محمد اعظم شاہد
صحافت کو جمہوریت کا چوتھان ستون کہا گیا ہے ۔خبروں میں صداقت پیش کرنے کی آزادی کا معیار اس ملک کے جمہوری نظام اور حکومت کے طرز فکر کا آئینہ ہوا کرتا ہے ۔ جس ملک میں اظہارِ خیال کی مکمل آزادی، حق گوئی اوربے باکی پر کوئی پابندی نہیں ہوتی وہاں غیرجانبدارانہ اور آزاد صحافت پرورش پاتی ہے ۔اورجہاں اظہارِ خیال کی آزادی پر آمرانہ پابندیاں ہوں اور حکومت کی بے جا مداخلت ہو، اس ملک میں جمہوریت کا چوتھا ستون کہلانے والی صحافت غیر محفوظ ہوتی ہے۔خوف و ہراس کے ماحول میں یہ ستون لڑکھڑاتا رہتا ہے اوروہی حالت اس ملک میں جمہوری اقدار کی بھی ہوتی ہے۔یہ بڑی تشویش کی بات ہے کہ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں صحافت میں اظہار خیال پر حکومت کی جانب سے پابندیاں لگی ہیں۔عالمی سطح پر ہمارے ملک میں صحافت کی آزادی کمزور اور ترقی کی رفتار میں پسماندہ ممالک کے برابر ہوکر رہ گئی ہے۔ہرسال عالمی سطح پر دنیا کے تقریباً ایک سواسّی(180) ممالک میں پریس کی آزادی کا موازنہ ایک غیرسرکاری ادارہ Reporters Without Borders کرتا ہے ۔ اوراس سال 2024 میں 180 ممالک کے موازنہ میں ہندوستان کی پوزیشن 159 پر دیکھی گئی ہے ۔ بیس سال کے عرصے میں یہ گراف (پوزیشن/معیار) گرتا ہی جارہا ہے۔گذشتہ سال ہندوستان کی رینکنگ یعنی پوزیشن 161 تھی۔ہلکی سی تبدیلی اس سال دیکھی گئی ہے۔
Press Freedom Index 2024 پریس کی آزادی کا عالمی اشاریہ جو مذکورہ بالا ادارہ رپورٹرس وتھ آؤٹ بارڈرس ہرسال اپنا تجزیہ پیش کرتا ہے، اس کے مطابق اسرائیل کے ظلم وستم سے دوچار مقبوضہ فلسطین، بادشاہت کی حکمرانی میں متحدہ عرب امارات UAE ،ترکی اور اجارہ داری سے لیس روس میں جو صحافت میں اظہارخیال کی تشویشناک صورتحال ہے وہی حال ہندوستان کا بھی ہے۔ فہرست میں ناروے اول نمبر پر، ڈنمارک دوسرے نمبر پر اور سویڈن تیسرے نمبر پر ہیں تو جنوبی افریقہ کی پوزیشن 38 ہے اورپڑوسی ملک نیپال میں پریس کی آزادی کی پوزیشن 74 اور سری لنکا 150 ویں پوزیشن (رینک) پر ہے۔
ہندوستان کی مودی حکومت جو ملک کو عالمی سوپر پاور ، دُنیا کی تیسری بڑی معیشت، وشواگرو بتاتے بڑے بڑے دعوے کرتی ہے ۔ وہیں صحافت کے شعبہ میں اظہارخیال کی آزاد روش پر پابندیاں نہ صرف افسوسناک بلکہ شرمناک ہیں۔ چھوٹے ممالک جیسے قطر جس کی پوزیشن 2019 میں 128 تھی اور اب یہ تبدیل ہوکر 84 کو پہنچ چکی ہے۔اس ملک میں نیوز چینل الجزیرہ جو عربی اورانگریزی میں بے لاگ خبروں کی ترسیل میں عالمی سطح پر نمایاں مقام کا حاصل ہے ، جنگ زدہ یوکرین نے بھی پچھلے چارسالوں میں اپنی ریننگ 102 سے 61 بنالی ہے۔ حماس کے ساتھ پچھلے سات مہینوں سے غزہ پٹی میں تباہی مچانے والا اسرائیل جاریہ جنگ کی خبروں کی ترسیل پر پابندی عائد کرتے ہوئے ’’الجزیرہ‘‘ کے ٹیلی کاسٹ پر اپنے علاقے میں پابندی عائد کردی ہے – اپنے وطن عزیز میں کئی الزامات کے گھیرے میں نیوز کلک کے ایڈیٹر پر بیرپرکاسیتھا کو گذشتہ سال اکتوبر میں گرفتارکرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے حال ہی میں اس بے باک صحافی کی رہائی کا فیصلہ اس بنیاد پر سنایا کہ جو الزامات لگائے گئے تھے غلط بیانی کے وہ ثابت نہیں ہوپائے اورگرفتاری اورقید وبند کی سزا انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے۔اس طرح پچھلے دس سالوں سے ہندوستان میں کئی بے خوف اور گرجتی صداقتوں کی آوازوں کو خاموش کرنے کی کوشیش کی گئی ہیں۔ یعنی حکومت کی ناقص کارکردگی اور یکطرفہ فیصلوں پر سوال اُٹھانا اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانا ، یہ آزاد صحافت کا اصول رہا ہے۔مگر اس روش پر حکومت اپنی ایجنسیوں کے ذریعہ حق پسند صحافیوں کو ہراساں کرتی رہی ہے۔ اپنی سیاسی پارٹی بھاجپا کے کارندے حکومت کے اشاروں پر بے باک اورنڈر صحافیوں کو ہراساں کرنے پولیس میں شکایتیں درج کرواتے رہے۔ اور عدالتوں میں ان پر فرضی مقدمے دائر ہوتے رہے – ایک طرح سے حکومت کی جانب سے یہ کوشش رہی کہ دیکھو چپ ہوجاؤ، سچ مت بولو، ہماری آواز سے اپنی آواز ملالو ورنہ بے آواز ہوجاؤگے۔اس طرح صحافت میں بالخصوص ٹی وی چینلس اوریوٹیوب پر خبریں اور تجزیات پیش کرنے والے کئی چینلس پر حکومت کی کڑی نگرانی رہی ہے۔ ان حق پسند اورحقائق کو آشکار کرنے والے صحافیوں کو کسی نہ کسی طرح ڈرایا دھمکایا جاتا رہا ہے۔کھلے عام ان اصول پسند صحافیوں کو ہراساں کرنے سوشیل میڈیا پر ان کے لیے غیرمہذب زبان استعمال کی جاتی رہی۔ بار بار دھمکیاں دی جاتی رہیں۔ کھلی چھوٹ کا استعمال کرتے، حکومت کے اشاروں پر ناچنے والے یہ کرایہ کے فوجی حکومت کے خلاف لکھنے اوربولنے والے صحافیوں کے دفاتر پر حملے بھی کرتے رہے، توڑپھوڑ مچاتے رہے۔مگر ان پر کوئی قانونی کارروائی دور دور تک ہوتی نظر نہیں آئی۔
ایک طرف وہ گودی میڈیا ہے جو حکومت کی سرپرستی میں گوشۂ عافیت محسوس کرتے ہوئے ارباب اقتدار کے تلوے چاٹنے میں ان کی خوشامد کرنے میں اپنا مالی فائدہ اور سرکاری مراعات حاصل کرتے رہتے ہیں ۔ حکومت کی حمایت میں حکومت کے اشاروں پر اس کی بے جا تعریف میں مصروف ایسا گودی میڈیا آزاد صحافت کے اقدار پر سیاہ دھبہ ہے ۔دوسری طرف وہ متبادل میڈیا Alternative Media وجود میں آیا ہے جو حکومت اور گودی میڈیا کی ساجھے داری کی پول کھولتا رہتا ہے۔یہ میڈیا آزادیٔ اظہارِ خیال کا طرفدار اور صحافت کی اعلیٰ قدروں کا پاسدار بھی ہے۔تبھی تو اس ملک میں حکومت کے ساتھ بے باکی سے سوال قائم کرنے، بدعنوانیوں اورغلط فیصلوں پر حکومت کو جوابدہ بنانے کے ذریعہ عوام میں سیاسی شعور اجاگر کرتا رہا ہے۔ اگر موجودہ تناظر میں یہ متبادل میڈیا جو زیادہ تر یوٹیوب پر اپنے چینل لگائے ہوئے ہے ، اگر یہ نہ ہوتا تو اور ایسی دلیرانہ کوششیں نہ ہوتیں تو خبر یں آمریت (ڈکٹیٹرشپ) کے سائے میں گہن آلود ہوکر رہ جاتیں۔
azamshahid1786@gmail.com cell: 9986831777