آفتاب اجمیری
یہ کون طور دل پہ ضیابار ہوگیا
عالم تمام مطلع انوار ہوگیا
یہ کیا اثر ترانگہہِ یار ہوگیا
بیمار درد عشق دلِ زار ہوگیا
ہنگام نزع کیا تیرا دیدار ہوگیا
مائل بہ زیست پھر کوئی بیمار ہوگیا
اچھا ہوا کہ آپ عیادت کو آگئے
آسان مجھکوجادہ دشوارہوگیا
اک دل ہی تھا بس اپنا تو اب وہ بھی غیر ہے
کیا بات تھی کہ اُن سے مجھے پیار ہوگیا
ایک مہرخامشی تھی لبوں پہ لگی مگر
نام و پیام ہوگیا اقرار ہوگیا
آمد کا شکریہ تیرا اے یوسف جمال
گھر میرا آج مصر کا بازار ہوگیا
تیری نگاہ نازہے کیا معجزہ کہ خود
ہر دل نشانہ بننے کو تیار ہوگیا
اپنے چمن میں ہم نے بنایا اشیاں
کیا جرم یہ بھی برق شرربار ہوگیا
جلوہ فگن ہوئے مرے غمکدے میں وہ
یا آفتاب شب میںضیاء بارہوگیا
7738864232