سابق آئی اے ایس افسر ڈاکٹر شاہ فیصل پر پی ایس اے عائد
یواین آئی
؍؍جموں وکشمیر میں یونین ٹریٹری انتظامیہ نے سابق آئی اے ایس افسر اور جموں وکشمیر پیپلز موومنٹ (جے کے پی ایم) کے چیئرمین ڈاکٹر شاہ فیصل پر بھی پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) عائد کردیا ہے۔ شاہ فیصل وادی سے تعلق رکھنے والے آٹھویں سیاسی لیڈر ہیں جن پر پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا ہے۔سرکاری ذرائع نے بتایا کہ سن 2010 بیچ کے یو پی ایس سی ٹاپر شاہ فیصل، جنہیں سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے تحت نظربند رکھا گیا تھا، پر جمعہ کے روز پی ایس اے عائد کیا گیا۔انہوں نے کہا: ‘سی آر پی سی کی دفعہ 107 کے تحت نظربندی کے چھ ماہ مکمل ہونے پر شاہ فیصل پر بھی پی ایس اے کا اطلاق کیا گیا۔ انہیں 14 اگست 2019 کو نئی دہلی کے ہوائی اڈے پر حراست میں لیکر سری نگر میں نظربند کیا گیا تھا۔ وہ فی الحال ایم ایل اے ہوسٹل میں ہی نظربند رہیں گے’۔شاہ فیصل کو 14 اگست 2019ء کو نئی دہلی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب وہ امریکہ کے لئے جہاز پکڑنے کی تیاری میں تھے۔ انہیں نئی دہلی سے سری نگر واپس بھیجا گیا تھا جہاں انہیں نظربند کیا گیا۔ شاہ فیصل کا تب کہنا تھا کہ وہ ہارورڈ یونیورسٹی میں اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لئے امریکہ جانا چاہتے ہیں۔ تاہم حکومت ہند نے انہیں یہ کہتے ہوئے روکا تھا کہ شاہ فیصل سٹوڈنٹ ویزا پر نہیں بلکہ ٹورسٹ ویزا پر امریکہ جارہے تھے۔ شاہ فیصل نے اپنی گرفتاری سے ایک روز قبل یعنی 13 اگست 2019ء کو بی بی سی کے مقبول ٹی وی پروگرام ہارڈ ٹاک میں بات کرتے ہوئے اپنی گرفتاری کے خدشے کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا: ‘پولیس مجھے بھی گرفتار کرنے آئی تھی اور مجھے خدشہ ہے کہ جب میں واپس کشمیر جائوں گا تو مجھے بھی گرفتار کر لیا جائے گا’۔ پروگرام ہارڈ ٹاک میں اس سوال پر کہ حکومت ہند کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کرنے کے بعد آپ اپنی جماعت کے کارکنوں اور کشمیری عوام کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں، تو شاہ فیصل کا کہنا تھا: ‘پانچ اگست کو جس طرح سے انڈین حکومت نے آئینی شب خون مارا ہے اس سے ہم جیسے سیاستدان جنہیں جمہوری عمل پر یقین تھا اور وہ امید رکھتے تھے کہ انڈیا کے آئین کے اندر رہتے ہوئے ہی اس کا کوئی ممکنہ حل نکلے گا ان کا اعتماد ختم ہو گیا ہے’۔آئی اے ایس افسر سے سیاستدان بننے والے شاہ فیصل نے گزشتہ برس مارچ میں اپنی سیاسی جماعت ‘جموں وکشمیر پیپلز موومنٹ’ کو ‘ہوا بدلے گی’ نعرے کے تحت لانچ کی تھی۔ پارٹی کی لانچنگ تقریب میں متعدد نوجوان سماجی کارکنوں و طلبا لیڈران بشمول جواہر لال نہرو یونیورسٹی طلبا یونین کی سابق نائب صدر شہلا رشید نے شاہ فیصل کی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔ بعد ازاں پی ڈی پی کے سینئر لیڈر جاوید مصطفی میر بھی شاہ فیصل کی جماعت میں شامل ہوئے تھے۔ سیاسی جماعت لانچ کرنے سے قبل شاہ فیصل نے گزشتہ برس جنوری میں سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دیا تھا۔ تاہم مستعفی ہونے سے قبل وہ ڈیڑھ برس تک امریکہ میں رہے جہاں وہ ہارورڈ کینیڈی سکول میں ماسٹرس کی ڈگری حاصل کررہے تھے۔ وہ سٹیڈی لیو پر جانے سے قبل جموں وکشمیر سٹیٹ پاور ڈیولپمنٹ کارپوریشن لمیٹڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔گزشتہ برس جون میں شاہ فیصل اور عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے ‘پیپلز یونائٹڈ فرنٹ’ کے بینر کے تلے اکٹھا ہونے کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے 45 نکات پر مشتمل ایجنڈا آف الائنس بھی جاری کیا تھا اور انجینئر رشید نے دعویٰ بھی کیا تھا کہ جموں وکشمیر میں اگلی حکومت پیپلز یونائیٹڈ فرنٹ کی ہوگی۔ 36 سالہ شاہ فیصل آئی اے ایس میں ٹاپ کرنے والے نہ صرف پہلے بھارتی مسلمان بلکہ پہلے کشمیری بھی تھے۔ انہوں نے بارہویں جماعت پاس کرنے کے بعد ایم بی بی ایس کی ڈگری نمایاں کارکردگی کے ساتھ حاصل کی تھی لیکن انہوں نے ڈاکٹری کا پیشہ اختیار نہیں کیا تھا اور آئی اے ایس کی تیاری میں لگ گئے تھے۔قابل ذکر ہے کہ جموں وکشمیر میں یونین ٹریٹری انتظامیہ نے 6 فروری کو علاقائی جماعتوں کے لیڈران پر پی ایس اے عائد کرنا شروع کردیا۔ 6 فروری کو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ و محبوبہ مفتی، نیشنل کانفرنس جنرل سکریٹری علی محمد ساگر اور پی ڈی پی لیڈر سرتاج مدنی پر پی ایس اے کا اطلاق کیا تھا۔ پھر 8 فروری کو پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) لیڈر اور سابق وزیر نعیم اختر پر (پی ایس اے) عائد کیا گیا اور انہیں سری نگر کے گپکار روڑ پر واقع ‘ایم فائیو ہٹ’ میں نظربند رکھا گیا۔ چند روز قبل نیشنل کانفرنس لیڈر اور شمالی کشمیر سے رکن پارلیمان محمد اکبر لون کے بیٹے ہلال لون پر بھی پی ایس اے عائد کیا گیا۔ نیشنل کانفرنس کے صدر و رکن پارلیمان ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر پی ایس اے کا اطلاق گزشتہ سال کے ستمبر میں کیا گیا تھا اور اس کی مدت ختم ہونے کے بعد اس میں مزید تین ماہ کی توسیع کی گئی تھی۔ تاہم وہ اپنی رہائش گاہ، جس کو سب جیل میں تبدیل کیا گیا ہے، میں نظربند ہیں۔پی ایس اے، جس کو نیشنل کانفرنس کے بانی شیخ محمد عبداللہ نے جنگل اسمگلروں کے لئے بنایا تھا، کو انسانی حقوق کے عالمی نگراں ادارے ‘ایمنسٹی انٹرنیشنل’ نے ایک ‘غیرقانونی قانون’ قرار دیا ہے۔اس قانون کے تحت عدالتی پیش کے بغیر کسی بھی شخص کو کم از کم تین ماہ تک قید کیا جاسکتا ہے۔ جموں وکشمیر میں اس قانون کا اطلاق حریت پسندوں اور آزادی حامی احتجاجی مظاہرین پر کیا جاتا ہے۔ جن پر اس ایکٹ کا اطلاق کیا جاتا ہے اْن میں سے اکثر کو کشمیر سے باہر جیلوں میں بند کیا جاتا ہے۔بتادیں کہ مرکزی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو جب جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 اور دفعہ 35 منسوخ کیں اور ریاست کو دو وفاقی حصوں میں منقسم کیا تو درجنوں سیاسی لیڈران کو بند کیا گیا۔ تاہم گزشتہ چند ماہ کے دوران قریب دو درجن لیڈران کو رہا کیا گیا یا ایم ایل اے ہوسٹل سے رہا کرکے اپنے گھر میں نظربند کیا گیا۔