مسلمانوں پربڑھتے مظالم اور منافرت کا منظر نامہ1-

0
77

ڈاکٹر سیّد احمد قادری
گزشتہ دس برسوں میں بی جے پی کی حکومت نے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کا متعصبانہ، ظالمانہ اور آمرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے دانستہ طور ان کی لسانی ، سماجی ، سیاسی ، تعلیمی ، معاشی ، تاریخی، تہذیبی اور معاشرتی سطح پر جومنافرت اور مظالم بھرے سلوک کئے ہیں ۔ اس پورے منظر نامے پر ایک عمومی نظر ڈالی جائے تو جو منظر نامہ ابھر کر سامنے آتا ہے ۔وہ بہت ہی افسوسناک ، ہولناک اور ہیبتناک ہے۔

https://www.aljazeera.com/news/2024/5/18/has-indias-muslim-population-really-exploded
پوری دنیا چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ہندوستان کے اقلیتوں با الخصوص مسلمانوں پر گزشتہ دس برسوں میں ظلم و تشدد کے واقعات میں کا فی اضافہ ہوا ہے ۔ ملک کے سیکولر دانشوروں ، سابق فوجیوں ، سائنسدانوں ، فلمی دنیا کے فنکاروں ، مختلف زبان کے ادیبوں، شاعر وغیرہ ملک کے مسلمانوں پر آئے دن ہونے والے مظالم پر مسلسل احتجاج اور افسوس کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ سے ایسے ناپسندیدہ سانحات پر قدغن لگانے کی گزرش کر رہے ہیں ۔ سیکولر میڈیا بار بار ملک کے سربراہ کو اس جانب خصوصی توجہ دلانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ لیکن افسوس کہ ایسے تمام احتجاج اور گزارشات پر کوئی توجہ دئے جانے اور قدغن لگانے کی بجائے ایسے تمام واقعات و سانحات کو نظر انداز کئے جانے بلکہ ان پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے اپنی رضامندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اب حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ ملک کے سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کی جو صدیوں سے اس ملک میں اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ شیر و شکر کی طرح آپسی اتحاد و اتفاق کے ساتھ رہتے آئے ہیں ، اپنی قدیم گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دیتے رہے ہیں ۔ ان کے درمیان خلیج کو دانستہ طور پر بڑھا دیا گیا ہے ۔ یہاں تک کہ حکومت کی مصلحت آمیز خاموشی کو رضامندی تصور کرتے ہوئے ملک کے مسلمانوں کے تشخص کو ہر سطح ختم کرنے کی کوششیںکی جارہی ہے ۔ ملک کی بیشتر ریاستوں میں بسنے والے مسلمانوں کی مادری زبان اردو کو ختم کرے کی عملی کوششیں جاری ہیں۔ ممکن ان کے ذہن کے کسی گوشے میں برنارڈ شا کی یہ بات متحرک کر رہی ہوکہ کسی قوم کو ختم کرنا ہے تو پہلے اس قوم کی زبان کو ختم کر دو ۔ اس لئے مادری زبان کو ختم کرنے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ ہماری تہذیب و تمدن کے خاتمہ کی کوشش جس طرح کی جارہی ہے وہ بھی سب کے سامنے عیاں ہے ۔
اس امر سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ اس ملک کے مسلمانوں کی شاندار اور سنہری تاریخ رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی صدیوں تک اس ملک پر مسلمانوں نے حکمرانی کی ہے لیکن کبھی بھی اپنے ہم وطن ہندو بھائی کے ساتھ منافرت کا ثبوت نہیں دیا بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا اور گنگا جمنی تہذیب کی بہترین مثالیں پیش کرتے رہے ، لیکن افسوس کہ دانستہ طور پر بی جے پی کی حکومت یہاں کے مسلمانوں کی سنہری تاریخ کو یہ کہتے ہوئے بدلی جا رہی ہے کہ یہ تاریخ غلط لکھی گئی ہے ۔ اب تک کتنی تاریخیں بدل بھی دی گئی ہیں اور تبدیل شدہ تواریخ کو بچوں کے نصاب میں شامل بھی کر لیا گیا ہے ۔ اگر ہماس فعل کا جائزہ لیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ دراصل تاریخ ہندمیں کوئی کردار نہ ہونے کی وجہ سے بی جے پی کے لوگ بے چینی بلکہ سبکی محسوس کر رہے ہیں ۔ جس کے باعث بی جے پی ملک کی تاریخ کو بدلنا چاہتی ہے ۔ یہ گندی ذہنیت کی علامت ہے ، اب تاریخ کو دوبارہ لکھنے سے سچ کیسے بدلے گا ۔ مسلمانوں کی تاریخی و ثقافتی وراثت کو مٹا کر ملک کی شاندار پہچان کو ختم کر دینے کی یہ مزموم کوشش ہے ۔ جن مسلمانوں نے گاؤں اور شہر کو اپنی دولت لٹا کر بسایا ان گاؤں اور شہروں کے نام تک متعصب اور فرپرستوں کوگوارا نہیں ہے ۔
حکومت اپنے سیاسی مفادات اور ایجنڈے کی کامیابی کے لئے سرکاری خزانہ کے اروبوں روپئے خرچ کر ملک کی تاریخ سے مسلمانوں کے نام کو صدیوں سے آباد شہروں ، تاریخی عمارتوں ، پرانے ریلوے اسٹیشنوں کے نام تبدیل کر ملک کے فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے ۔ انتہا تو یہ ہے کہ ملک کے مسلمانوں سے اتنی نفرت بڑھائی جا رہی ہے کہ ان کے کھانے پینے جینے مرنے پر بھی پہرے بٹھائے جا رہے ہیں ۔ ان کے مذہبی تشخص کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کی مساجد ، مدارس ، عید گاہیں، خانقاہیں اور قبرستانوں تک کو مختلف بہانوں سے ختم کرنے کے منصوبوں پر عمل ہورہا ہے ۔ مختلف بہانوں سے ملک کے مختلف حصوں میں برسا برس سے بسنے والے مسلمانوں کے مکانوں ، دکانوں کے ساتھ ساتھ مذہبی عبادتگاہوںکو بلڈوزر سے مسمار کیا جا رہا ہے ۔ وہ تو کہئے کہ ا س معاملے میں ابھی سپریم کورٹ نے سخت رویہ اپناتے ہوئے اسے غیر آئینی ، غیر قانونی اور غیر انسانی عمل پر قد غن لگانے کی کوشش کی ہے ورنہ بی جے پی کی حکومت تو مسلمانوں کی جان مال ان کے تشخص کو ختم کرنے کا منظم منصوبہ بنا ہی چکی ہے ۔ اپنی پارٹی بی جے پی کے لئے مسلمانوں کے ووٹ کی خواہش مند رہتی ہے ۔ لیکن پارلیمنٹ کے اندر اپنی پارٹی سے مسلمان کے وجود کو ہی ختم کر دیا ہے ۔ ملک کی مختلف شاہراہوں پر تو مسلمانوں کو گالیاں کھلے عام دی ہی جاتی ہیں اور اب بی جے پی کے لوگوں کی ہمّت اور حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر بھی ملک کے ایک مسلم ممبر پارلیمنٹ کنور دانش علی کو جس طرح گزشتہ 21 ؍ ستمبر 23 ء کو بی جے پی کے ممبر پارلیمنٹ رمیش بدھوری نے انھیں غدار ، آتنک وادی وغیرہ جیسے نازیبا ، ہتک آمیز اور غیر پاریمانی الفاظ کے ساتھ مخاطب کیا تھا اور بی جے پی کے دیگر ممبران پارلیمنٹ میں ہنستے مسکراتے رہے۔ اس سے ان کی ذہنیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ملک کی پارلیمانی تاریخ میں یہ ایسا زخم اورکلنک ہے کہ پارلیمانی پروسیڈنگ سے ان نازیبا الفاظ کو حذف کئے جانے کے باوجود ہمیشہ چبھتا رہے گا ۔ اس لئے کہ رمیش بدھوری نے ان الفاظ سے صرف کنور دانش علی کو ہی ذلیل و رسوا نہیں کیا بلکہ ملک کے کروڑوں مسلمانوں کے ساتھ غیر جمہوری ، غیر آئینی اور غیر انسانی حرکت کی گئی ہے ۔ گزشتہ چند برسوں میں ملک کے مسلمانوں کے ساتھ جس طرح کے متعصبانہ سلوک کئے جا رہے ہیں ، ان کے مذہبی تقدس کو پامال کیا جا رہا ہے ، ان کے مذہبی اکابرین بلکہ انتہا تو یہ ہے کہ ملک کے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لئے نبی کریم ؐ کے ذریعہ نپور شرما کے بعد ڈاسنہ مندر کاپجاری یتی نرسمہا جیسا شخص نازیباجملے استعمال کر رہا ہے ۔ جو کسی بھی حال میں کسی بھی مسلمان کے لئے قابل برداشت نہیں ہے ۔اس شخص کی یہ کوئی پہلی بار ہرزہ سرائی نہیں ہے بلکہ اس سے پہلے بھی منافرت اور تشدد کی بات کرتے ہوئے دھرم سنسد کے اجتماع میں مسلمانوں کے قتل عام کئے جانے جیسی اشتعال انگیز ی کر چکا ہے ۔ جس کے خلاف اترا کھنڈ حکومت کو سپریم کورٹ نے سخت پھٹکار لگاتے ہوئے اسے گرفتار کر جل بھیجنے کی تاکید کی تھی، وہ جیل تو گیا لیکن جلد ہی اسے ضمانت دے دی گئی اور وہ آزادانہ طور پر گھوم کر گستاخیٔ رسول نبیؐ کا مرکب ہو اہے ۔ اس اشتعال انگیز بیان کے خلاف پورے ملک میں غم وغصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے، جو فطری ہے ۔ مشہور تاریخ داں عرفان حبیب نے بھی اپنے احتجاج میں لکھا ہے کہ یتی نرسمہا نند مسلسل اور دانستہ طور پر زہر افشانی کر رہا ہے اور یہ صرف اس لئے ہو رہا ہے کہ ریاستی حکومت ایسے بد زبان کی حرکتوں کو نظر انداز کر رہی ہے ۔ ملک بھر سخت عوامی احتجاج اور مظاہرے کو دیکھتے ہوئے اس ملعون کو اب گرفتار کیا گیاہے۔ ہرزہ سرائی کرنے والا یہ شخص تنہا نہیں ہے۔ بلکہ آئے دن ملک کے مسلمانوں کے سلسلے میںطرح طرح کے منافرت بھرے اشتعال انگیز بیان دیتے رہنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ میسور کے سابق ممبر پارلیمنٹ پرتاپ سمہا نے بھی حال ہی مسلمانوں کو دھمکی دیتے ہوئے گنیش اتسو کے موقع پر کہا ہے کہ اگر ہم نے پتھر اٹھا لئے تو ایک بھی مسلمان نہیں بچے گا۔ اس نفرت انگیز بیان کے بعد مہاراشٹر کے احمد نگر میں سکل ہندو سماج کے جلسہ میں بی جے پی کے ایم ایل اے نتیش رانے نے مسلمانوں کودھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر رام گیر مہاراج کے بارے میں کچھ کہا گیا تو ہم مسلمانوں کی مساجد کے اندر گھس گھس کر ماریں گے۔ بہار سے تعلق رکھنے والا ایک مرکزی وزیر گری راج سنگھ بھی ملک کے مسلمانوں کی تضحیک کرنے اوران کے خلاف آگ اگلنے میں ماہر ہے ۔ ا س نے دھمکی بھرے انداز میں کہا تھا کہ مسلمانوں نے چونکہ بی جے پی کو ووٹ نہیں دیا ہے اس لئے ان کا کوئی کام نہیں ہوگا ۔ اسی کی ا یسی دھمکی سے متاثر ہو کر بہار سے کامیاب ہونے والے جے ڈی یو کے ایک ممبر پارلیمنٹ اپنے علاقوں کے مسلمانوں کے ایک و فد سے کہا تھا کہ مسلمانوں کا وہ اب کوئی کام نہیں کرے گا ۔ اس لئے مسلمانوں نے اسے ووٹ نہیں دیا ہے ۔ مسلمانوں پر جتنا ظلم کیا جائے ، انھیں قتل کیا جائے ، زنا کیا جائے۔ایسے ’کارناموں‘ کے انجام دینے والوں کو بی جے پی کی حکومت میں‘ انعام و اکرام کا مستحق قرار دیا جاتا ہے ،بلکہ ایسے لوگوں کو ایوان تک کا’ معزز‘ بنایا جاتا ہے۔ ملک کی تاریخ کی آنکھوں نے دیکھا ہے کہ مسلمانوں کے قاتلوںاور زانیوں کو جیل سے تمام تر قوانین کو در کنار کرتے ہوئے رہا کرایا جاتا ہے اور انھیں ’سنسکاری‘ کا اعزاز دے انھیں پھول مالا سے استقبال کیا جا تا ہے۔ ایسے میں ہر وہ شخص جو حکومت کی نگاہ میں اپنی اہمیت اور وقعت بڑھانا چاہتا ہے اور سرکاری مراعات کا خواہاں ہے وہ ایسے ’کارناموں کو‘ انجام دے کر خود کو سرخرو کرتا ہے اورخلعت سے فیضیاب ہوتا ہے۔ دراصل موجودہ حکومت کو لگتا ہے کہ اقتدار پر بنے رہنے اور اپنے ہندوتوا ایجنڈوں کو نافذ کرنے کے لئے ملک کے مسلمانوں پر تشدد اور نفرت کے اسلحہ سے ان کے وجود اور تشخص کو ختم کرنا ضروری ہے ،تاکہ ملک میں فرقہ واریت کی فضا بنی رہے اور ان کی حکمرانی قائم رہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ حکمراں ملک کی اکثریت کو یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو روکنا ضروری ہے اگر نہیں روکا گیا تو یہ مسلم اقلیت یہاں کی اکثریت پر حاوی ہو جائیں گے ۔ انتہا تو یہ ہے کہ اس ملک کا وزیر داخلہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے یہ کہنے میں ذرا بھی نہیں جھجھکتا اور شرمندگی محسوس کرتا ہے کہ گجرات میں 2002 ء میں فرقہ وارانہ فساد اور ہزاروں مسلمانوں کا قتل کرانے کے پیچھے دراصل یہاں کے مسلمانوں کو سبق سکھانا مقصد تھا۔ اس پورے تناظر میںدیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آئے گی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کو اس وقت ہر طرح سے سیاسی ، سماجی ، معاشی ، اقتصادی ، تعلیمی اور صنعتی طور پر کمزور ، بے دست و پا اور بے وقعت کئے جانے کی دانستہ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ رام مندر ، لو جہاد ، گھر واپسی ، گؤ مانس ، گؤ رکچھا ، وندے ماترم ، 370 کا خاتمہ ، طلاق ثلاثہ، مسلم پرسنل لا ٔ ، شہریت ترمیمی قانون ، یونیفارم سول کوڈ وغیرہ کے نام پر مسلسل یہاں کے مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا ٔ رکھا جا رہا ہے۔ ( جاری )
( مضمون نگار معروف ادیب اور سینئر صحافی ہیں )
٭٭٭٭٭٭٭

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا