اوردو اکاڈمی یوپی اور پرچم کا شاندار سیمنار

0
109

ہندوستان میں اُردو شاعرات کی ایک کہکشاں ! لقمان خان
ےو اےن اےن
سہارنپور//گزشتہ روز سوشل تنظیم اور سیکڑوں عوامی فلاحی عملی کام انجام دینے میں سرگرم مقامی پرچم ( سوشل تنظیم )کے ذریعہ بعنوان ہندوستان کی اُردو شاعرات اُردو اکاڈمی پر ایک روزہ سیمنار کا اہتمام اُتر پردیش اُردواکاڈمی کے مالی تعاون سے روٹری کلب جن منچ میں کیا گیا مہمانِ خصوصی ہماچل سولن انسٹٹیوٹ کے سابق ڈائرکٹر لقمان خان نے کہاکہ ہندوستان میں اُردو شاعرات کی ایک کہکشاں ہے جنہوں نے اپنے قلم سے اپنے درد احساسات، آگے بڑھنے کا جنون سماجی بندھن، سماجی مسائل ، سماجی بیڑیوں کا ذکر معاشرے کی عکّاسی محبت اور دھوکا سبھی پر لکھا ہے۔ خصوصی طور پر نسیم نکہت ، علینہ عطرت، نصرت مہندی، شائستہ سنا،ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، بلقیس ظفیر الحسن، عزیز بانو وفا، رضیہ حلیم جنگ، رفیعہ شبنم عابدی، شہناز نبی، ترنّم ریاض، ثادقہ نواب سحر، شائستہ یوسف، مینا نقوی، ریکھا کنگر، اندرا ورما، انجنا سنگھ،پونم یادو، سیما شرما میرٹھی، روپا صبا وغیرہ نے اُردو زبان میں اپنے فن کے جوہر دکھائے، مہمانِ خصوصی بریلی سے آئی شاعرہ رٹائرڈ سب انسپکٹر ڈاکٹر شگفتہ غزل نے اپنی لکھی ہوئی غزلوں کے بارے میں بتایا کہ اب تک انکی ۲۱ کتابیں چھپ چکی ہیں انکے نعتیہ مضمون ”جامِ کوثر “کے نام سے ہے ”خاموش لہرےں“ نظموں کا مجموعہ ہے ”دھنک “کتاب کا نام ہے’ تشنگی“”معطّر فضائیں“”نوائے غزل“، ”صدائےں“”ماضی کے جھونکے“ وغیرہ کتابیں لکھی ہیں انہوں نے غزل گیت اردو اور ہندی دونوں میں لکھیں ہیںانہوں نے اپنا ایک شیر پڑھا” ساقی لکھا، خمار لکھا جام لکھ دیا۔ ایک دل بچا تھا وہ بھی تیرے نام لکھ دیا ۔ پوچھا کسی نے ہم سے ہمارا پتہ اگر۔ ہم نے قلم اٹھا کے تیرا نام لکھ دیا۔ دیوبند سے آئے ڈاکٹر الف ناظم نے شاعرہ عذرا پروین کی شاعری کے بارے میں مقالہ پڑھتے ہوئے بتایا ۔ انہوں نے پدرانہ ظلم و جبر کے خلاف اور صدیوں سے مظلوم و محکوم عورت کے مثائل کو اپنی شاعری کا موضو ع بنا کر صدائے احتجاج بلند کی عذرا کی شاعری خواتین کو عزم و ہمّت کی مشعال لے کر چلنے ترغیب دیتی ہے۔ ہریانہ اردو اکیڈمی کے ڈاکٹر مستمر نے ۱۲ویں صدی کی غزل گو شاعرات کے تحت اپنا مقالہ پڑھتے ہوئے کہا کہ ۱۲ویں صدی کے بدلتے منظرنامِ نے جس طرح زمانے نے کروٹ لی اسی طرح ادب نے بھی کروٹ لی خواتین کا ادب انسانی زندگی کا ترجمان ہے پروفیسر مشرّف خطیب نے عذرا نقوی کی شاعری پر اور اسلامیہ ڈگری کالج کی نصرت پروین نے لتا حیا پر اپنا مقالہ پیش کیا ڈاکٹر غظنفر زیدی نے موجودہ دورِ حاضر کی مخصوص شاعرات پر اپنی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ موجودہ شاعرات کی غزلوں کی بدولت اُردو ادب بامِ عروج پر پہنچا ڈاکٹر شاہد زبیری نے ”دورِ اوّل کی چند ممتاز شاعرات “پر اپنا مقالہ پیش کیا دبستانِ دکّن، دبستان دہلی، دبستانِ لکھنو¿ تینوں جگہوں کی شاعرات پر روشنی ڈالی۔ تھانہ بھون سے آئی عافیہ روحی تھانوی نے ۱۲ویں صدی میں جدید لب و لہجے کی نسائی آواز” بلقیس ظفیر الحسن“ پر مقالہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے جو کچھ بھی لکھا ہے وہ سب اہتجاجی نقطہ نظر اور صداقت کے لئے لکھا ہے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے انہوں نے قومی مسائل اور عورتوں کے مسائل پر بھی اپنا قلم اٹھایاانکا ایک شیر پڑھا ”دہشت زدہ زمین پر وہشت بھرے مکان یہ اس شہرِ بے امان کا آخر کوئی خدا تو ہے“۔ گنگوہ چھو پورا سے آئی پرنسپل ڈاکٹر انیتہ دیوی نے اپنی لکھی ہوئی غزل سنائی ”کہتے ہیں تو مجھے آئینہ ہو جا ۔ مگر ڈر یہ ہے کہ لوگ پتھر کے ہیں©“ انہوں نے بتایا کہ وہ گیت ، کویتائیں ، بھجن غزل سبھی کچھ لکھتی ہیں۔ صدارت کرتے ہوئے ثابق ممبر پلانگ کمیشن اتراکھنڈ تنویر چشتی نے کہا کہ اُردو شاعری کی تاریخ میں خواتین شاعرات کا ذکر مرد تزکرہ نگاروں نے ضروری نہیں سمجھا لہٰذا شیر و ادب میں انکی حصّہ داری کا صحیح تعین آج تک نا ہو سکا۔ اب فضا بدلی ہے اور خواتین بھی اپنے حقوق کے تئیں بیدار ہو رہی ہیں۔ لہٰذا اب کوئی مورّخ انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر قدسیہ انجم نے بہت سی شاعرات کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور پر مینا کماری کی غزلوں کا ذکر کیا اور مینا کماری کی لکھی ہوئی غزل ”چاند تنہا ہے آسماءتنہا دل ملا ہے کہاں کہاں تنہا“ سنائی۔ سیمنار میں مہمانوں کو سرٹیفکٹ اور مومینٹو دیئے گئے فرزانہ شیخ نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔ سیمنا ر میںاجے کندن، ڈاکٹر ایّوب، مطلوب قریشی، انیس ایڈوکیٹ ، ارشد قریشی، رونق ایڈوکیٹ خوشبو خان، فرح شمائلہ،نیحہ، رفعت فرزانہ، مشطاق انجینئر، آصف شمسی، تلعت سروحا، علیشہ، اقرائ، حدیقہ، خدیجہ بڑی تعداد میں لوگ موجود رہے

 

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا