’’ آپ ﷺ کی سنت کی پیروی آج مسلمان کے لئے مشکل ترین کام بن گیا ہے ‘‘

0
0

 

قیصر محمود عراقی

اللہ رب العزت کی صفت خلاقی کا اعلیٰ ترین شاہکار کون ہے ؟ حُسنِ خلق کی انتہا کون ہے ؟ بندگی کی معراج پر کون ہے ؟ کائنات میں بے مثل کون ہے ؟حکمت اور دانائی کے بلند تر ین مقام پر کون فائز تھا ؟ کس کی رسائی وہاں تک ہو ئی جہاں پہ فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں ؟ آدم و حوا کی اولاد میں سے وہ واحد ہستی کون سی ہے جس کا اٹھنا، بیٹھنا ، چلنا پھر نا ، کھانا پینا، سونا جاگنا ، دیکھنا سننا ، رہنا سہنا اور پہننا اُتارنا تاریخ نے مقدس امانت کے طور پر محفوظ کر لیا ؟ وہ کون ہے جس کی تجارت دیانت کی علامت تھی ؟ وہ کون سی ہستی تھی جس کی امانت داری کی قسم اس کی جان کے دشمن بھی کھاتے تھے ؟ غریب کی پشت پناہی، یتیم کی سر پرستی، بچوں سے شفقت ، بڑوں کی عزت و احترام ، بیمار کی تیماداری میں کون انسانوں میں سر فہرست ہے ؟ عورتوں کے حقوق اور غلاموں سے اچھے سلوک کا دنیا میں مبلغ اعظم کون ہے ؟ عہد نبھانا ، وعدہ وفا کر نا ،دنیا کو کس نے سکھایا ؟ وہ کون سی ہستی ہے جس کی زبان پر صرف حق جاری ہوتا ہے اور جس سے صرف عد ل کا صدور ہو تا ؟ کسے جدید دور کے محققین نے تاریخ کا دھا را موڑٖ دینے والوں سے سر فہرست قرار دیا؟ یعنی عظیم تر ین انقلابی تسلیم کیا ؟ ایک مسلمان کے لئے اس پر چہ سوالات کا جواب دنیا آسان تر ین کام ہے ، جس کے لئے ایک لمحہ بھی سوچ بچار کی ضرورت نہیں یقینا یہ وہی ہستی ہے جس پر کائنات کے خالق و مالک نے خو ددرود و سلام بھیجا ۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ محبت کے تقریری اور تحریری دعوں کے باوجود اس مقدس تر ین ہستی کے فرمودات پر عمل اور اس کی سنت کی پیروی آج مسلمان کے لئے مشکل تر ین کام بن گیا ہے ۔
۱۲ ؍ ربیع الاول پہلے بارہ وفات کہلاتی تھی، پھر عید میلاد النبی ﷺ بن گئی ، لیکن میں اس بحث میں نہیں اُلجھتا کہ آپ ﷺ کی حقیقی تاریخ پیدائش یہی ہے یا نہیں ۔ مورخین کی اکثریت ربیع الاول کی مختلف تاریخیں بتاتی ہے ۔ بعض محققین ربیع الاول کے علاوہ دوسرے مہینوں کا بھی ذکر کر تے ہیں ۔ بہر حال ہم پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ روز قیامت کسی مسلمان سے یہ نہیں پوچھا جا ئے گا کہ بتائو ہم نے کس ماہ اور کس دن اپنے محبوب کو دنیا میں بھیجا تھا اور تم نے اس روز جشن منایا تھا یا نہیں ؟ آپ ﷺ کی ولادت کا جشن منانے والوں کی خدمت عالیہ میں عرض ہے کہ وہ امت مسلمہ کے نوجوانوں کو یہ بھی بتائیں کہ یوم طائف آپﷺ پر کیا گذری تھی ؟ حرم شریف میں حالت ِ سجدہ میں آپ کے سرِ مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دی گئی تھی ۔ آپ ﷺ اپنے قبیلے سمیت شعب ابی طالب میں تین سال قید رہے اور معاشی بائیکاٹ کا سامنا کیا ، جس کے دوران آپ ﷺ اور اہل قبیلہ درختوں کے پتے چباتے اور سوکھے ہو ئے چمڑے اُبال کر اس کا پانی پیتے رہے تا کہ جان و جسم کا رشتہ بر قرار رکھا جا سکے ۔ غزوہ اُحد میں دندانِ مبارک بھی شہید ہو ئے اس کے باوجود آپ اپنے مقدس مشن سے ایک لمحے کے لئے بھی غافل نہ ہو ئے ۔ اس طرح لالچ اور تر غیب کے تمام ہتھکنڈوں کے جواب میں فرمایا کہ اگر تم میرے ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے ہاتھ پر سورج بھی رکھدو تب بھی احکامات خداندی سے سرِ موانحراف نہیں کرو نگا ۔
خطبہ حجتہ الوداع کا غور سے مطالعہ کریں ۔ نبی اکرام ﷺ نے جہاں اپنے فرض منصبی کی ادائیگی کا گواہ مسلمانوں کے انبوہ کثیر کو بنایا وہاں اُمت کو یہ ذمہ داری بھی سونپی کہ وہ اس دعوت کو دنیا بھر میں پھیلانے میں کوئی دقیفہ فرد گذاشت نہیں کرینگے ۔ ہم غور کرنے کی تکلیف گوارا کریں تو بڑی آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ اُمت مسلمہ آج ذلت و رسوائی سے کیوں دوچار ہے ؟ دشمنی کا خوف ہمارے اذہان و قلوب پر کیوں مسلط ہے اور شکست اور ہزیمت ہمارا مقصد کیوں ٹھہر گیا ہے ؟ اس لئے کہ محسن انسانیت ﷺ سے ہماری زبانی محبت اطاعت کی آمیزش نہیں رکھتی ۔ نبی پاک ﷺ کا مقصد بعثت اللہ کی کبریائی کو دنیا میں کار فرما کر نا اور اس نظام و عدل و قسط کو قائم کر نا تھا جس کے بنیادی اصول و قواعد اللہ رب العزت نے اپنی آخری کتاب میں نازل کر دیئے تھے ۔ پھر یہ کہ امت مسلمہ کو اُمتِ وسط قرار دیا تھا اور امر با لمعروف اور نہیں عن المنکر کو اس کا بنیادی فریضہ بنایا تھا ۔ لیکن یہ قوم دوسروں کو معروف کا حکم کیا دیتی اور منکر کے راستے کا پتھر کیا بنتی وہ خود مصنوعی روشنیوں میں ٹامک ٹو ئیاں مار رہی ہے ۔
حیرت اور سوال یہ ہے کہ جس امت کے قائد نے اپنے پیرو کاروں کو نجی اور اجتماعی زندگی کے تمام اسرار و رموز سکھا ، سمجھا اور پڑھا دیئے ہوں اُس نبی کے امتی آج ذلت و نکبت والی زندگی گذارنے پر کیوں مجبور ہیں ؟ ہم ذلیل و خوار کیوں ہیں ؟ ہماری دعائیں کیوں نہیں قبول ہو تیں ؟ دشمن اسلام ہم پر حاوی کیوں ہیں ؟ہم پر خوف اور بھوک کا عذاب کیوں مسلط ہے ؟ ہم اگر آپ ﷺ کی تعلیمات کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس ذلت و رسوائی کی صرف اور صرف وجہہ یہ ہے کہ ہم محسن انسانیت کے بتائے ہو ئے راستے کو ترک کر چکے ہیں ۔ ہم یا تو سیکولر ازم کی راہ اختیار کر کے دین سے لا تعلق ہو گئے ہیں یا مذہب کی ایسی جزیات میں اُلجھ کر رہ گئے جن کا انسان کی دنیا و آخرت کی فلاح و کامرانی سے کوئی تعلق نہیں ، ہم نعت گوئی پر سر بہت دھنتے ہیں ، لیکن حضور کی دیانت ، امانت اور راست گوئی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔ ہم حضور کی غریب پر وری پر بہت تقریریں کر تے ہیں لیکن ہمارا معاشرہ ظلم و ستم کے حوالے سے بے مثل ہے ۔ راہ حق پر چلتے ہو ئے مصائب حضور اکرم ﷺ نے جھیلے اُن کا ہم ذکر بھی کم کرتے ہیں ۔ آپ ﷺ پر درود بھیجنا کہ یہ سنت اللہ ہے اور آپ ﷺ کے اوصاف اور محاسن کا ذکر کرنا یقینا عبادت ہے لیکن آپ ﷺ کے احکامات پر عمل پیرا ہو نے سے گریز کر نا اور سنت نبوی کو اپنانے سے راہ فرار اختیار کر نا کھلی منافقت ہے اور اللہ رب العزت کو منافقت سے شدید نفرت ہے ، اسی لئے اس نے جہنم کی بد ترین وادی کو منافقوں کا ٹھکانا بنا یا ہے ۔
قارئین محتر م !اب ہم مسلمانوں کو آخرت میں سر خرو ہو نے اور دنیا میں عزت حاصل کرنے کے لئے سیرت نبوی سے روشنی حاصل کر نی ہو گی اور صحابہ کرام ؒ کے کردار کا مطالعہ کر نا ہو گا ۔ صحابہ کرام ؒ آپ ﷺ کے یوم پیدائش پر جشن تو نہیں مناتے تھے ،لیکن جہاں حضور اکرم ﷺ کا پسینہ گر تا تھا وہاں صحابہ کرام ؓ کا خون گر تا تھا۔ آپ ﷺ کے اشارہ ابرو پر جان کی بازی لگانے سے گریز نہیں کر تے تھے ۔ یہی وجہہ تھی کہ مکے کی بے آب و گیاہ زمین کے یہ مکین قیصر و کسریٰ پر حاوی ہو گئے ۔ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار پکڑ کر وہ بحر و بر کو روندتے چلے گئے ،صحرا ، جنگل اور پہاڑ کوئی ان کے راستے میں حائل نہ ہو سکا ۔ حالانکہ ہماری طرح ان کے بھی دو ہاتھ دو پائوں تھے لیکن ان کے قلوب قرآن کی دولت سے مزین تھے ، ان کے سامنے نبی مکرم ﷺ کی سیرت تھی اور سنت رسول ﷺ ان کا ہتھیار تھا ۔ آج بھی ہمارے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنے قول و فعل کا تضاد ختم کر دیں ۔ ہماری زبانیں اگر حضور ﷺ کی لغت گوئی سے تر ہوں تو ہمارے افعال ارشاد نبوی کے مطابق ہوں ہم سنت رسول ﷺکو اپنا اورڑھنا بچھونا بنا لیں اور صرف ماہ ربیع الاول ہی نہیں بلکہ ہر دن ہر شب کی نسبت حضور اکرم ﷺ سے جوڑ دیں ، کسی صورت اللہ کے حکم کی خلاف ورزی نہ ہو اور کبھی سنت رسول ﷺ کا دامن ہمارے ہاتھ سے نہ چھوٹے ۔

Mob: 6291697668

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا