زین العابدین ندوی
مقیم حال: لکھنو
مقیم حال: لکھنو
عالمی حالات ہمارے سامنے ہیں جہاں پوری دنیا دو حصوں میں منقسم نظر آتی ہے ، بڑا حصہ ان طاغوتی طاقتوں کا ہے مادیت پرستی جن کا مقصد زندگی اورظلم وزیادتی گویا فطرت ثانیہ بنی ہے ، دوسرا اور محدود طبقہ ان مظلوموں کا ہے جن پر یہودیت زدہ اسلامی ممالک سمیت باطل طاقتوں نے دائرہ زندگی کو ایسا تنگ کر رکھا ہے جس کی تصویریں ہر اس انسان کا کلیجہ چیر دیتی ہیں جس میں ذرا بھی انسانیت باقی ہے ، ان بے سر وسامان نہتے مظلوموں کا گناہ یہ ہے کہ وہ اپنے حق کی بات کرتے ہیں ، اپنے مذہب کو اپنی شناخت اور اسی کو اپنی تہذیب کے طور پر جانتے ہیںجس سے سر مو انحراف انہیں برداشت نہیں ، پوری دنیا ظالموں کا ننگا ناچ اور اعلانیہ زیادتی بالمشافہ دیکھ رہی ہے لیکن حال یہ کہ عدل وانصاف کے بلند وبانگ دعوے کرنے والے عالمی ادارہ خود شریک جرم نظر آتے ہیں۔
ملک عزیز بھارت کے حالات بھی دن بدن انتہائی مسموم ہوتے جارہے ہیں ،ملک کے نظم وانتظام اورامن وسکون کو غارت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ، ایک ایسا ماحول بنانے کی تیاری ہے کہ اکثریت واقلیت طبقہ باہم ایک دوسرے کو دیکھنا گوارا نہ کرے اور نفرت کی اس کھیتی سے سیاسی کھیل جاری رکھا جا سکے ، آپ نے دیکھا ایکے بعد دیگرے جس طرح مساجد کو، مسلم کمیونٹی کو اور ان کے پرسنل لاء کو نشانہ بنایا گیا اور مسلسل بنایا جا رہا ہے وہ اس تیاری کا بڑاحصہ ہے جو کہیں نہ کہیں ملک کے امن وامان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے جس کا نقصان کسی متعین کمیونٹی تک محدود نہیں بلکہ جب آگ لگے گی تو پھر نہ جانے کتنے اور کس کے آشیانے خاکستر ہوں گے ، نہیں سمجھا گیا اس کو تو پھر نقصان سب کا ہے ۔
ملک کی تاریخ کا غیرجانبدارانہ مطالعہ یہ آئینہ دکھاتا ہے کہ محبت ورواداری کی سرزمین بھارت میں آج جن کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ان کی حب الوطنی اور رعایہ پروری کا حال یہ تھا کہ بادشاہ ہونے کے باوجود اپنی محنت کی کمائی پر گزربسر کرتے تھے ، اس درجہ محتاط اشخاص کے خلاف یہ الزام کہ وہ مندرتوڑ کر مسجد بناتے تھے نہ صرف یہ کہ بے بنیاد بلکہ غیر معقول باتیں ہیں جن کو قبول کرنا ملک کو بڑے خطرے میں جھونکنے کے مرادف ہے ،حالات کا تجزیہ نہیں بلکہ مشاہدہ یہ بتا رہا ہے کہ اس وقت ملک پر حکمرانی کر رہے طبقہ نے ملک کو آتنک گاہ بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے جہاں انصاف کا سرعام خون بہایا جاتا ہے اور پورا ملک خاموش تماشائی رہتا ہے ، بدعنوانی کے بڑھتے اس طوفان اگر کوئی روکنے کی بات کرتا حق اور انصاف کی اپیل کرتا ہے اور مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنے کی کوشش کرتا ہے تو کال کوٹھری میں اسے قید کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ بہیمانہ سلوک کرنے میں کوئی کسر نہیں رکھا جاتا ۔
ایسے میں ایک ہندوستانی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم ظلم کو کسی صورت برداشت نہ کریں اور اپنے ایمانی تقاضہ کو پورا کرنے میں کسی کی مداخلت کو خاطر میں نہ لائیں اس کے لئے ہمیں خواہ کچھ بھی کرنا پڑے ، ساتھ ہی ملک کی سالمیت کو برسراقتدار جماعت سے جو خطرہ لاحق ہے اور آئندہ لاحق ہونے والا ہے اسے خود سمجھیں اور اپنی سطح پر بیداری کی کوشش کریں ، حالات سے بالکل نہ گھبرائیں بلکہ پوری مضبوطی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کریں اور یہ یقین رکھیں کہ جو کچھ ملک میں بلکہ اس بڑھ کر پوری دنیا میں اسلام دشمنی اور مسلم مخالفت کی ایک لہر ہے اس کی بڑی وجہ ان کی شان وشوکت اور قو ت و طاقت نہیں بلکہ ان کا کھلا خوف ہے ، یہ ان کے خوف اور سراسیمگی کی کھلی تصویر ہے ، انہیں خوف ہے ہماری اس طاقت سے جس سے ایمان کہا جاتا ہے ، وہ ہمیں اس سے سبکدوش کرنا چاہتے ہیں اس لئے اس ایمان کی حفاظت ہی ہمارا مقصد زندگی ہو نا چاہئے ۔۔۔