اظہار تشکر

0
188

۰۰۰
عرفان عارف
۰۰۰
عارف نقوی؛بعض لوگوں کا تکیہ کلام ہوتا ہے،:’’مبارک ہو۔‘‘ شکر الحمد و للہ‘‘ یا ’’اللہ خیر کرے‘‘
یہاںتک کہ اگر کسی کو چھینک آ جائے اور کورونا کے ڈرسے ماسک لگانا پڑے تو اس وقت بھی ’’شکر ہے ‘‘ جیسے فقرے زبان پر آ سکتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ پچھلے دنوں مجھے جتنی بار’’ شکریہ‘‘ ادا کرنا پڑاہے یا کہنے کوجی چاہا ہے اس کا حساب لگانامیرے بس میں نہیں ہے۔ میں پچھلے دو ہفتے اپنے پیر میں تکلیف کی وجہ سے باہری دنیا سے کٹا ہوا ایک اسپتال کی مہمان نوازی نبھا رہا تھا لیکن پھر بھی اتنی بار ’’مبارکباد‘‘ کا لفظ سننا یا پڑھنا پڑتا تھا کہ یہ سمجھ ہی میںنہیں آتا تھاکہ کس جہان کا باشندہ ہوں۔ ہر بار لوگ مجھے احساس دلاتے تھے کہ میں زندگی کے نوے سال میں قدم رکھ رہا ہوں۔چنانچہ میں ہر رشتے دار، دوست اور کرم فرما کے قدموں میں دل کی گہرائیوں سے ’’دلی شکریہ‘‘ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
لیکن ساتھ ہی مجھے وہ دوست اور ساتھی یاد آرہے ہیں جو مجھے چھوڑ کر پہلے ہی دوسری دنیا میں چلے گئے ہیں ۔ حالانکہ وہ خوش قسمت ہیں ، جنہیں ان حالات کا سامنا نہیں کرنا پڑ رہا ہے جنہیں دیکھنے کے لئے ہمارے جیسے لوگ رہ گئے ہیں۔ آج جب میں اپنی سالگرہ کی مبارکبادیں سنتا ہوں تو دلی خوشی کے احساس، تشکر کے الفاظ اور دوسروں کے لئے دعائوں کی تمنائوں کے ساتھ مجھے فلسطین، یوکرین اوردیگر ممالک کے ہندو، مسلم، عیسائی، یہودی، بدھ اور ناستک مظلوم یاد آجاتے ہیں جو نو سال سے نوے سال کی عمر میںبموں سے جھلس رہے ہیں اور انسانیت جن کے لئے رو رہی ہے۔انسان جنہیں ہمیں اور آپ کی طرح جینے کا حق نہیں ہے، جنہیں کوئی مبارکباد نہیں دیتا، جن کے گال پر کوئی محبت سے پیار نہیں کرتا، جن کے بال بچوں کی رگوں سے خون چوس کر تڑپنے کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے اورجن کی حالت سے نازی کنسنٹریشن کیمپ کے مظالم کی یاد یں تازہ ہو جاتی ہیںاور ہولناک منظر نظروں کے سامنے آجاتے ہیں ۔ جن کی آہیں اس قدر بڑھتی جا رہی ہیں کہ کسی دن آسمان کو پھاڑسکتی ہیں۔اور سارے عالم کی فنا اوردوزخ کا باعث بن سکتی ہے۔
میں ایک عجیب تذبذب کا شکار تھا۔دوستوں اوررشتے داروں کے پیغامات مجبور کر رہے تھے کہ سالگرہ منائوں لیکن عالمی حالات نے ساری خوشیاں چھین لی تھیں۔ پانچ برس قبل میرے دوستوں اور اردو انجمن برلن کے اراکین نے ایک بہت بڑے ہال میں میری سالگرہ منائی تھی۔ لیکن اب دنیا کی حالت پر آنسو بہانے کو جی چاہتا ہے جشن منانے کو نہیں۔
لیکن چند دن قبل ایک اسی سالہ خاتون میونسپل کونسل کی طرف سے صبح صبح وارد ہوئیں زندگی کے زمزمہ سے بھرپور ، روشن خیال اور انسانیت کا مجسمہ۔
’’ میں بیس مارچ کو میونسپل کونسل کی طرف سے ایک تہنیت کا سرٹیفیکٹ اور پھولوں کا گلدستہ لیکر آپ کو مبارکباد دینے کیلئے آئوں گی۔ ٹھیک ساڑھے دس بجے۔ اجازت ہے؟‘‘
ایسا لگا جیسے انسان ابھی زندہ ہے۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ میرے ایک پاکستانی دوست ظہور احمد اور مطیع اللہ کی مدد سے ایک ہندوستانی ریستوراں دہلی پیلیس بک کیا گیا۔ میری بیٹی نرگس اور دوسرے رشتے داروں اور دوستوں نے پروگرام اپنے ہاتھوں میں لیا اور مہمانوں کو دعوت دے دی گئی۔ جس میں خصوصی مہمان میرے دیرینہ دوست مشہور موسیقار ورنر شوتس تھے۔ جنہوں نے پرانی خوبصورت یادوں سے ماحول کو خوشگوار بنا دیا۔ جبکہ جرمن براڈکاسٹنگ سروس Deutsche Welle کے ایشیائی شعبے کے سابق صدر فریڈیمان شیلندر نے پرانی خوبصورت یادوں کو تازہ کیا اور بتایا کہ وہ ریڈیو پر جانے سے قبل ہمبولٹ یونیورسٹی میں میرے طالب علم رہ چکے تھے۔ کئی دیگر لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ہندوستان کی ڈاکٹر یوجنا جین اور دیگر دوستوں نے ترنم اور نظموں سے ماحول کو شاداب بنایا۔ اور آخر میں نوے (۹۰) خوبصورت پھولوں کے گلدستے مجھے پیش کرکے ماحول کو رنگین بنا دیا گیا اور ہندوستانی ڈشوںسے ضیافت کی گئی۔
رات کو گھر پہنچا ہی تھا کہ بون سے پروفیسر اسلم سید اور سینئر ریڈیو صحافی کشور مصطفی کا فون آگیا اور اس کے ساتھ ہی ان کا یہ پیغام:
’’ کچھ سال پہلے آج ہی کے دن لکھنئو کے ایک گھرانے میں ایک ستارہ نمودار ہوا جس نے ماہ و سال تو ایسے ہی گزارے جیسے قرآن شریف پلک جھپکنا کہتا ہے لیکن اگر اس کی روشنی کو دیکھا جائے تو ایک کہکشاں کا گمان ہوتا ہے۔ اردو ادب اور زبان کی خوش نصیبی کہ اس ستارے نے اردو سے محبت کی اس کی ہر ادا کو اپنایا اور وہ نقش و نگار عطا کئے کہ ادبی تاریخ بھی چونک پڑی کہ یہ ایک ہی نقاش ہے یا کئی ہیں جو عارف نقوی کے نام سے لکھ رہے ہیں۔ ہم اس بات پر تو فخر کرتے ہیں کہ ان کی محبتوں اور نوازشوں کی روشنی میں جی رہے ہیں ۔ لیکن آج ہم اس دن کو سلام کرتے ہیںجس نے دنیا کو یہ انمول ہیرا عطا کیا اور نقوی صاحب کو مبارک کے ساتھ بہت سی دعائیں دیتے ہیں۔ اللہ انہیں صحت اور تندرستی کے ساتھ سلامت رکھے۔ آمین۔
ان سب کے ساتھ پروفیسر اسلم جمشید پوری کے یہ دعائیہ کلمات وٹس ایپ اور فیس بک سے موصول ہوئے ’’عارف نقوی صاحب کا آج یوم پیدا ئش ہے۔ وہ نوے سال کے ہو گیے ہیں۔ اللہ ا ن کا سایہ دیر تک ہمارے سروں پہ رکھ اور انہیں اسی طرح تر و تازہ اور شاداب رکھ تاکہ وہ نئی نئی تخلیق کرتے رہیں ۔آمین‘‘
قبلہ جنم دن مبارک۔
پروفیسر اسلم سید، پروفیسر اسلم جمشید پوری اور محترمہ کشور مصطفی کے پیغامات سے مجھے ایک ریسرچ اسکالر عرفان عارف کا پیغام یاد آگیا جس نے مجھے اسپتال میں ہی روحانی قوت عطا کی تھی۔ عرفان عارف نے لکھا ہے:
محترم آپ کو جنم دن کی بہت مبارکباد ہو ۔ اللہ آپ کی عمر دراز کرے ۔ آپ کو صحت مند رکھے۔آپ نے جتنی خدمت سماج کی، اردو کی، اردو ادب کی کی ہے، اس کا مول ابھی کیا جانا باقی ہے۔
اللہ کی مہر بانی سے آپ سب کی دعائوں سے مجھے یہ موقع ملا ہے کہ، میں آپ کی شخصیت کو ایک ریسرچ اسکالر کے طور پر دنیا کے سامنے رکھ سکوں اور اس سفر میں مجھے ہر پل ہر قدم آپکا ساتھ چاہیے۔ آپ کا ہاتھ اپنے سر پر چاہئے۔
اس لئے میں ہر پل یہ دعا کرتا ہوں کہ آپ صحت مند رہیں اور ایک چراغ بن کر مجھے روشنی دکھاتے رہیں۔ مجھے اس بات کا بہت فخر ہے کہ زندگی میں ایک ایسا کام کر جائوں گا جو بہت ضروری ہے اور میری قلم سے اور میری ریسرچ سے ان لوگوں تک آپ پہنچیں گے وہ بھی ان لوگوں تک جن لوگوں نے ابھی تک ادھر نگاہ نہیں ڈالی ہے ۔ آپ نے مجھے اس کی اجازت دی اس کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ۔
جنم دن آتے ہیں جاتے ہیں لیکن آپ جیسی شخصیت ہمارے لئے ہر دن اتنی ہی اہم ہے اتنی ہی ضروری ہے اور اللہ سے ہر پل یہ دعا کرتا ہوں کہ آپ صحت یاب رہیں۔اور آپ کے لکھنے کا سلسلہ جاری رہے۔ میں آپ پر ریسرچ کر رہا ہوں لیکن دعا یہی مانگتا ہوں کہ آپ کی شخصیت اتنی وسیع ہو، اتنی بڑی ہو، اتنی عظیم ہو کہ آپ کو کوئی بھی اپنی قلم میں یا اپنی ریسرچ میں بند نہ کر سکے۔
ایک ادنی سا آپ کا اسٹوڈنٹ، آپ کا چاہنے والا،۔۔۔۔۔ آپ کے لئے دعا گو
عرفان عارف
میںتقریب میں شرکت کرنے والے سبھی دوستوں نیز پروفیسر اسلم سید، محترمہ کشور مصطفی ، عرفان عارف اور دیگر دوستوںکی مبارکبادوں اور نیک خواہشات کے لئے دل سے مشکور ہوں۔
کاش یہ ساری مبارکبادیں، نیک خواہشیں اور تمنائیں اس دعا میں تبدیل ہو جائیں کہ اللہ کرے کہ یہ کرہ ارض جسے خوش نما بنانے کی ذمے داری پروردگار نے ہمیں سونپی ہے باد سموم کے زہریلے جھونکوں سے محفوظ رہے ، چمن کے پھول روندے نہ جائیں اوریہ گلشن صحیح معنوں میں خوبصورت ہو اور خوشبوئوں سے معطر ہو۔ آمین!!!(برلن ۲۱؍ مارچ ۲۰۲۴ئ)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا