ہے غرض وہ ہر طرح کی چیز کو قبول کر لیتا ہے۔ چوں کہ اس کی تعلیمی لیاقت اتنی نہیں ہوتی کہ وہ اپنی لئے راہ راست تلاش کر سکے ۔تو پھر شائد یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے کہ اس تمام خرا بی اور اچھائی میں اساتذہ اکرام کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا اس نظام کو سدھارنے میں قوم کے با شعورلوگوں کو قدم اٹھانا پڑے گا ۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی قوم نے ترقی کی ہے وہ صرف اور صرف تعلیم کی بنیاد پرکی ہے اسلئے ہمارا  اولین مقصد اس نظام کو درست کرنا ہوگاتب جا کر یہ قوم اس دلدل سے نکل سکتی ہے۔۔۔۰۰۰۰۰   بھری بزم میں راز کی بات کہ دی بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا