ایشا کماری
پٹنہ، بہار
گزشتہ چند سالوں سے ملک کو صاف ستھرا بنانے کے لیے مرکزی سطح پر مسلسل کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ایک طرف سوچھ بھارت ابھیان چلایا جا رہا ہے تو دوسری طرف ریاست کے ساتھ ساتھ شہر کی سطح پر بھی صفائی کے سروے کرائے جا رہے ہیں۔ جس میں ملک کی تمام ریاستیں اور مرکز کے زیر انتظام علاقے شامل ہوتے ہیں۔ اس میں ملک کے سب سے صاف ترین شہر کا اعزاز بھی صدر مملکت کے ذریعہ دیا جاتا ہے۔ صفائی سروے 2023 کی آل انڈیا رینکنگ میں بہار کو 27 ریاستوں میں 15 واں مقام دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس سروے میں بہار کے 142 شہروں کو شامل کیا گیا تھا۔ اس سروے میں راجدھانی پٹنہ نے اپنی پوزیشن ضرور بہتر کی ہے لیکن وہ ابھی بھی ٹاپ 10 کی فہرست سے بہت دور ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہروں میں پٹنہ کی آل انڈیا رینکنگ 77 تھی۔ اس سروے سے پتہ چلتا ہے کہ راجدھانی کے طور پر پٹنہ کو ابھی صفائی کی سمت میں بہت سے اہم قدم اٹھانے ہیں۔ دراصل پٹنہ کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں آج بھی صفائی بہت زیادہ نظر نہیں آتی ہے۔ خاص طور پر اس کی کچی آبادیوں (سلم بستیوں)میں دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ گندگی نظر آتی ہے۔ ان میں عدالت گنج کی سلم بستی بھی شامل ہے۔ جہاں صفائی کا کوئی خاص اثر نظر نہیں آتا ہے۔پٹنہ سکریٹریٹ سے تھوڑے فاصلے پر واقع اس کچی بستی کی آبادی ایک ہزار کے قریب ہے۔ جہاں تقریباً 60 فیصد او بی سی اور 20 فیصد اقلیتی برادریاں رہتی ہیں۔ تین محلوں، عدالت گنج، ایخ کالونی اور ڈرائیور کالونی میں تقسیم، یہ کچی بستی کا علاقہ صفائی کی شدید کمی کو ظاہر کرتا ہے۔
حالانکہ یہاں سوچھ بھارت کے تحت کچرا اٹھانے والی گاڑیاں بھی آتی ہیں لیکن یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ گاڑیاں باقاعدگی سے نہیں آتیں جس کی وجہ سے گندگی اور کچرے کے ڈھیر جمع ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ارد گرد کی ہوا آلودہ ہو جاتی ہے اور اس کا اثر یہاں رہنے والے بچوں کی صحت پر نظر آتا ہے۔ اس حوالے سے کالونی کی 18 سالہ نندنی کا کہنا ہے کہ ”ہماری کالونی کی حالت انتہائی خراب ہے، جگہ جگہ کچرا پھیلا ہوا ہے، جو سڑکوں اور نالیوں میں بہہ جاتا ہے، اس سے اٹھنے والی بدبو سے لوگ پریشان ہیں۔“70 سالہ رام کلی دیوی کا کہنا ہے کہ کچرے سے اٹھنے والی بدبو سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ ہر روز کچرے کی ٹوکری کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگ اکثر اپنے گھر کے باہر کچرا پھینک دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے کالونی کی ہوا آلودہ ہوتی رہتی ہے۔“ وہ کہتی ہیں کہ ”اگر اس کچرے کو کالونی سے باہر پھینکنے کے لیے باقاعدہ جگہ بنا دی جائے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، لیکن میونسپل کارپوریشن کے ملازمین انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔وہیں اگر کچرے اٹھانے والی گاڑی نہیں آئے گی تو لوگ اپنے گھر کا کچرا ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں۔“ 32 سالہ پنکی دیوی کہتی ہیں،”جب کچرا اٹھانے والی گاڑی کالونی میں نہیں آتی ہے تو ہم اپنے گھر کا کچرا باہر ہی رکھ دیتے ہیں۔جسے آوارہ کتے اسے پھاڑ دیتے ہیں اور کھانے کے لالچ میں اسے ادھرادھر بکھیر دیتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ کچرا یا تو کالونی کی سڑکوں پر پڑے رہتے ہیں یااڑ کر نالیوں میں بہہ جاتے ہیں۔“ پنکی دیوی کا کہنا ہے کہ اکثر کالونی کے بچے چپس اور کُرکوڑے کھاتے ہیں اور اپنے پیکٹ نالیوں میں پھینک دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ جام ہو جاتا ہے اور اس کا گندا پانی سڑک اور قریبی گھروں تک پہنچ جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے بلکہ بیماریا ں پھیلنے کا بھی خطرہ ہے۔ اب برسات کا موسم آ گیا ہے۔ ایسے میں جو نالے ان کچرے کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں وہ اور بھی زیادہ بہنے لگیں گے۔ اس کا پانی قریبی گھروں تک پہنچتا ہے۔ اگر کچرا اٹھانے والی گاڑیاں روزانہ آئیں تو اس قسم کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔
12 ویں کلاس میں پڑھنے والی 17 سالہ نکیتا کہتی ہیں، ”اکثر کالونی کی لڑکیاں ماہواری کے دوران استعمال ہونے والے پیڈ کو صحیح جگہ پر پھینکنے کے بجائے ادھر ادھر پھینک دیتی ہیں۔ ان پر مکھیاں بیٹھ جاتی ہیں اور پھر وہی مکھیاں لوگوں کے کھانے پر بیٹھ کر اسے آلودہ کردیتی ہیں۔ زیادہ تر لڑکیاں اس سے پھیلنے والی بیماریوں سے بے خبر ہوتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بارے میں اکثر اسکول میں بتایا جاتا ہے لیکن گھر میں گندگی کو ٹھکانے لگانے کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے لڑکیاں اسے کھلے میں پھینک دیتی ہیں۔ کالونی کی بزرگ سشما دیوی کا کہنا ہے کہ پٹنہ میں کئی مقامات پر ترقیاتی کام چل رہے ہیں۔ اس کے تحت پل اور اوور برج بنائے جا رہے ہیں۔ نقل و حمل کو آسان بنانے کے لیے عدالت گنج کے قریب ایک پل بھی بنایا جا رہا ہے۔ اس کے لیے اس بستی کے قریب سے گزرنے والے بڑے نالے کو بلاک کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا سارا گندہ پانی عدالت گنج اور ڈرائیور کالونی میں پھیل رہا ہے۔ اس کی وجہ سے جہاں ایک طرف لوگوں کو آمدورفت میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہیں دوسری طرف یہ بیماریوں کا سبب بھی بن رہا ہے۔ اب جبکہ مانسون نے بہار میں دستک دی ہے، بارش کے دوران اس کا پانی اور بھی تیزی سے پھیلنے کا خطرہ ہے۔اس بستی میں کام کرنے والی آنگن واڑی سنٹر کی لکشمی دیوی اور اسسٹنٹ ماتر دیوی بتاتی ہیں کہ اس کچی بستی میں کوئی آشا ورکر تعینات نہیں ہے۔ ایسی حالت میں اگر کوئی حاملہ عورت یا بچہ بیمار ہو جائے تو وہی انہیں ہسپتال میں داخل کرواتی ہے۔ زیادہ تر بچے گندگی سے پھیلنے والی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر اس بستی میں صفائی کا مناسب خیال رکھا جائے تو کئی بچوں کو بیماریوں سے بچایا جا سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بیداری کی کمی کی وجہ سے لوگ اکثر صفائی کی اہمیت سے لاعلم رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ گھر کا کچرا ادھر ادھر پھینکتے ہیں۔“
وہیں سماجی کارکن فلک کا کہنا ہے کہ ”اس سلم ایریا کے لوگ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ بعض اوقات کچرا اٹھانے والی گاڑی دو تین دن تک یہاں نہیں آتی۔ لیکن اگر لوگوں میں صفائی کا شعور آجائے تو اس کا حل نکل سکتا ہے۔ اس کے لیے کالونی کے لوگوں کو سماجی سطح پر منظم طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ خشک اور گیلے کچرے کو الگ کرنے اور اسے ڈمپ کرنے کے انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ہر چیز کے لیے حکومت اور انتظامیہ کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اگر کالونی کے لوگ اس مسئلے کا حل نکال لیں تو روز مرہ کے کچرے کو مستقل طور پر ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے۔صفائی سروے 2023 میں جن پیرامیٹرز کی بنیاد پر صاف ستھرے شہر کا انتخاب کیا گیا تھا ان میں بنیادی طور پر کوڑا اٹھانا، نقل و حمل، کوڑے کی پروسیسنگ اور تلف، پائیدار صفائی، علاقے کی خوبصورتی، تجاوزات اور نالیوں کے پانی کی صفائی شامل ہیں۔ اس بنیاد پر اگر ہم عدالت گنج کی اس بستی کا جائزہ لیں تو ہمیں اس میں بہت سی خامیاں نظر آئیں گی، حالانکہ ان کوتاہیوں کو دور کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ہم محض انتظامیہ اور میونسپل کارپوریشن پر ذمہ داری ڈال کر خود کو اس سے آزاد نہیں کر سکتے، بلکہ سماجی سطح پر بیداری پھیلانے کی ضرورت ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کچرا اٹھانے والی گاڑی کسی وجہ سے نہیں آتی ہے تو اس کا عارضی انتظام کیسے کیا جائے تاکہ یہ کچڑاادھر ادھر نہ پھیلے۔ شاید ایسے ہی چھوٹے چھوٹے اقدم سے ہی عدالت گنج جیسے سلم بستیوں کو سوچھ بھارت کے نقشے پر نمایاں طور پر لا یا جاسکتا ہے۔ (چرخہ فیچرس)