ڈاکٹر حامد رضا 7895674316
سر سید احمد خاں کی شخصیت ہمہ جہت صفات کی مالک تھی ۔سرسید انیسویں صدی کے بڑے مدبر، مفکر، مصلح ،مجتہد، مورخ،ادیب،صحافی اور ایک عظیم دانشور تھے۔ انہوں نے ۱۸۵۷ء کے دلدوز واقعات و سانحات کو اپنی نظروں سے دیکھا تھاکہ وہ مسلم اُمہ جو ہندوستان پر حکومت کررہی تھی وہ غدرکے بعد کس قعر مذلت میں چلی گئی ہے۔ اس لیے انہوںنے قوم و ملت کی تعلیم و تربیت اور اس کی بقا کے لئے تعلیمی ، تمدنی ، سیاسی، تہذیبی اور معاشرتی حتی کہ زندگی کے مختلف شعبہ جات میں ان کی اصلاح و فلاح اور بہبودکے لیے بیڑا اٹھایا۔ سر سید نے اسی لیے مختلف اصلاحی تحریک شروع کی اور اس میں قوم و ملک کی اصلاح کے لیے طرح طرح کے مضامین ، رسالے، کتابچے نکالنے لگے تھے۔
سر سیدا حمد خاں ایک معتبر صحافی ،مفکر کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مورخ بھی تھے۔ اگر چہ انہوں نے خود کو کبھی مورخ کی حیثیت سے نہیں پیش کیا ہے مگر تاریخ نویسی پر ان کی معرکۃ آراء کتابیں اپنی مثال آپ ہیں ۔ان کی ذہن سازی اور شخصیت سازی چونکہ ایک ایسے خاندان میں ہوئی تھی جو حکومت دہلی کے بہت قریب تھا اور انہوںنے ان تمام مسائل سے بخوبی اثر لیا تھا، جس کی وجہ سے ان کوتاریخ نویسی سے دلچسپی پید اہوئی تھی ۔ تاریخ نویسی کے حوالے سے ان کی پہلی کتاب ’’جام جم‘‘ کے نام سے منظر عام پر آتی ہے اور اس پہلی تصنیف ہی سے ان کی تاریخ نویسی کو مقبولیت مل جاتی ہے کیونکہ سر سید احمد کی شخصیت میں تلاش و جستجو کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔و ہ اپنی تمام علمی اور تصنیفی کاموں کو بہت تحقیق و تفتیش اور متانت کے ساتھ کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں کی اہمیت ہر اعتبار سے باقی ہے۔
سر سید میں تاریخ نویسی کا شغف ان کے خاندانی اور آبائی فضا کا پروردہ تھا کیونکہ ان کے اجداد عہد مغلیہ کے دربار کے متوسلین تھے جس کو انہوں نے بڑی بیباکی اور ایمانداری سے صفحہ قرطاس پر اتاردیا اور اپنے اسلاف کی کمائی ہوئی سلطنیتں ان کی حکومتیں ،عزتیں اور قرون وسطی کے ہند اسلامی تہذیبی اور آثاری سرمایے کو ہمیشہ ہمیش کے لیے محفوظ کر دیا ہے ۔انہوں نے تاریخ نویسی میں حددرجہ غیر جانب داری کا ثبوت پیش کیاچوں کہ وہ زبان و بیان پر قادر تھے اس لیے زبان کبھی ان کے تحریری مسئلوں میں حائل نہیں ہوئی ہے۔سر سید نے ہمیشہ اپنی تحریروں کو عصبیت اور مبالغے سے پاک رکھا اور اپنی آراء کا بہت بیباکی سے اظہار کیا۔یہی وجہ ہے کہ ان کے رفقاء کے یہاں بھی اسی طرح کی بیباکی دیکھنے کو ملتی ہے ۔ مثلا شبلی ، حالی کا نام بہت وثوق سے پیش کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ انیسویں صدی ہندوستان کے تہذیب و ثقافت کے لیے بہت روح فرسا اور اندوہناک صدی تھی ۔اس لیے سرسید نے اپنی اصلاحی تحریک اس صدی میں شروع کی تاکہ وہ اپنے اسلاف اور قوم کے بکھرے ہوئے شیرازے کو سمیٹ سکیں لہذا ان تمام مسائل سے نبردآزما ہونے کے بعد ان کے اندر جو تاریخی بصیرت، تاریخی شعور پید اہوتا ہے وہ اپنے اسلاف کی آثار قدیمہ کو محفوظ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
سر سیداحمد کی شخصیت مختلف الجہات ہے ۔ انہوںنے مختلف علوم و فنون پر اپنی شاہکار تصانیف پیش کی ہیں مگر تاریخ نویسی میں بھی ان کی تصانیف کی تعداد کم نہیں ہے ۔مثلاً ’’جام جم‘‘، ’’آثارالصنادید‘‘،’’’سلسلۃالملوک‘‘، ’’تاریخ سر کشی بجنور‘‘،’’اسباب بغاوت ہند‘‘، ’’تصحیح آئین اکبری‘‘، ’’تصحیح و تدوین تاریخ فیروز شاہی‘‘،’’تصحیح تزک جہانگیری‘‘ اس کے علاوہ بھی ان کی تاریخی کتابیں ہیں۔ جن میں کہیں نہ کہیں تاریخی مواد ومسائل ایک بڑی تعداد میں ملتے ہیں۔’’جام جم‘‘ سرسید احمد کا پہلا علمی تاریخی کام تھا جس کو تمام مشرق و مغرب کے مؤرخین نے سراہا ہے اس کے بعد۱۸۴۷ء میں ’’آثارالصنادید‘‘ شائع ہوئی۔’’آثار الصنادید‘‘ کے معنی ہیں پرانے لوگوں کی یادگار،قدیم عمارات Relics of Ancient people وغیرہ۔ اس میں سر سید نے سلطنت دہلی کی شاندار عمارتوں دورِ قدیم یعنی دہلی کے سلاطین کے سکوں کو بہت تفصیل سے پیش کیا ہے ۔ سرسید کی اس کتاب کی اہمیت اس لیے بڑھ جاتی ہے کہ مشرق میں سرسید سے پہلے مغربی انداز میں آثار قدیمہ کے لکھنے کی روایت نہیں ملتی ہے۔ سر سید کی اس کتاب سے مؤرخین نے بہت استفادہ کیا ہے اور ان کے اس کام کو بہت اہمیت دی ہے۔
سرسید نے اس میں دلی والوں کے تذکرے اور دہلی کے حکمرانوں کی فہرست پیش کی ہے جس کی روایت اردو تاریخ نویسی اور تذکرہ نویسی میں ملتی ہے مگر اس کے کچھ ابواب ایسے بھی ہیں جو جدید علوم آثار قدیمہ Modern Archeologyسے مزین ہیں ۔ا س میں سر سید نے دہلی کے کتبوں کی تصویریں اور ہندوستان کے قدیم آثارات مثلا اشوک ، بلبن ،مہرولی کے آہنی مینارکے کتبے کو ان کی اصلی کتبوں کے مطابق ہی شائع کیا ہے ۔اس کتاب میں دلی کی عمارات وکتبات کا سر سید نے تفصیل سے ذکر کیا ہے اور ان عمارتوں کی تصاویراور نقوش بڑے محنت ومشقت سے بنائے ہیں ۔سرسید کی یہ کتاب تاریخ نویسی کا نقش اولین کہی جا سکتی ہے اوریہ جدید طرز تحریر نیز تاریخ نویسی کی شاہکار بھی ہے ۔اس میں سر سید نے عہد وسطی کی ہند اسلامی تاریخ نگاری کو نئی جہات سے روشناس کرایا ہے،یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کو وہ اہمیت حاصل ہے جو ان کی دیگر کتابوں کو نہیں مل پائی ہے۔ اس کتاب سے اس عہد کے مورخین کو یہ شعور پیدا ہوا کہ ماضی کی تہذیب اور باقیات آثار قدیمہ کو محفوظ کرنے کے لیے اس طرح کی بنیادی کتابیں بہت ضروری ہیں ۔ جو اس ملک و قوم کو اپنے اسلاف کی ثقافت اور ان کی روایات کی یاد دلاتی رہے ۔کیونکہ یہ کتاب ہندوستان کی تہذیب و تمدن اور ان کی تہذیبی تکثیریتPluralism Cultures کا بکھان تو کرتی ہے اور ساتھ ہی اس سے اٹھارویں صدی کے مطلق العنان سلاطین کی تاریخ ان کے زوال و انحطاط، ان کے آثار ، ان کے فنون و صنعت ،تہذیب و ثقافت،قلعے ،محلات ،باغات ،پانی کے کنویں اور عالیشان عمارتوں کا منظر نامہ بھی پیش کرتی ہے۔
اردو ادب کی تاریخ میں تدوین و ترتیب کی روایت بہت قدیم ہے ۔ہمارے محققین نے مختلف الجہات موضوعات پر کتابیں تدوین وتصحیح کی ہیں ۔ اسی زریںروایت کی ایک کڑی سر سید علیہ الرحمہ سے بھی ملتی ہے جہاںانھوںنے کئی کتابوں کی تصحیح و تدوین کی ہے۔ابوالفضل کی مشہور زمانہ کتاب ’’آئین اکبری ‘‘ ہے جس کا سر سید نے بڑی جانفشانی سے مطالعہ کیا اور تحقیقی نقطہ نظر سے ا س کی تصحیح کی ہے۔ چونکہ یہ کتاب فارسی میں تھی اور اس کی زبان بھی بہت مشکل تھی اور اس پر مستزاد یہ کہ اس میں اعداد وشمار اور Statisticsسے متعلق گہری معلومات اور نقشے تھے جس کو کسی کم پڑھے لکھے کے لیے سمجھنا بہت مشکل ہے۔
سرسیدکے بھائی سید محمد خاں نے ’’تزک جہانگیری‘‘کا ایک بہترین نسخہ تیار کیا تھا اور اس کے لیے مقدمہ بھی لکھا تھا۔ سرسید نے بعد میں اس نسخے کو بھی تیار کیا اور اس کو ۱۸۶۳ء میں غازی پور اور اس کا کچھ حصہ علی گڑھ میں چھپوا کر شائع کیا۔ سر سید کی شخصیت ایک مدون و مرتب ،مصحح کی حیثیت سے بڑی اہمیتوں کی حامل ہے کیونکہ انہوںنے ضیاء الدین برنی ، ابوالفضل، جہانگیر جیسی شخصیات کی تصانیف کی معنی خیز انداز میں تصحیح کی ہے جو ہندوستان کی تاریخ کے لیے ایک اہم ماخذ و مصادر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ سر سید علیہ الرحمہ ۱۸۵۷ء کے المناک حادثے کے بعد اندر سے ٹوٹ گئے تھے ۔اس لیے ان کے اندر اپنی قومی وراثت کو محفوظ کرنے اور قوم کے اجتماعی زندگی میں اقتصادی ،تعلیمی ،تہذیبی ترقی کے لیے نئے نئے اقدمات کرنے کے جذبے پیدا ہوئے تھے ۔سرسید نے اپنے مشن اور اصلاحی تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے مسلم امہ کی تعمیر و تشکیل نو کے لئے ماڈرن ایجوکیشن ، یورپی نظام تعلیم ، سائنس وطب جیسے علوم کو اپنانے کا مشورہ دیااور اس کے لیے عملی اقدام کے طور پر سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی اور تہذیب الاخلاق جیسا اصلاحی رسالہ نکالا گیا۔ ۱۸۵۷ء کے بعد جو قوم قعر مذلت میں جاچکی تھی اس کو راہ راست پر لانے کے لیے انہوںنے مختلف موضوعات پر مضامین لکھے اور اپنے رفقاء سے مسلسل اس قوم کی اصلاح کے لیے مضامین لکھواتے رہے اور اپنے رفقاکار کو ایک سائنٹفک انداز میں تاریخ نویسی کی رغبت دلائی اور ان میں حالی اور شبلی نے اسلام اور ہندوستان کے تاریخی و تحقیقی کاموں میں دلچسپی لی اور پھر ان صاحبان نے اردو ادب اوراسلامی تاریخ کی شاہکار کتابیں تصنیف و تالیف کیں۔
سر سید نے ۱۸۵۷ء کی بغاوت اور اس کے اسباب سے متعلق ایک شاہکار کتاب تصنیف کی قوم کی بربادی و تباہی کے نتائج کا حل ڈھونڈا اور ان کے زوال کے کیا اسباب ہیں ۱۸۵۷ء کی جنگ کے کیا وجوہات ہیں۔ان تمام مسائل کا تجزیہ کرکے انہوںنے اپنی کتاب ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ لکھی جس میںان کی ناقدانہ نظر اور تاریخی و سیاسی بصیرت کی جھلک ملتی ہے۔سر سید نے اس کتاب کو بہت باریک بینی اور دقت نظری سے ۱۸۵۷ء کی بغاوت کے اسباب پیش کیے ہیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایسے اصول و قوانین جاری کیے جو ہندوستانیوں کے رسم و رواج کے بالکل مخالف تھے۔ یہاں کی رعایا کو لگنے لگا تھاکہ وہ ان کو عیسائی بنادیں گے کیونکہ ۱۸۵۰ء کا ایکٹ ۲۱ ہندوؤںکے مذہبی مسئلے میں دخل اندازی تھی جس کو ہندوؤں نے اپنی ہتک اور خاندان کی بربادی ،تباہی پر محمول کیا اور یہی وجہ ہے کہ ان کو عیسائیوں سے سخت نفرت پید اہوگئی تھی۔ سر سید نے یہ بھی کہا کہ بغاوت کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ ہندوستانیوں میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ حکومت تمام مذاہب کے ماننے والوں کو عیسائی بنائے گی ۔اس مسئلے پر تمام ہندوستانی طبقے میں بہت ہی بیزاری اورانگریز حکومت سے نفرت پیدا ہوگئی تھی کہ ان کو ادھر م کیا جائے گا۔ ان کے تمام مذہبی اور روحانی عقائد کو نیست و نابود کر دیا جائے گا۔ سرسید نے اس بات کو بھی پیش کیا ہے کہ۱۸۳۷ء کے قحط سالی میں بہت سے غریب و مفلس لڑکوں کو عیسائی بنایا گیا تھا۔ جس سے اس وقت کے ہندو اور مسلم دونوں مذہب کے عالم بہت برانگیختہ ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ بہت ہی مذہبی اورمعاشی مسائل تھے جن سے ہندوستانی رعایا دوچار تھی۔
سر سید احمد خاں نے ان تاریخی تصنیفات کے علاوہ ’’جلاء القلوب بذکر المحبوب‘‘ ، ’’تاریخ سرکشی ضلع بجنور‘‘ جیسی کتابیں بھی ہیں جن سے سر سید کی تاریخی شعور و بصیرت اور تاریخ نویسی سے دلچسپی کا پتہ چلتا ہے ۔ سر سید نے بڑے ہی سائنٹفک انداز میں بڑے ہی معتبر انداز میں مستند حوالے و شواہد کو سامنے رکھ کر تاریخ نویسی کی ہے جس سے قرون وسطی کے تاریخ کی حفاظت اور ہند اسلامی تاریخ و تہذیب سے آگہی حاصل ہوتی ہے ۔ سر سید متون کی تحقیق وتدوین اور تصحیح پر بھی گہری نظر رکھتے ہیں جس سے ان کے تاریخ نویسی کی اہمیت و معنویت بڑھ جاتی ہے اور ان کو جدید اردو نثر کا بانی کے علاوہ جدید تحقیق کے روشنی میں مؤرخ و محقق بھی کہا جاسکتا ہے۔
hamidrazaamu@gmail.com