سر سید احمد خاںاور اکبرؔ الٰہ آبادی (کتنے دور،کتنے پاس )

0
53

 

 

ڈاکٹر منظر حسین

8210470292

 

یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ انیسویں صدی کا عہد ممالکِ اسلامیہ کے لئے آشوب و ابتلا ء کا

عہد تھا ۔ سارے عالم اسلام پر تنزل کے بادل چھا چکے تھے ۔ ایک ہزار سال سے زیادہ جس اسلامی تہذیب کا پرچم ہر جگہ لہلہا رہا تھا ، اس کی جگہ استعماری قوتوں نے لے لی تھی ۔ ہندوستان سے لے کر مراقش تک تمام دنیائے اسلام پر نکہت اور ادبار کی گھٹائیں چھا رہی تھیں ۔ دولتِ عثمانیہ کا آفتاب غروب ہو رہا تھا ۔

https://amu.ac.in/about-us/the-founder

انیسویں صدی کے وسط تک ترکی کو یورپ کو مردبیمار (The Sick mang the Europe) کہاجانے لگا ۔ برطانیہ نے 1815ء میں مالٹا پر اور 1878ء میں قبرص پر اپنا قبضہ جما لیا تھا۔ 1883ء میںمصر پر عملًا اس کی حکومت تھی ۔ سوڈان لا رڈ کچز کی کمان میں 1898ء میں فتح حاصل کر لیا گیاتھا ۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی آتے آتے 29دسمبر 1919ء کو اٹلی نے طرابلس پر حملہ کر دیا ۔ ساتھ ہی ہندو ستان پورے طورپر برطانوی حکومت کے شکنجے میں تھا ۔ چونکہ انگریزوںنے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اور پھر یہ کہ 1857ء کے انقلاب کی سربراہی بہادر شاہ ظفر نے کی تھی لہٰذا انگریز مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے اور مسلمانوں سے بد ترین انتقام لینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی ۔ سقوطِ دہلی کے بعد ہندوستان کے کئی بڑے شہروں میں قتل و غارت گری کا سلسلہ عام ہوگیا ۔ مغل سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو معزول کر کے جلا وطن کر دیا گیا ۔ ملک کے اقتدار میں جب مکمل طورپر انگریزوں کا تسلط ہوا توانہوںنے سیاسی ، تمدنی ، تہذیبی ، معاشی ، سماجی ، تعلیمی اور مذہبی نظام کو تبدیل کر نا شروع کر دیا ۔ بات صرف اقتدار کے گم ہوجانے کی ہی نہیں تھی بلکہ تہذیب و تمدن ، دین ومذہب ، رسم و روج ، رہن سہن ، تعلیم و تربیت ، معاشرت و اخلاق سبھی شعبے پوری طرح اثر انداز ہو نے لگے تھے ۔
آشوب و ابتلا ء کے اس عہد میں جن مصلحین نے اصلاح و تجدید کی قندیل کو روشن کیا ان میں سر سید احمد خاں اور اکبرؔ الٰہ آبادی دونوں کے نام اہم بھی ہیں اور نمایاں بھی ۔ دونوں مصلح قوم کی حیثیت سے معروف ہیں ۔ دونوں کی فکر میں مماثلت بھی ہے اور مغائرت بھی ۔ سر سید کی پیدائش 17اکتوبر 1817ء کو دہلی میں ہوئی ۔ اکبرؔ الٰہ آبادی 16نومبر 1846ء کو قصبہ بارہ ضلع الٰہ آباد میں پیدا ہوئے۔ یعنی سر سید عمرمیں اکبرؔ آبادی سے تقریبا 28سال بڑے تھے ۔ لیکن دونوں کے فکر نظر میں کافی بُعد تھا ۔ دونوں حکومتِ برطانیہ کے عہدیدار بھی تھے ۔ سر سید اس نظریے کے حامی تھے کہ ہندوستان میں برطانوی حکومت ایک حقیقت بن چکی ہے اور یہاں کے لوگوں خصوصاً مسلمانوں کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ حکومت کا حصہ بنیں اور اپنے مستقبل کو سنواریں ۔ مسلمانوں کو ترقی کی راہ پر گامزن کر نے کے لئے علی گڑھ تحریک کی بنیاد رکھی گئی جس نے انگریزی تعلیم و تہذیب کے حصول کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا ۔ ان کی یہ تحریک قوم کو زوال و ادبار سے محفوظ کرنے ، لاچاری اور مایوسی کے دلدل سے نکالنے ، ان کے دلوں میں امید کی کرن روشن کرنے کے لئے تھی جو دوررس فراست اور حکمتِ عملی پر مبنی تھی لیکن المیہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کا نام نہاد اشرفیہ طبقہ ان کا مخالف ہو گیا ۔ یہ وہ لوگ تھے جو خود انگریزی سرکار کے ملازم تھے ۔ ان کے گھروں میں انگریزی طور طریقے رائج تھے ۔ سر سید کے مخالفین میں جو لوگ سر گرم عمل ہوئے ان میں ڈپٹی کلکٹر امداد العلی ، واجد علی خاں ، نبی بخش کے علاوہ ڈپٹی نذیر احمد اور اکبرؔ الٰہ آبادی بھی تھے ۔ اس پر طرّہ یہ کہ اسی زمانے میں سید جمال الدین افغانی بھی اپنی پین اسلامی تحریک کے سلسلے میں کئی سال تک ہندوستان میں قیام پذیررہے تھے ۔ وہ سر سید کے مذہبی خیالات اور ان کے تعلیمی لائحہ عمل کو برطانیہ کے مفادات کے ذیل میں سیاسی محکومی سے تعبیر کرتے تھے ۔ انہیں سر سید کی تعلیمی اور سیاسی پالیسی پر بھی اعتراض تھا ۔ لہٰذا اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ سر سید ہر قیمت پر مسلمانوں کو انگریزوں کی وفادار رعیت بنا دینا چاہتے ہیں ۔ سید جمال الدین افغانی نے اپنے مضمون ’’ہندوستانی نیچری ‘‘ میں سر سید کو ملحد تک قرار دے دیا ۔ دوسری طرف سر سید ہندوستانی مسلمانوں کی معاشرتی بقا کے لئے انگریزی اقتدار کو عقیدہ کی طرح قبول کرنے کی تلقین کررہے تھے ۔ یہ ان کی مصلحت پسندی کی انتہا تھی ۔ بقول مولانا سید ابو الحسن ندی :
’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوںنے اس نظام تعلیم کو (جس کو مغرب میں آخری شکل دی گئی تھی) ہندوستان کے مسلم معاشرے کے حالات اور تقاضوں کا پابند و ماتحت نہیںبنایا جہاں اس کو نافذ کرنا تھا ۔ انہوںنے اس کو نئے سرے سے ڈھالنے اور اسلامی شکل دینے پر غور نہیں کیا ، نہ اس کو مغربی تمدن اور اس کی مادی روح سے پاک کرنے کی طرف کوئی توجہ کی جس کی ایک مشرقی اسلامی ملک کو کوئی ضرورت نہ تھی ۔ انہوںنے اس نظام کو مغرب سے اس کی ساری تفصیلات ، خصوصیات اس کی روح و مزاج اور اس ماحول و روایت کے ساتھ جو اس سے وابستہ تھی جوں کا توں درآمد کیا ۔ انہوںنے نہ صرف مغرب کے تعلیمی نظام پر ہی اصرار کیا بلکہ مغربی تمدن اور روح کے قبول کرنے پر شدید اصرار کیا ۔‘‘ 1؎
مذکورہ بالا تحریر سے میرے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ برطانوی حکومت کے تئیں سر سید کی پالیسی ہمیشہ اطاعت گذار اور وفادار رعیت کے مصداق رہی ۔ اکبرؔ الٰہ آبادی کو سر سید کی اسی مصلحت پسندی ، اطاعت گذاری اور عقلیت پسندانہ خیالات سے اختلاف تھا ۔ اکبر مغربی تعلیم کے زیر وزبر سے واقف تھے ۔ اکبرؔ نے خود مشن اسکول میں تعلیم پائی تھی ۔ انگریزی اس حد تک سیکھ لی تھی کہ ملازمت کے آخری دنوں میں فیصلے انگریزی میں لکھنے لگے تھے ۔ سر سید کے صاحبزادے سید محمود بیر سٹری کے لئے لندن گئے تو اکبرؔ نے بھی اپنے بیٹے عشرت حسین کو اسی مقصد کے لئے لندن بھیجا ۔ لہٰذا اکبرؔ کو قدامت پسند یا ماضی پرست کہہ کر نظر انداز نہیںکیا جا سکتا ۔ مغربی تہذیب کے یلغار کے پیش نظر وہ زندگی میں دین کے تقاضوں اور مذہبی عقائد سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھے ۔ وہ مشرقی افکار کے دلدادہ مذہبی انسان تھے ۔ اس لئے وہ ایک تہذیب ایک تمدن کے عاشق ہیں ۔ انہیں سر سید احمد خاں کے تعلیمی مشن سے سخت اختلاف تھا ۔ انہیں اس کا احساس اور زبردست احساس تھا کہ انگریزی تہذیب اور انگریزی سیاست نے ہماری تہذیب و ثقافت کے نقوش مٹانے کے لئے کیا کیا نہ جتن کئے جس کے نتیجے میںجہاں ایک طرف ہماری نظروں میں خود ہمارا تہذیبی ورثہ بے وقعت دکھائی دے رہا ہے تو دوسری طرف ہمارے دینی شعائر اور مذہبی عقائد تک معرض خطر میں ہے ۔ ایسی صورت میں ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرنا اکبرؔ جیسے راسخ العقیدہ شخص کے لئے نا ممکن تھا ۔ اتفاق سے اسی زمانے میں1877ء میں لکھنؤسے ’’اودھ پنچ‘‘ اخبار کا اجرا ہوا ۔ خالص روایت پسندی اور مشرقی تہذیب کی بقاء اور تحفظ ’’ اودھ پنچ ‘‘ کا خاص مقصد تھا ۔ اس اخبا رکے مدیر منشی سجاد حسین تھے ۔ سر سید تحریک اودھ پنچ کے نشانے پر تھی ۔ اکبرؔ کو طنز و مزاح کے لئے ایک مضبوط پلیٹ فارم مل گیا ۔ لہٰذا اودھ پنچ کا رنگ ان پر اس قدر چڑھا کہ سر سید کے مشن کو اپنے طنز و ظرافت کے توسط سے ہدف تنقید بنایا ۔ دیکھئے یہ اشعار جن کا تعلق براہِ راست سر سید کی تحریک سے ہے ؎
سید اٹھے گزٹ کے لئے تو لاکھوں آئے
شیخ قرآن دکھاتے پھرے پیسہ نہ ملا
———————
اسلام کی رونق کا کیا حال کہوں تم سے
کونسل میںبہت سید مسجد میں فقط جمن
———————
ایمان بیچنے پہ ہیں سب تلے ہوئے
لیکن خرید ہو جو علی گڑھ کے بھائو سے
———————
سید سے علی گڑھ میں یہ جاکر کوئی کہہ دے
ہے تجھ کو طلب قوم کی قسمت سے زیادہ
———————
نظر ان کی رہی بس کالج کے علمی فوائد پر
گرا کے چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر
———————
یوں قتل سے لڑکوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
———————
علی گڑھ کو شرف بخشا ہے اقبال نصاریٰ کا
کہ جو مسلم اٹھا شوقِ ترقی میں یہیں آیا

مذکورہ تمام اشعار کا تعلق براہِ راست سر سید تحریک سے ہے ۔ اکبرؔ کو سر سید کے تعلیمی مشن سے بھی اختلاف تھا ۔ انہیں یہ خوف ستائے جا رہا تھا کہ مسلم نوجوانوں میںمغرب کی اندھی تقلید مذہب بیزاری کی طرف لے جائے گی ۔ لہٰذا وہ مسلم نوجوانوں کو سرسید کی باتوں میں نہ آنے کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں ۔ دیکھئے یہ اشعار ؎
نہیں ہے تمہیں کچھ بھی سید سے نسبت
تم انگریزداں ہو وہ انگریزی داں ہے
سر سید کے افکار و نظریات حالات کے پیش نظر قومی ترقی کے محور پر گھوم رہے تھے۔ اس سے بھی انکار نہیںکیا جاسکتا کہ 1857کے انقلاب کے بعد سرسید نے مسلمانوں کو جگانے ، ان کے دلوں میں امید کی کرن روشن کرنے اور ان کو تعمیر و ترقی کے راستے پر گامزن کرنے کی انتھک جدو جہد کی ہے ۔ نظریاتی اختلاف بھی ممکن ہے لیکن اکبر الٰہ آبادی نے جس طرح سر سید کے خلاف بے قابو جذبات کا بے محابا نہ اظہار کیا ہے ، ان کی شخصیت اور شاعرانہ مرتبہ دونوں مجروح ہوئے ہیں۔ اکبر خود انگریزی حکومت کے عہدے دار تھے ۔ انگریزی تعلیم سے بھی نا آشنا نہ تھے ۔ بیٹے عشرت حسین کو بھی مغربی تعلیم دلانے کی خاطر لندن بھیجا ۔ آخر قول و فعل میں اتنا تضاد کیوں؟ انہیں مغربی تعلیم اور مغربی تہذیب سے نفرت تھی یا سر سید سے ذاتی طور پر بغض و عناد تھا جس کے نتیجے میں وہ احساس کمتری کے شکار ہو گئے تھے ؟ ان تمام نکات کا تجزیہ کرتے ہوئے معروف ماہر نفسیات پروفیسر سید محسن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے :
’’چنانچہ ان کے اندر (اکبر) ویسی ہی مقبولیت ، ویسے ہی اعزاز و عظمت کی تمنا کروٹیں لیتی رہی جو ان کے ہم عصر سرسید کو حاصل تھی ۔
لیکن قوم و ملت نے سر سید کی جیسی قدر شناسی کی ، مسلم پبلک کے ایک بڑے تعلیم یافتہ اور سربرآوردہ حلقے میں ان کی جیسی آئو بھگت ہوئی ، اکبرؔ الٰہ آبادی اس سے محروم رہے۔ سرکار برطانیہ نے بھی جس کے وہ نمک خوار تھے جہاں سر سید کو خطاب سے نوازا ، انہیں صرف خان بہادر کے قابل سمجھا ۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوا کہ سر سید کے لئے رشک و عناد کے جذبات اکبر الٰہ آبادی کے اندر پرورش پانے لگے ۔ چنانچہ سرسید کی شاید واحد ذات ہے جسے انہوںنے بحیثیت فرد کے اپنی طنزیہ شاعری کا نشانہ بنایا ہے ۔ سر سید کو ملعون و مطعون کرنے میں انہوںنے کوئی کسر چھوڑ نہ رکھی ۔ انہیںملحد، دشمنِ دین و ایمان ، نیچری ، بندہ حب و جاہ ، مغربی تہذیب کا پرستار وغیرہ کیا کیا نہ کہا ۔ ‘‘ 2؎
پروفیسر سید محسن کی رائے سے اتفاق کیا جا سکتا ہے ۔ اکبرؔ یقینا احساس کمتری کے شکار تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی فکر اور عمل میں تضاد نظر آتا ہے ۔ سرسید کی شہرت ، ترقی ، ان کی عملی کاوشوں کو یہ ہضم نہیں کرسکے ۔ 1869میںجب سر سید نے لندن کا سفر کیا تو ان کے اعزاز میں وہاں کے حکام ، افسران نے دعوتوں کا بھی اہتمام کیا ۔ اکبرؔ نے انگریزوں سے اس طرح کے رسم و راہ کو مذہبی اعتبار سے غلط بتایا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ مشرقی روایات اس کی اجازت نہیں دیتیں ۔ اس طرح کے میل جو ل سے ہندوستانی تہذیب و ثقافت اثر انداز ہو گی اور اس کی شناخت مٹ جائے گی ۔ دیکھئے یہ اشعار ؎
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
———————
کبھی لاٹ صاحب ہیں مہمان اس کے
کبھی لاٹ صاحب کا وہ مہمان ہے
اکبرؔ الٰہ آبادی اتنا ہی پر اکتفا نہیںکرتے بلکہ نوجوانوں کو سرسید احمد کی باتوں سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں ۔ دیکھئے ان کا یہ حکیمانہ تخاطب کا انداز ؎
نہیں ہے تمہیں کچھ بھی سید سے نسبت
تم انگریزی داں ہو وہ انگریزداں ہے
لیکن اکبرؔ کی یہ حکمت عملی کا رگر نہ ہو سکی ۔ انگریزی تعلیم کا رجحان بڑھنے ہی پر تھا ۔ ادھر برطانوی حکومت میں سر سید احمد خاں کے اثر ورسوخ بڑھ رہے تھے بلکہ برطانوی حکومت کے اعلیٰ افسران بھی ان کی محفل میں شریک ہونے لگے تھے ۔ بھلا اکبرؔ اس کو کب برداشت کرتے ۔ لہٰذا انہوںنے تنقید کی بوچھار کردی ۔ علی گڑھ کالج کو بھی اپنی تنقید کا ہدف بنایا ۔ دیکھئے یہ اشعار ؎
کہے کوئی شیخ سے یہ جاکر کہ دیکھئے آکے بزم سید
یہ رونق اور یہ چہل پہل ہو تو کیا برا ہے گناہ کرنا
———————
ترقِیٔ دیں ہوگی اب روز افزوں
علی گڑھ کا کالج ہے
لندن کی مسجد
طنز اور ظرافت کے پردے میں بے اعتدالی کا اظہار ہنر مندی ہے لیکن کسی سے ذاتی کدورت ، نفرت ، بغض و عناد کی نفسیات سے مغلوب ہو کر خود کو بے اعتدال ہوجانا احسن فعل نہیں۔ اکبرؔ کے یہاں سر سید کے تئیں جو جھنجھلاہٹ ، بیزاری ، تلخی یا اشتعال انگیزی ہے ، اسی نفسیات کا غماز ہے ۔ ظرافت کی بنیادی شرط جذباتی غلو نہیں بلکہ سیر چشمی ہے ۔ ضبط و تحمل کا دامن اگر ہاتھ سے چھوٹا تو ظرافت نگار کی حیثیت ادبی فنکار سے زیادہ نو ٹنکی کے بھانڈ کی ہوجاتی ہے ۔ ایسے کریہہ الصوت اشعار اکبرؔ کے یہاںبہت مل جائیں گے جو جذباتی غلو کے آئینہ دار بن گئے ہیں۔ یہاں میں ایک رباعی پر اکتفا کرتا ہوں ؎
کتا جیسے بہ فکر جیفہ دوڑے
یوں دہر پہ نیچری خلیفہ دوڑے
جب مرکے چلے جنت حضرت
لٹھ لے کے امام ابوحنیفہ دوڑے
اس قسم کے اشعار کے حوالے سے اگر اکبرؔ کی نفسیات کا تجزیہ کیاجائے تو یہ مغز اُبھرتا ہے کہ اکبر کی حیثیت سر سید کے مشن کے خلاف ایک ڈھندورچی کی ہوجاتی ہے جو اکبر جیسے مصلح قوم کے لئے زیب نہیں دیتا ۔ مصلح قوم کی نگاہ ہمیشہ اپنی قوم کی زبوں حالی ، پسماندگی ، غلط رسم و رواج ، تقلیدی رویے ، جہالت و غربت اور اقتصادی بدحالی پر ہوتی ہے اور اس کے تدارک کے لئے ہمیشہ متفکر رہتا ہے ۔
لیکن اکبرؔ کے یہاں اس طرح کی کاوشیں معدوم ہیں۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے اکبرؔ کی نفسیات کی طرف اشارہ ان الفاظ میںکیا ہے :
’’غالباً اؔکبر الٰہ آبادی اپنی جوانی کے زمانے ہی سے کلیت زدہ (Cynic) تھے اور حقائق کو اپنے تعصبات کی عینک سے دیکھنے کے اس قدر عادی ہو چکے تھے کہ وہ حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود حقیقت پسند نہیںہوپائے ۔ ‘‘ 3؎
سر سید اور اکبرؔ الہٰ آبادی دونوں کے مصلحانہ کاوشوں کے پیش نظر ان کے مذہبی خیالات کا جائزہ لیاجائے تو بے اعتدالی دونوں کے یہاں ہے ۔ اس سلسلے میں اردو کے دو بلند پایہ نقاد کے خیالات کا ایک ایک تراشہ نقل کرنا چاہوں گا: پہلی رائے پروفیسر آل احمد سرور کا ملاحظہ ہو:
’’ سر سید کی تحریک کی بنیاد بھی مذہب تھا اور اکبرؔ کی بنیاد بھی مذہب لیکن دونوںنے مختلف رنگوں کی عینکیں چڑھا رکھی تھیں۔ اس لئے ایک ہی چیز دوسری معلوم ہوتی تھی ۔ یہاں اکبرؔ اپنے زمانے کے پورے طور پر ترجمان نظر آتے ہیں۔ اکبرؔ کے مذہبی خیالات وہی تھے جو سب کے تھے ، سب مذہب کو روزہ نماز میں محدود سمجھتے تھے ۔ سر سید کا مذہب کا تصور دوسرا تھا ۔ وہ مذہب کو ایک فلسفۂ زندگی جانتے تھے ۔ اسے صرف عقائد کا مجموعہ اور احکام کی پوٹ نہیں مانتے تھے بلکہ پوری زندگی کے لئے ایک دستور العمل تصور کرتے تھے ۔ ‘‘ 4؎
اب سر سید کے افکار ونظریات کے حوالے سے پروفیسر احتشام حسین کی رائے ملاحظہ ہو:
’’ سر سید انگریزی حکمتِ عملی کے شکار ہو گئے ۔ ان کی نگاہ محدو د ہو گئی ۔ یہاں تک کہ انہوںنے آہستہ آہستہ صرف مسلمانوں اور وہ بھی ہندوستانی مسلمانوں کے ایک چھوٹے سے حلقے کے مفاد کو اپنے تمام اعلیٰ خیالات کا مرکز بنا لیا اور انگریزوں کی حمایت میں یہ بھی بھلا دیا کہ یہی انگریز مشرق قریب اور مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کا خون بھی چوس لینا چاہتے تھے ۔ علی گڑھ تحریک اس طرح آہستہ آہستہ تضاد کا شکار ہوتی گئی اور سر سید کے غیر معمولی ذہن نے اپنی کمان سے ترقی کے تیر نکال کر رجعت پسندی کے تیر لگائے جس سے خود ان کی تحریک زخمی ہوگئی ۔ ‘‘ 5؎
مذکورہ دونوں اقوال کا رنگ جدا جدا ہے ۔ آل احمد سرور کی تحریر میںسرسید کے تئیں جانبداری بھی ہے لہٰذا ان کی حیثیت وکیل صفائی کی ہو گئی ہے ۔ علی الرغم سرسید کے متعلق احتشام حسین کی تنقید میں جارحیت ہے ۔ تحریر میں دم کا پہلو نمایاں ہے ۔ احتشام حسین نے جو تجزیہ کیا ہے ، سر سید کے مشن کے افادی پہلو اور ان کی عظمت کو بالکل ہی نظر انداز کر دیا ہے ۔ بہر حال یہ دونوں تراشے جملۂ معترضہ کے طورپر پیش کئے گئے ہیں ۔ جہاں تک اکبرؔ کا معاملہ ہے ، ایک زمانے تک سر سید کے خلوص کو شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے رہے ، تضحیک کا ہدف بھی بنایا ۔ سرسید کے مقابلے میں اپنی مذہبی فکر اور تہذیب وثقافت کو ترجیح دیتے رہے ۔ وہ سرسید کی قومی خدمات کو دنیاوی عیش و عشرت اور مذہب سے بیگانگی سے موسوم کرتے تھے ۔ لیکن عمر کے آخری پچیس سالوں میں سر سید اور ان کے مشن کے حوالے سے اکبرؔ کے افکار ونظریات میں زبردست تبدیلی آئی اور مرتے دم تک سر سید کے فکرو نظر اور جذبۂ صادق کے معترف رہے ۔پہلے وہ اشعار ملاحظہ ہو ںجن میں اکبرؔ کا احساسِ حزیمت بھی اجاگر ہے ؎
صدمے اٹھائے ، رنج سہے ، گالیاں سنیں
لیکن نہ چھوڑا قوم کے خادم نے اپنا کام
دکھلا دیا زمانے کو زور دل و دماغ
بتلا دیا کہ کرتے ہیں یوں کرنے والے کام
اسی طرح جب علی گڑھ کالج کی اہمیت اور افادیت مسلمانوں کی نگاہ میں اجاگر ہونے لگی تو اکبرؔ نے بھی اس کی اہمیت کو تسلیم کیا ۔ سر سید کی کوششوں کو سراہا ۔ دیکھئے یہ اشعار ؎
جو لوگ طرفدار علی گڑھ کے رہیں گے
اس دور میں بیشک وہی بڑھ چڑھ کے رہیںگے
———————
سب جانتے ہیں کہ علم سے ہے زندگی کی روح
بے علم ہے اگر تو وہ انساں ہے نا تمام
———————
تعلیم گر نہیں ہے زمانے کے حسب حال
نیچر کا اقتضا ہے رہے بن کے وہ غلام
———————
سید کے دل پہ نقش ہوا اس خیال کا
ڈالی بنائے مدرسہ لے کر خدا کا نام
———————
صدمے اٹھائے ، رنج سہے ، گالیاں سنیں
لیکن نہ چھوڑا قوم کے خادم نے اپنا کام
———————
خدا علی گڑھ کے مدرسے کو تمام امراض سے شفا دے
بھرے ہوئے ہیں رئیس زادے ، امیر زادے ، شریف زادے
اکبرؔ نے سر سید کی وفات پر جو معرکۃ الآراء قطعہ قلم بند کیاہے اس میں عقیدت بھی ہے اور سرسید کی خدمات کا پر خلوص اعتراف بھی ؎
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کہے جو چاہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبرؔ
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
مجموعی طورپر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ 1857ء کے انقلاب کی ناکامی کے بعد دونوں مصلحین کے دل میں قوم و ملت کے لئے تڑپ تھی ۔ دونوں اس بات کے متمنی تھے کہ مسلمانوں کا کھویا ہوا وقار جلد واپس ہوجائے ۔ دونوں قوم کی بھلائی کے لئے کوشاں تھے ۔ سر سید کا نظریہ محض مغربی تہذیب و ثقافت کی اندھی تقلید نہیں بلکہ بگڑے ہوئے حالات میں ان کے تعلیمی افکار و نظریات کی حیثیت خضرراہ کی ہے ۔ اسی طرح اکبرؔ الٰہ آبادی کی شاعری کو محض بذلہ سنجی کی شاعری کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری ان کے عہد کی ہر کروٹ کا آئینہ دار بھی ہے اور ہر تجربے کا عکاس بھی ۔ سر سید کی حیثیت اگر عقلیت پسند مفکر کی تھی تو اکبرؔ الٰہ آبادی نے ایک کہنہ مشق مصور کی طرح اپنے عہد کی جاندار تصویریں پیش کی ہے۔سرسید کی بصیرت میں مغربی تہذیب اور اس کے مضر اثرات کا جو پہلو ہے اکبرؔ اس کو دیکھ کر سخت مضطرب تھے ۔ لہٰذا اکبر نے اپنی شاعری میں انہیں نکات پر پڑھنے والوں کی توجہ مبذول کرائی ہے اور آنے والے خطرات سے آگاہ کیا ہے ۔ سرسید کے فکرو عمل میں کمزوری اور بے اعتدالی پر اکبر ؔنے اپنی شاعری میں جو احتساب کیا ہے ، بلند پایہ اسلامی مفکر مولانا ابو الحسن علی ندوی نے اس کو قابل قدر سرمایہ قرار دیا ہے ۔کہتے ہیں :
’’ سر سید کے تقلیدی ذہن اور رجحان کا مقابلہ ایک ایسے معاصر کے حصہ میں آیا جس نے قدیم طرز پر بغیر کسی اور رعایت کے اس پر نشتر زنی کی ۔ یہ اکبرؔ الٰہ آبادی تھے۔ انہوںنے اپنے مخصوص ومعروف مزاحیہ انداز اور بلیغ و طاقت ور اسلوب میںنئی تعلیم پانے والے نوجوانوں پر (جو اپنے ہی لخت جگر تھے ) تنقید کا ناخوش گوار لیکن ضروری فرض انجام دیا اور آخر دم تک اسی کو اپنے شعرو سخن کا موضوع بنائے رکھا ۔ انہوںنے سر سید کے خلوص کے اعتراف کے ساتھ ان کی تعلیمی سیاست ، تقلید مغربی کی پر جوش دعوت اور کالج کی مغربی زندگی اور فضا پر بے باکانہ مگر لطیف انداز میں تنقید کی ۔ جس میں اس کی مغرب کی اندھی تقلید ، عقائد میں کمزوری ، دین میں ڈھیلے پن ، نوجوانوں کی تن آسانی ، ان کے بلند معیار زندگی ، فیشن پرستی ، اہلِ دین سے وحشت ، ملازمتوں پر انحصار ، قدیم مشرقی تہذیب اور اس کی روایات اور خصوصیات سے بغاوت ، مغربی معاشرہ میں فنائیت اور خالص مادی طرز فکر کو خوب نمایاں کیا۔‘‘
میںاپنے مضمون کا اختتام اکبرؔ الٰہ آبادی کے اس شعر پر کرتا ہوں
زبان اکبر میں کب یہ قدرت کہ کہہ سکے راز سوز حسرت
وہ شمع اس کو بیاں کرے گی جو گور سید پہ جل ر ہی ہے

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا