محمد فداء المصطفیٰ گیاوی ؔ
رابطہ نمبر:9037099731
دارالہدی اسلامک یونیورسٹی ،ملاپورم ،کیرالا
اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملت حامئ اہلسنت قاطع بدعت و ضلالت ناشر مسلک اہلسنت و جماعت کنز الکرامت امام عشق و محبت الشاہ امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ حضور سر ور دوعالم فخر کائنات احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں کچھ اس طرح قلم طراز ہیں :
تیرے خلق کو حق نے عظیم کہا تیری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگاشہا ترے خالق حسن و ادا کی قسم
وہ خدا نے ہے مربتہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلام مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام و بقا کی قسم
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ کے بارے میں خلق خدا سے کیا پوچھنا؟ جب کہ خود خالق اخلاق نے یہ فرما دیا کہ "انّک لعلی خلق عظیم”ترجمہ: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے ۔ یعنی اے حبیب! بلا شبہ آپ اخلاق کے بڑے درجہ پر ہیں۔ (کنزالایمان ، پ:29،سورئہ القلم،آیت:04)۔
آج تقریباً چودہ سو برس گزر جانے کے بعد دشمنان رسول کی کیا مجال کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بد اخلاق کہہ سکیں، اس وقت جب کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کے مجمعوں میں اپنے عملی کردار کا مظاہرہ فرما رہے تھے۔ خداوند قدوس نے قرآن میں اعلان فرمایا کہ:فبمارحمۃ من اللہ لنت لہم و لو کنت فظا غلیظ القلب لا نفضوا من حولک ۔ترجمہ:تو کیسی کچھ اللہ کی مہر بانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دب ہوئی اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گردے سے پریشن ہو جاتے ۔(سورئہ آل عمرران ، آیت :200)۔یعنی اے حبیب! خدا کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں اگر آپ کہیں بد اخلاق اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔
دشمنانِ رسول نے قرآن کی زبان سے یہ خدائی اعلان سنا مگر کسی کی مجال نہیں ہوئی کہ اس کے خلاف کوئی بیان دیتا یا اس آفتاب سے زیادہ روشن حقیقت کو جھٹلاتا بلکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بڑے سے بڑے دشمن نے بھی اس کا اعتراف کیا کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بہت ہی بلند اخلاق، نرم خو اور رحیم و کریم ہیں۔
بہر حال حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم محاسن اخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔ یعنی علم و عفو، رحم و کرم، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، عدم تشدد، شجاعت، ایفاء عہد، حسن،معاملہ، صبر و قناعت، نرم گفتاری، خوش روئی، ملنساری، مساوات، غمخواری، سادگی و بے تکلفی، تواضع و انکساری، حیاداری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فائز و سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے ایک جملے میں اس کی صحیح تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ” کان خلقہ القرآن ” یعنی تعلیمات قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے اخلاق تھے۔(دلائل النبوۃ،لامام البیہقی،ج:1ص:301)۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عقل
چونکہ تمام علمی وعملی اور اخلاقی کمالات کا دارو مدار عقل ہی پر ہے اس لئے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عقل کے بارے میں بھی کچھ تحریر کر دینا انتہائی ضروری ہے۔
چنانچہ اس سلسلے میں ہم یہاں صرف ایک حوالہ تحریر کرتے ہیں: وہب بن منبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ میں نے اکہتر (۱۷) کتابوں میں یہ پڑھا ہے کہ جب سے دنیا عالم وجود میں آئی ہے اس وقت سے قیامت تک کے تمام انسانوں کی عقلوں کا اگر حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی عقل شریف سے موازنہ کیا جائے تو تمام انسانوں کی عقلوں کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عقل شریف سے وہی نسبت ہوگی جو ایک ریت کے ذرے کو تمام دنیا کے ریگستانوں سے نسبت ہے۔ یعنی تمام انسانوں کی عقلیں ایک ریت کے ذرے کے برابر ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عقل شریف تمام دنیا کے ریگستانوں کے برابر ہے۔(شفاء شریف، ج :1،ص:67 )۔
حلم وعفو
حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو پہلے ایک یہودی عالم تھے انہوں نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے کھجور خریدی تھیں۔ کھجور دینے کی مدت میں ابھی ایک دو دن باقی تھے کہ انہوں نے بھرے مجمع میں حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے انتہائی تلخ و ترش لہجے میں سختی کے ساتھ تقاضا کیا اور آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا دامن اور چادر پکڑ کر نہایت تند و تیز نظروں سے آپ کی طرف دیکھا اور چلا چلا کر یہ کہا کہ اے محمد! (صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) تم سب عبد المطلب کی اولاد کا یہی طریقہ ہے کہ تم لوگ ہمیشہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں دیر لگایا کرتے ہو اور ٹال مٹول کرنا تم لوگوں کی عادت بن چکی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپے سے باہر ہو گئے اور نہایت غضب ناک اور زہریلی نظروں سے گھور گھور کر کہا کہ” اے خدا کے دشمن! تو خدا کے رسول سے ایسی گستاخی کر رہا ہے؟ خدا کی قسم! اگر حضورصلی اللہ علی علیہ سلم کا ادب مانع نہ ہوتا تو میں ابھی ابھی اپنی تلوار سے تیرا سر اڑا دیتا”۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اے عمر( رضی اللہ تعالی عنہ) تم کیا کہہ رہے ہو؟ تمہیں تو یہ چاہیے تھا کہ مجھے کو ادائے حق کی ترغیب دے کر اور اس کو نرمی کے ساتھ تقاضا کرنے کی ہدایت کر کے ہم دونوں کی مدد کرتے”۔
پھر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اے عمر( رضی اللہ تعالی عنہ) اس کو اس کے حق کے برابر کھجوریں دے دو، اور کچھ زیادہ بھی دے دو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے جب حق سے زیادہ کھجور میں دیں تو حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے عمر! میرے حق سے زیادہ کیوں دے رہے ہو؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ چونکہ میں نے ٹیڑھی ترچھی نظروں سے دیکھ کر تم کو خوفزدہ کر دیا تھا اس لئے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے تمہاری دلجوئی و دلداری کے لئے تمہارے حق سے کچھ زیاد و د ینے کا مجھے حکم دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت زید بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ اے عمر! کیا تم مجھے پہچانتے ہو میں زید بن سعنہ ہوں؟ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تم وہی زید بن سعنہ ہو جو یہودیوں کا بہت بڑا عالم ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں۔ یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے دریافت فرمایا کہ پھر تم نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایسی گستاخی کیوں کی؟ حضرت زید بن سعنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا کہ اے عمر ( رضی اللہ تعالی عنہ) در اصل بات یہ ہے کہ میں نے تو رات میں نبی آخرالزمان کی جتنی نشانیاں پڑھی تھیں ان سب کو میں نے ان کی ذات میں دیکھ لیا مگر دو نشانیوں کے بارے میں مجھے ان کا امتحان کرنا باقی رہ گیا تھا۔ ایک یہ کہ ان کا علم جہل پر غالب رہے گا اور جس قدر زیادہ ان کے ساتھ جہل کا برتاؤ کیا جائے گا اس قدر ان کا علم بڑھتا جائے گا۔
چنانچہ میں نے اس ترکیب سے ان دونوں نشانیوں کو بھی ان میں دیکھ لیا اور میں شہادت دیتا ہو کہ یقیناً یہ نبی برحق ہیں اور اے عمر( رضی اللہ تعالی عنہ) میں بہت ہی مالدار آدمی ہوں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنا آدھا مال حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی امت پر صدقہ کر دیا ۔پھر یہ بارگاہ رسالت میں آئے اور کلمہ پڑھ کر دامن اسلام میں آگئے۔ (دلائل النبوۃ ،لامام البیہقی، ج:1ص:278)۔
تواضع
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان تواضع بھی سارے عالم سے نرالی تھی، اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو یہ اختیار عطا فرمایا کہ اے حبیب (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم )اگر آپ چاہیں تو شاہانہ زندگی بسر فرما ئیں اور اگر آپ( صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم )چاہیں تو ایک بندے کی زندگی گزاریں، تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بندہ بن کر زندگی گزارنے کو پسند فرمایا۔ حضرت اسرافیل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ تعالی علیہ سلم کی یہ تواضع دیکھ کر فرمایا کہ یا رسول اللہ( صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) آپ کی اس تواضع کے سبب سے اللہ تعالی نے آپ (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کو یہ جلیل القدر مرتبہ عطا فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم تمام اولاد آدم میں سب سے زیادہ بزرگ اور بلند مرتبہ پر ہیں اور قیامت کے دن سب سے پہلے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنی قبر انور سے اٹھائے جائیں گے اور میدان حشر میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم شفاعت فرمائیں گے۔ (شفاء شریف ،ج:1،ص:130)۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے عصاء مبارک پر ٹیک لگاتے ہوئے کا شانہ نبوت سے باہر تشریف لائے تو ہم سب صحابہ تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے یہ دیکھ کر تواضع کے طور پر ارشاد فرمایا کہ تم لوگ اس طرح نہ کھڑے رہا کرو جس طرح عجمی لوگ ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے رہا کرتے ہیں میں تو ایک بندہ ہوں بندوں کی طرح کھاتا ہوں اور بندوں کی طرح بیٹھتا ہوں۔(شفاء شریف ،ج:1،ص:130)۔
سخاوت
حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شانِ سخاوت محتاج بیان نہیں۔حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سخاوت کسی سائل کے سوال ہی پر محدود و منحصر نہیں تھی بلکہ بغیر مانگے ہوئے بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس قدر زیادہ مال عطا فر ما دیا کہ عالم سخاوت میں اس کی مثال نادر و نایاب ہے۔ آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے بہت بڑے دشمن امیہ بن خلف کا فر کا بیٹا صفوان بن امیہ جب مقام جعرانہ میں حاضر دربار ہوا تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس کو اتنی کثیر تعداد میں اونٹوں اور بکریوں کا ریوڑ عطا فر ما دیا کہ دو پہاڑیوں کے درمیان کا میدان بھر گیا۔
چنانچہ صفوان مکہ جا کر چلا چلا کر اپنی قوم سے کہنے لگا کہ اے لوگو! دامن اسلام میں آ جاؤ محمد (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) اس قدر زیادہ مال عطا فر ماتے ہیں کہ فقیری کا کوئی اندیشہ ہی باقی نہیں رہتا اس کے بعد پھر صفوان رضی اللہ تعالی عنہ خود بھی مسلمان ہو گئے۔ (شرح زرقانی ، ج:1،ص:109,110)۔
بہر حال آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے جو دو سخاوت کے احوال اس قدر عدیم المثال اور اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان کا تذکرہ تحریر کیا جائے تو بہت سی کتابوں کا انبار تیار ہو سکتا ہے ۔ اللہ رب العزت ہم سب مسلمانوں کو حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر زیادہ سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دارین کی سعادتوں سے مالا مال کرے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین)