اجارہ داری:نجی اسکول،کتب فروش اورمحکمہ تعلیم!

0
0

نیاتعلیمی سال شروع ہوچکاہے، اسکولوںنے بچوں کے داخلوں کاسلسلہ جنگی پیمانے پرشروع کردیاہے،ہرسوہاہاکارہے، کتابوں کی خریداری کولیکرلوٹ مارہے، اسکولوں نے خود کتابوں کاکاروبارظاہری طورپرچھوڑ دیاہے ، یعنی حکومتی سختی کے بعد اسکولوں میں کتابیں فروخت کرنے کاسلسلہ بندہے لیکن حقیقی معنوںمیں اسکول اس کاروبارسے کبھی دورہوئے ہی نہیں اورحکومت انہیں اس لوٹ مار سے جداکرنے میں ناکام رہی ہے، اب اسکولوں نے کتابیں فروشوں کیساتھ ہی سانٹھ گانٹھ کرلی ہے ،جس طرح ڈاکٹروں کا مخصوص لیبارٹری والے کیساتھ یاادویات فروشوں کیساتھ یارانہ ہوتاہے ، وہ مریض کووہی لیبارٹری سے ٹیسٹ تجویزکرتے ہیں جس کیساتھ ڈاکٹرکاکھاتہ چلتاہے ، ویسے ہی یہی فارمولہ اپناتے ہوئے نجی اسکولوں نے مخصوص کتاب فروشوں کیساتھ ہاتھ ملالیاہے، وہ نہ صرف بچوں ووالدین کو اُن دُکانوں سے ہی کتابیں خریدنے کی تلقین کرتے ہیں بلکہ نصاب میں این سی ای آرٹی کی کتابوں کے علاوہ بے شمار کتابیں ، اسٹیشنری وغیرہ جوڑ کرایک مکمل سیٹ بناکراُنہیں رکھنے کو کہتے ہیں اورتمام کاتمام مال بچوں کے والدین کوتھمادیناہوتاہے، اُن سے والدین بالکل بھی کوئی چیز کم نہیں خریدتے ، جیسے ڈاکٹر کے فرمان پرمریض خوفزدہ ہوکر اپنی جان بچانے کیلئے ہروہ ٹیسٹ اوراُس کی بتائی ہوئی لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانے کیلئے مجبورہے ویسے ہی ایک والد اپنے بچوں کے بہترمستقبل کیلئے ہروہ کتاب ، ہروہ کاپی، دیگر اسٹیشنری اُسی مخصوص دُکان سے خریدنے پرمجبورہوتاہے،نئی تعلیمی پالیسی میں واضح طورپر این سی ای آرٹی کتابیں ہی پڑھانے کی تلقین ہے اوربچوں کے بستے کابوجھ کم کرنے کی ہدایات ہیں لیکن زمین پرسب اُلٹ چل رہاہے۔کئی کئی درجن کتابیں اورکئی کئی درجن کاپیوں کابوجھ چھوٹی جماعتوں کے بچوں کے معصوم کاندھوں پرلاددیاجاتاہے،یہ ناصرف لوٹ مارہے بلکہ بچوں پرظلم ہے،اورحیران کن طورپرنجی تعلیمی اِداروں اورمخصوص بُک سٹورز کی اس اجارہ داری کے سامنے محکمہ تعلیم بالکل بے بس اورخاموش تماشائی بناہواہے جیسے وہ بھی ان کاشراکت دارہواوراُسے کچھ نہ کہنے ،کچھ نہ کرنے پرجیسے کوئی انعام مل رہاہوتاہے،کیونکہ سڑکوں پروالدین کی مخصوص دُکانوں کے باہرلمبی لمبی قطاریں دیکھنے کی وہ زحمت گوارہ نہیں کرتے، جموں شہرمیں کتابوں کی مشہور مارکیٹ پکاڈنگاوکچی چھائونی ہے لیکن وہاں کے 90فیصد کتاب فروش دِن بھرہاتھ پہ ہاتھ دھرے ومکھیاں اُڑاتے نظرآتے ہیں جبکہ چنددُکانیں الگ الگ مقامات پرقائم ہیں جہاں کتابیں خریدتے والدین لمبی لمبی قطاروں میں ہیں،یہ انتہائی شرمناک اورافسوسناک ہے کہ محکمہ تعلیم وایل جی انتظامیہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے،یہ ظلم اس قدربڑھ گیاہے کہ اب جموں کی سڑکوں پرمختلف سماجی ،سیاسی ومذہبی تنظمیں بھی احتجاج کرنے لگی ہیں لیکن حسبِ روایت ڈائریکٹراسکول ایجوکیشن خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا