منظور وقار گلبرگہ
9731428416
پیدائش: 24-08-1924
وفات26-10-1977)
ابراہیم جلیس 24؍اگسٹ 1924میں گلبرگہ ضلع کے تعلقہ چنچولی میں پیدا ہوئے آ پ کی ابتدائی تعلیم گلبرگہ میں ہوئی حیدرآباد میں میٹرک پاس کرنے کے بعد 1942 ء میں علی گڑھ یو نیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حا صل کرلی۔اردو ادب اور افسانہ نگاری سے انہیں بچپن سے ہی لگاؤ تھا ۔ انکا پہلا افسانہ ’’زردچہرے‘‘ کے عنوان سے 1943ء میں ماہنامہ نگار (لکھنو) میں شائع ہوا ۔اس رسالے کے مدیر اپنے وقت کے بلند ممتازصحافی نیاز فتح پوری تھے ۔بعد ازاں انکے افسانے ماہنامہ ساقی ( پا کستان ) کے علاوہ ہندو پاک کے معروف رسائل میں شائع ہونے لگے انکے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’زردچہرے‘‘ کے نام سے 1944ء میں شائع ہوا۔ابراہیم جلیس کی کوئی 18؍تصانیف شائع ہوچکی ہیں انکے افسانوی مجموعہ کے عنوانات ہیں زرد چہرے‘ تکونا دیس ‘چور بازار‘تر نگے کی چھاوں میں‘ کچھ غم دوراں‘میں مرنہیں سکتا،آسمان کے باشندے ، پاکستان کب بنے گا ۔ افسانوی مجموعو ں کے علاوہ ایک ڈراموں کی کتاب ’’ اُ جالے سے پہلے ‘‘ایک سفرنامہ ’’ نئی دیوار چین‘‘ تین انشائیوں کی تصانیف ’’سننے تو پھنسے‘‘نیکی کر تھانے جا ‘ شگفتہ شگفتہ ایک مزاحیہ کالموں کا انتخاب ’’ اُوپر شیروانی اندر پریشانی ‘‘ قحط بنگال کے موضوع پر ایک کتاب ’’بھوکاہے بنگال‘‘ کے علاوہ دو رپورتاثر ’’ دو ملک ایک کہانی ‘‘’’ جیل کے دن جیل کی راتیں ‘‘ شائع ہو چکی ہیں انکی جملہ تصانیف میں زرد چہرے‘ تکونا دیش ‘ چالیس کروڑ بھکاری اور رپورتاثر دو ملک ایک کہانی کو بے حد شہرت اور مقبولیت حا صل ہوئی سقوط حیدرآباد کے بعد آ پ 1948 ء میں پاکستان چلے گئے اور مستقبل طور پر کراچی میں قیام پذیر ہوگئے ۔ پاکستان قیام کے دوران روزنامہ امروز ( کراچی ) میں بہ حیثیت سب ایڈیٹر خد مات انجام دیں 1956 ء میں روزنامہ جنگ میں طنزیہ و مزاحیہ کالم نگاری شروع کی علاوہ ازیں روزنامہ حُریت اور روزنامہ مساوات سے وابستہ رہے خود اپنا ایک ہفتہ روزہ اخبار’’ عوامی عدالت ‘‘جاری کیا معروف صحافی محبوب حُیسن جگر عالمی شہرت یافتہ مزاح نگار مجتبیٰ حُسین کا شمار انکے بھائیوں میں ہو تا ہے ۔گلبرگہ کے ممتاز دکنی شاعر سلیمان خطیب اور ممتاز نقاد و خاکہ نگار و ہاب عند لیب کا شمار ابراہیم جلیس کے ہم عصر قلمکاروں اور دوستوں میں ہوتا ہے ۔ ابراہیم جلیس کا انتقال 26؍اکٹوبر 1977 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں ہوا ۔
اس تعارف کے بعد آئیے
ابراہیم جلیس کی افسانہ نگاری اور کتاب زرد چہرے پر روشنی ڈالتے ہیں :
بحیثیت افسانہ نگار آ پ نے ترقی پسند تحریک سے متاثر ہو کرملکی انتشار‘ افراتفری ‘ بے روزگاری‘ بھوک مایوسی مذہبی جنون کے خلاف نبز د آزماہوئے۔
بعد ازاں قائد آعظم محمد علی جناح اور قائد ملت قاسم رضوی کی جوشیلی تقریروں اور جذبہ حیرت اسلامی سے متاثر ہو کر ترقی پسند تحریک سے دور ہوگئے تا ہم انکے افسانوں میں کرشن چندر کی انسان دوستی نظر آتی ہے تو منٹو اور خواجہ احمد عباس کی تندی وتلخی بھی انکے افسانوں میں زندگی کی تلخیاں جنسی نا آسودگی نفسیاتی کشمش اور قنوطیت کی جھلکیاں جابہ جا نظر آتی ہیں ۔ زبان برجستہ اور رواں ہے طنزیہ جملوں اور مکالموں کے ذریعہ کہانی تخلیق کرنا ابراہیم جلیس کی انفرادیت ہے ۔ ابراہیم جلیس کی افسانہ نگاری کا اعتراف بے شمار تقادرن ادب نے کیا ہے یہاں ہم صرف دو مشاہرادب کے تاثرات آ پ کی خدمت میں پیش کررہے ہیں یوسف ناظم لکھتے ہیں :
’’ ابراہیم جلیس نے اس اسندادی دوڑ میں اپنا نام کا سنے اور چاندی کے تمغے پانے والوں کی فہرست میں نہیں سونے کا تمغہ حا صل کرنے والوں کی مختصر سی فہرست میں لکھوایا زرد چہرے اور تکونا دیش کا یہ نوجوان مصنیف آ ج سے 31-30سال پہلے ہی قد آور افسانہ نگار بن چکا تھا ۔ اس وقت کے حیدرآباد میں دوہی نوجوان محبوب تھے۔شاعروں میں نظر حیدرآبادی اور نثر نگاروں میں ابراہیم جلیس اس نوجوان افسانہ نگار کی ترقی کی رفتار میں طوفان کی سی تیزی تھی اور اس کے ہم جلیس اسے رشک و حیرت کی نظروں سے دیکھتے تھے‘‘
(شگوفتہ مئی 1978 ء )
عاتق شاہ رقمطراز ہیں:
’’زرد چہرے ہوں کے چالیس کروڑ بھکاری یا چور بازار ان کی کوئی کتاب اٹھا لیجئے اس میں ان کا چھتا ہوا طنز ابھر کر اپنے پڑھنے والے کے دل ودماغ کو اس طرح متاثر کر تا ہے کہ وہ مصنیف کے ساتھ زندگی کی ان تلخ اور بے رحم حقیقتوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے ۔ جس پر اس انداز سے اسکی نظر پہلے کبھی نہیں گئی ‘‘(ماہنامہ شگوفہ مئی 1978 ء )
مشاہر ادب کے ان خیا لات کے بعد آئیے اب ہم ابراہیم جلیس کے افسانوں کا مجموعہ ’’ زرد چہرے ‘‘ پر روشنی ڈالتے ہیں ۔ زرد چہرے ابراہیم جلیس کا اولین افسانوی مجموعہ ہے یہ کتاب پہلی بار جنوری 1945ء میں شائع ہوئی 195؍صفحات پرمشتمل اس کتاب میں جملہ پندرہ افسانے شامل ہیں ۔ افسانوں کے عنوانات کچھ اس طرح ہیں بلیک آوٹ، فرشتہ ،چور،تنخواہ کا دن،آنسو جوبہہ نہ سکے ،رزاق اور عبدالرزاق ، صراط ِمستقیم ، اشرف المخلوقات، ریلف فنڈ، سگ لیلیٰ، دلدر، توند، سُرخ پھر یرا، درانتی اور ہتھوڑااور زرد چہرے۔
کتاب کی ابتداء میں قاضی عبدالقفار ( مصنیف ماہنامہ پیام ) کا مقدمہ شامل ہے ملا حظہ فر مائیے مقدمے سے لیا گیا ایک اقتباس :’
’یہ کتاب دراصل حقیقت نگاری کی پہلی کو شش ہے جو جلیس نے کی ہے ۔ جو موضوع انہوں نے اختیار کیا ہے ۔سماج کے پست طبقات کی نفسیات وہ ایک بہت ہی وسیع موضوع ہے میں ان کے افسانوں میں ایک نوجوان جذبہ دیکھا جو جلیس کی جوانی کو ہندوستان کی سماجی زندگی کی تاریک گلیوں میں لے جارہا ہے ۔ ان گلیوں میں جہاں بھوک احتجاج مفلسی اخلاقی اور مالی قنوطیت کے گندے چھیڑوں میں ملک کی انسانیت لپٹی پڑی ہے اس نے ہمیں جنسی جذبات کی گھناونی تصویریں دیکھیں کہیں غریبوں کی عزت کی کوئی چنگاری چمکتے دیکھی کہیں تعلیم یافتہ بے روزگاروں اور کہیں جاہل مزدروں کے دلوں کے پردوں میں جھا نکا اور جس لمحہ کوئی اثر پیدا ہوا اس لمحہ اپنے قلم کی قوت اس کی تصویر کشی میںلگائی‘‘
کتاب زرد چہرے میں موجود تمام افسانوں کا ہم سرسری جائزہ بھی لیں گے ۔ تو ہمارا یہ مضمون ایک ضخیم کتاب کی شکل اختیار کر جائے گا لہٰذا ہم صرف تین افسانے ’’ بلیک آوٹ‘‘ اشرف المخلوقات‘‘ اور ’’ تنخواہ کا دن ‘ ‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے ان افسانوں سے ایک ایک اقتباس پیش کررہے ہیں تا کہ آ پ کو ابراہیم جلیس کی طرز تحریر کا پتہ چل جائے ۔’’بلیک آوٹ‘‘بیس صفحات پر مشتمل افسانہ ہے اس افسانے کا ہیرو سجاد ایک لا ابلائی اور آزاد خیال نوجوان ہے ۔تعلیم حا صل کرنے یا ملازمت تلاش کرنے کے لئے لاہور میں مقیم ہے اسکا بھائی اپنی بیوی بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر اسکے خرچ کے لئے رقم روانہ کر تا ہے ۔ پورا افسانہ سجاد اور اسکا دوست خالد کے درمیان ہونے والے مکالموں پر مبنی ہے سجاد سگریٹ پھونکتا ہے شراب نوشی کرتاہے اور خوبصورت عورتوںکا دلدادہ ہے۔
اقتباس ملاحظہ فر مائے:
’’سجادنے جھنجھلاکر کتاب میزپر پھنک دی اور تھکی ہوئی آنکھوںکو ترواہٹ پہنچانے کیلئے بالکونی میںآگیا آسمان کے کنارے کسی شرمائی ہوئی لڑ کی کے گالوں کی طرح سُرخ ہورہے تھے ۔سانوی سلونی شام آہستہ آہستہ دھرتی پر اتر رہی تھی جیسے کوئی بھکرائی ہوئی لڑکی دبے پاؤں کسی سے ملنے جارہی ہو وہ مسکرانے لگا جیسے کسی کی پتلی لمبی ملائم انگلیاں اس کے دل کو گدگدارہی ہوں اس کا کمھلا یا ہوا دل کھل اٹھا اس لڑکی کی طرح جو عین انتظار کے عالم میں اپنے چاہنے والے کو دیکھ لیتی ہے ‘‘
’’تنخواہ کا دن ‘‘ یہ افسانہ غریبی افلاس مجبوری نا کام حسرتوں اور خواہشوں کی منھ بولتی تصویر ہے اس افسانے کا ہیرہ مراد ایک مزدور ہے لوہا کوٹ کر پیٹ پالتا ہے ۔ تنخواہ کے دن اسکی بیوی انتظار کرتی ہے کہ اسکا شوہر کھانے کیلئے کوئی اچھی چیز لائے گا ربر کے جوتے یاکوئی تحفہ لے آئے گا مگر تنخواہ کے دن قرض داروں کیتقاضے سود کی رقم اور مکان کا کرایہ اداکرتے کرتے اسکے ہاتھ میں بس اتنی رقم رہ جاتی ہے کہ مہینہ بھر پیٹ کی آگ بجھا سکے ملاحظہ فر مائے اقتباس:’’مکان مالک گونبد بابوکا نوکر مکان کا کرایہ وصول کرنے آیا تھا مکان کا کرایہ دو روپئے ایک دم دوروپئے ایسے غلیظ مکان کا کرایہ جس میں دو اندھیرے کمرے دھوئیں سے کالی دیواریں ٹوٹے چھپر کا دالان جوبرسات میں تالاب بن جاتا ہے چار قدم کا صحن سنڈاس تک موجود نہیں مگر کرایہ دو روپئے اور مہینے کے مہینے وصول ہوتا ہے خواہ مخواہ کا غصہ مراد کے جسم میں سرایت کرنے لگا مگر کس پر غصہ کرے بچارہ اس نے بڑ بڑاتے ہوئے دو روپئے نو کر کے ہاتھ میں تھما دیئے گو یا وہ روپے انگا رے تھے جن کی جلن کی وہ تاب نہیں لا سکتا تھا ‘‘
’’اشرف المخلوقات‘‘یہ ایک نفسیاتی افسانہ ہے افسانہ کا ہیرو حقیقت پسند ہے خوبصورت لڑکیوں اور ہیجان انگیز عورتوں کے مقابلے چمکتے سکوں کو تر جیح دیتا ہے پیٹ کی آگ جنسی آگ کو شکست دیتی ہے ایک اقتباس:’’ سچ مچ میں جانور ہوں جذبات سے عاری انسان ہوں میں نے بھی اس مال روڈ کی حسینہ کو بار بار دیکھا ہے ۔ مگر نہ تو کبھی میرے دل کی دھڑکنوں میں کوئی اضافہ ہوا اور نہ میں نے کبھی ایسا محسوس کیا کہ میں نے کوئی چیز کھودی ہے مجھ جیسے نوجوان لڑکے کو دیوانہ بنانے کیلئے اس لڑکی میں کتنی ہی رعنائیاں تھیں کتنی ہی نزاکتیں تھیں مگر میرا خون سفید ہے چاندی کے ایک سکے کی طرح سفید اسکی آنکھوں میں ستارے جگمگاتے ہیں اور میری زندگی ایک اندھیری رات کے اندھرے دور نہیں کرسکتے مجھے حُسن سے زیادہ پیٹ کی پرواہ ہے حُسن روح کی غذا ہے مگر روپیہ پیٹ کی پیٹ کے لئے تو سب کچھ کیا جاسکتا ہے ۔ اور خوبصورت لڑکیاں تو ٹکے ٹکے میں بازار جاؤ وہاں خوبصورتی کی قیمت صرف ایک روپیہ ہے‘‘۔
زرد چہرے کے افسانے قاری کو جھنجھوڑتے بھی ہیں سوچنے پر مجبور بھی کرتے ہیں ۔ ہر افسانہ ایک حقیقت اور ایک تلخ سچائی کا عکاس۔ افسانوں کا پلاٹ گھٹاہوا کہانی بکھرتی ہے اور نہ راستہ بھٹکتی ہے تمام ہی افسانے خوبصورت بیا ینہ کا عمدہ نمونہ ہیں ۔ ابراہیم جلیس صرف ایک افسانہ نگار مزاح نگار ڈرامہ نگار اور رپورتاژ نگارہی نہیں اپنے عہد کے ایک بلند پا ئیہ قلمکار تھے ۔ انکی قلمی کاوشوں نے اس دور کے ہزاروں لاکھوںاردو قارئین کو اپنا گرو دیدہ بنا لیا تھا !!!
٭٭٭