بچوں کا بچپن اور والدین 

0
165

  سیدہ تبسّم منظور ناڑکر 
ممبئی ،مہاراشٹرا۔
9870971871

آج کے اس دور جدید میں سب کچھ بدل گیا ہے ۔ مانا کہ زمانہ بہت ترقی کر رہا ہے ۔ پھر بھی میں کہوں گی ایک وقت تھا جب معصوم دودھ پیتے بچے رویا کرتے تھے تو مائیں بچوں کو بہلانے کے لئے ان ہی کی طرح توتلی زبان میں باتیں کیا کرتی تھیں ۔جب بچوں کو کھانا کھلانا ہوتا تو فضاؤں میں اڑتے پرندے، پیڑ پودے، جانور دکھا دکھا کر کھانا کھلایا کرتی تھیں ۔پیار بھرے انداز میں کبھی بچوں کو چندا، تارا، سونا،ہیرا نہ جانے کئی طرح کے خوبصورت ناموں سے پکارا کرتی تھیں ۔ بچوں کو کبھی راجہ رانی کبھی پریوں کی کبھی شہزادیوں کی کبھی اماں باجی کی چھوٹی چھوٹی دلچسپ کہانیاں سنایا کرتی تھیں ۔
ان سب باتوں کی بچوں میں سمجھ تو نہیں ہوتی تھی پر بچے بہل ضرور جاتے تھے ۔ماں پیار بھرے انداز میں بچے سے مخاطب ہوا کرتی تھی ۔بچوں کو والدین کی محبت کا احساس ہوتا تھا، اپنائیت بڑھتی، احترام اور انس میں اضافہ ہوتا تھا ۔باتوں باتوں میں بچے کتنا کچھ سیکھ جایا کرتے تھے ۔ گھر کے کاموں کو ختم کرکے مائیں تھوڑا بہت بچوں کے ساتھ کھیلا کرتی ۔ بچوں کو پاس بیٹھا کر دین و حدیث کی اللہ اور رسول کی پیاری پیاری باتوں سے روشناس کراتی تھیں ۔ بچوں کو سارے رشتے اور رشتے داری سے آگاہ کراتی تھی اس لئے بچے بھی ہر ایک رشتے سے بخوبی واقف ہوا کرتے تھے ۔تہذیب اور تمیز سیکھ جایا کرتے تھے ۔ دادا، دادی، نانا، نانی کے پیر دباتے بچے پوری گنتی سیکھ جایا کرتے تھے ۔ جو والدین جتنی توجہ اور وقت بچوں کو دیتے ہیں ۔وہ بچے احساس کمتری سے دور ہوتے ہیں ان کے دلوں میں خوف اور ڈر نہیں ہوتا بلکہ اپنے بڑوں کے لئے عزت احترام اور پیار ہوتا ہے ۔
یہ تمام ماحول اور طریقہ فطری تھا ۔ اس میں کوئی بناوٹ نہیں تھی لیکن جدید دور کی تیز رفتار زندگی نے والدین سے بچوں کا وقت بھی چھین لیا ۔ اب جب بچہ روتا ہے تو ماں موبائل ہاتھ میں تھما کر چپ کروانے کی کوشش کرتی ہے ۔ لوری سنانے کا تو رواج ہی ختم ہو گیا ۔چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنانے کی بجائے ٹی وی پر طرح طرح کے کارٹون لگا کر دیئے جاتے ہیں ۔اور مائیں اپنی جان چھڑا لیتی ہیں ۔کھانا کھلانے کے لئے بچوں کے ہاتھ میں موبائل یا پھر ٹی وی پر کارٹون لگا ہوتا ہے ۔ نہ ہی مائیں ان کو کھانا کھلاتے وقت کوئی اچھی باتیں سیکھاتی ہیں ۔نہ کھانے کے آداب بتاتی ۔اگر ٹی وی اور موبائل نہ ملے تو مجال ہے کے بچہ کھانا کھائے گا ۔اور صرف بچوں کے ہاتھ میں ہی نہیں بلکہ ماؤں کے ہاتھ میں بھی کھانا کھاتے وقت موبائل ہوتا ہے ۔تو بچے کیا سیکھیں گے ۔جو ماں باپ کریں گے وہی بچے کریں گے ۔ کیونکہ بچے سیکھانے سے نہیں بلکہ دیکھنے سے جلدی سیکھ جاتے ہیں ۔
نہ بچوں میں رشتوں کی قدر ہے نہ سمجھ ہے ۔ نہ ہی ان میں خدمت کرنے کا جذبہ ہے ۔خود والدین کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتے تو بچے کیسے رشتوں کو سمجھیں گے ۔ والد باہر کے کاموں میں مصروف ہوتے ہیں اور مائیں گھر کے کاموں میں یا پھر ٹی وی پر کوئی سیریل دیکھنے میں مصروف ہیں ۔ حالانکہ اب ہر طرح سے مشین کا زمانہ ہے ۔سب کام مشین سے ہو جاتے ہیں ۔باقی کام کے لئے کام والی آتی ہے ۔پھر بھی ماؤں کے کام ختم نہیں ہوتے ۔ بچوں کے لئے ماؤں کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔انھیں ٹی وی اور موبائل کے حوالے کر دیا جاتا ہے ۔پہلے مائیں گھر کا کام بھی خود کرتی تھی اور بچوں کی نگہداشت اور تربیت بھی خود کیا کرتی تھیں ۔
یہی وجہ ہے کہ بچے تھوڑے بڑے ہو جائیں تو والدین کے ساتھ ان کا تعلق روایتی ہوتا ہے ۔محبت اپنائیت کا وہ عالم نہیں ہوتا ہے جو ہم اپنے بچپن میں محسوس کرتے تھے ۔بچوں  کے اندر کی معصومیت اور بچپنا وقت سے پہلے ہی ختم   ہو جاتا ہے ۔ جو سوال بچوں کو پندرہ سال کی عمر میں کرنا چاہئے وہ سوال آج بچے آٹھ سال کی عمر میں ہی کرتے ہیں ۔ اس ٹی وی اور موبائل کی وجہ سے بچے وقت سے پہلے ہی بڑے ہو جاتے ہیں ۔
ہم بے شک جدید دور کی تمام ایجادات اور سہولیات سے فائدہ اٹھائیں لیکن خدارا بچوں کو ان کا فطری ماحول فراہم کریں ۔ اچھے برے کی پہچان کروائیں،  رشتوں کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کریں ۔ ان کے پاس بیٹھ کر اللہ اور رسول کی باتیں بتائیں ۔بچوں کو ان کے بچپنے سے محفوظ ہونے دیں ۔ بچوں کی تربیت کی ذمے داری خود اٹھائیں ۔موبائل ٹی وی انٹرنیٹ کے حوالے نہ کریں ۔ بچوں کو جیسے ڈھالیں گے ویسے ہی وہ ڈھل جائیں گے ۔انہیں وقت کا پابند بنائیں، وقت پر کھانا، وقت پر کھیلنا، وقت پر ٹی وی دیکھنا، وقت پر سونا، اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت دینا بھی آپ ہی کے ہاتھ میں ہے ۔
آپ ایسا نہ کیا تو سب سے زیادہ نقصان والدین کو ہی اٹھانا پڑے گا ۔ اگر آپ اپنی اولاد کو اپنا دوست بنا کر اچھا انسان نہیں بنائیں گے تو برے لوگ انہیں اپنا دوست بنا کر برا انسان ضرور بنائیں گے ۔جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں تو والدین کہتے ہیں ۔بچے ہمارا کہنا نہیں مانتے ، وقت نہیں دیتے، عزت نہیں کرتے ۔اب جو بویا ہے وہی کاٹیں گے نا !  ماں باپ نے اگر انہیں اچھے برے کی رشتوں ناطوں کی،  ادب واحترام کی باتیں سیکھائی ہوتی تو یہ دن دیکھنے نہیں پڑتے ۔ اب بھی وقت ہے  خود کو اور اپنے بچوں کو سنبھال لیں ۔ بناوٹی ماحول کی بجائے انہیں فطری ماحول فراہم کریں ۔ میری سارے والدین سے گزارش ہے اپنے بچوں کی نگہداشت اور تربیت کی ذمے داری خود اٹھائیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا