کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کا ٹرائل مکمل

0
0

10 جون کو صبح10بجے فیصلہ سنایا جائے گا
یواین آئی

سرینگرڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ پٹھان کوٹ میں وحشیانہ کٹھوعہ عصمت دری وقتل کیس کے ملزمان کے خلاف جاری ٹرائل اپنے اختتام کو پہنچی ہے اور فیصلہ دس جون کو صبح دس بجے سنایا جائے گا۔ یہ امر یہاں قابل ذکر ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاﺅں میں گزشتہ برس جنوری میں پیش آئے آٹھ سالہ کمسن بچی کی وحشیانہ عصمت دری اور قتل کیس کے ملزمان کا ‘ان کیمرہ’ اور روزانہ بنیاد پر ٹرائل ایک برس پہلے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ پٹھان کوٹ میں شروع ہوا۔عدالتی ذرائع نے بتایا ‘کیس کے آخری مرحلے میں طرفین کے حتمی دلائل سنیں گے جس کا سلسلہ 27 مئی سے پیر کے روز تک جاری رہا۔ جج صاحب نے پہلے استغاثہ اور پھر وکلاءصفائی کی طرف سے پیش کئے گئے حتمی دلائل سنے’۔انہوں نے بتایا ‘طرفین کے دلائل سننے کے بعد جج صاحب نے کیس کا فیصلہ محفوظ رکھا اور اسے دس جون کو سنانے کا اعلان کیا’۔متاثرہ بچی کے والد محمد یوسف پجوال کے ذاتی وکیل (پرائیویٹ کونسل) مبین فاروقی جو سپیشل پبلک پراسیکیوٹرس سنتوک سنگھ بسرا اور جگ دیش کمار چوپڑا کو کیس میں اسسٹ کررہے ہیں، نے گزشتہ ماہ یو این آئی اردو کو فون پر بتایا تھا کہ جون کے وسط تک کیس کا فیصلہ سامنے آنے کی امید ہے اور ملزمان کو سزائیں ملنا ایک سو ایک فیصد طے ہے۔ان کا کہنا تھا ‘جون کی 15 تاریخ تک کیس کا فیصلہ سامنے آنے کی امید ہے۔ اس وقت وکلاءصفائی اپنے گواہ عدالت میں پیش کررہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ واقعہ کے ملزمان کا ان کیمرہ اور روزانہ بنیادوں پر ٹرائل جاری ہے’۔مبین فاروقی نے کہا تھا کہ استغاثہ سینئر ترین وکلاءکی ٹیم پر مشتمل ہے۔ معصوم بچی کو ہر حال میں انصاف دلایا جائے گا۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ کیس میں کچھ پیچیدگیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کا میں فون پر خلاصہ نہیں کرسکتا۔فاروقی نے کہا تھا کہ وہ محمد یوسف (متاثرہ بچی کے والد) کی طرف سے عدالت میں پیش ہورہے ہیں۔انہوں کا کہنا تھا ‘استغاثہ کی طرف سے سپیشل پبلک پراسیکیوٹرس شری ایس ایس بسرا اور جگ دیشور کمار چوپڑا کیس کی پیروی کررہے ہیں اور انہیں مجھ سمیت متعدد وکلاءبشمول شری کے کے پوری، شری ہربچھن سنگھ اسسٹ کررہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں اندرا جے سنگھ اور ان کی ٹیم کیس کو صحیح سے آگے بڑھا رہے ہیں’۔کیس کے ملزمان کے وکیل اے کے ساونی نے چند روز قبل کہا تھا کہ کیس آخری مرحلے میں پہنچ گیا ہے اور ماہ رواں کی 27 تاریخ سے آخری مرحلے کی شنوائی شروع ہوگی۔انہوں نے کہا تھا کہ اس کیس کی روزانہ بنیادوں پر شنوائی ہوئی ہے اور ہمیں اپنی محنت کا صلہ ملنا چاہئے۔انہوں نے کیس میں سی بی آئی کی طرف سے انکوائری کرنے کی بات کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا ‘بحیثیت ڈیفنس کونسل جو اعتماد ہوتا وہ ہمیں شروع سے ہی رہا کہ یہ بے قصور لوگ تھے، بہت اچھا ہوتا اگر سی بی آئی انکوائری ہوتی تو اصلی قصوروار پکڑے جاتے، یہ کیس سی بی آئی انکوائری کے لئے فٹ کیس تھا اور اس طرح دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ ہوتا اور اصلی مجرم سامنے آتے’۔ایڈوکیٹ ساونی نے کہا تھا کہ ہم سب سے جتنا ہوسکا ہم نے کوشش کی کہ جج صاحب کے سامنے سچائی پیش کی جائے، اور یہ بہت ہی مشکل کام ہوتا ہے۔انہوں نے کہا تھا کہ اب سچائی سامنے آنے کا وقت سامنے آیا ہے جوں ہی ہماری بحث ختم ہوگی جج صاحب فیصلہ سنائیں گے۔انہوں نے مزید کہا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ چار پولیس اہلکاروں جن میں ایک سب انسپکٹر ایک کانسٹبل اور دو ایس پی اوز شامل ہیں، کا اس میں کوئی قصور نہیں تھا۔واضح رہے کہ متاثرہ بچی کے والد نے گذشتہ برس نومبر میں اس کیس کی بدولت راتوں رات شہرت پانے والی خاتون وکیل دیپکا سنگھ راجاوت کو اس کیس سے فارغ کردیا۔ فارغ کئے جانے کی وجہ دیپکا راجاوت کی کیس میں مبینہ عدم دلچسپی بتائی گئی تھی۔ دیپکا راجاوت کا کیس سے ہٹانے جانے پر کہنا تھا کہ ان کے لئے پٹھان کوٹ عدالت میں ہر روز حاضر ہونا مشکل تھا۔دیپکا راجاوت کو اس کیس کی بدولت غیرمعمولی شہرت ملی تھی اور انہیں گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد ایوارڈ حاصل ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ انہیں متعدد کانفرنسوں میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ادھر ایڈوکیٹ دیپکا راجاوت نے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں کہا ‘عدالت کٹھوعہ کیس کا حتمی فیصلہ دس جون کو سنائے گی’۔قابل ذکر ہے کہ ضلع کٹھوعہ کے تحصیل ہیرانگر کے رسانہ نامی گاﺅں کی رہنے والی آٹھ سالہ کمسن بچی جو کہ گجر بکروال طبقہ سے تعلق رکھتی تھی، کو 10 جنوری کو اس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ گھوڑوں کو چرانے کے لئے نزدیکی جنگل گئی ہوئی تھی۔ اس کی لاش 17 جنوری کو ہیرا نگر میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی تھی۔ کرائم برانچ پولیس نے مئی کے مہینے میں واقعہ کے سبھی 8 ملزمان کے خلاف چالان عدالت میں پیش کیا۔کرائم برانچ نے اپنی تحقیقات میں کہا ہے کہ آٹھ سالہ بچی کو رسانہ اور اس سے ملحقہ گاﺅں کے کچھ افراد نے عصمت ریزی کے بعد قتل کیا۔ تحقیقات کے مطابق متاثرہ بچی کے اغوا، عصمت دری اور سفاکانہ قتل کا مقصد علاقہ میں رہائش پذیر چند گوجر بکروال کنبوں کو ڈرانا دھمکانا اور ہجرت پر مجبور کرانا تھا۔ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ کمسن بچی کو اغوا کرنے کے بعد ایک مقامی مندر میں قید رکھا گیاتھا جہاں اسے نشہ آور ادویات کھلائی گئیں اور قتل کرنے سے پہلے اسے مسلسل درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا