سرسید کا نظریۂ تعلیم و اخلاق

0
41

پرو فیسر شکیل احمد قا سمی
9431860419

سر سید احمد خاں صدر امین کی حیثیت سے بجنو ر میں تھے ،9 مئی 1857کو میرٹھ کی فو ج نے انگریزوں کے خلا ف بغا وت کا پر چم بلند کیا ، ان کو خبر ملی کہ دلی میں سر کا ری فو ج کے سپا ہیوں نے ان کا گھر اور تما م سا مان لو ٹ لیا ہے اور ان کے ماموں وحید الدین خا ں اور ما موں زا د بھا ئی ہاشم علی خا ں ہلا ک کر دئے گئے ہیں ۔اس صورت حال نے عوام و خوا ص کو یکسا ں طور پر متاثر کیا اور اس کی شدت وسوزش کو ہر چھوٹے بڑ ے نے محسوس کیا ۔ اس وا قعہ نے مسلما نو ں کو خا ص طور پر تبا ہی وبر با دی اور ذلت و بے کسی کی انتہا ئی پستیوں میں اتا ر دیا ۔جن مسلمانوں کے سامنے سے 1857کازما نہ گز را ،جن کی آ نکھوں نے چمکتی ہوئی تلوا ریں ،تڑپتی ہو ئی لا شیں ،ظلم و ستم کی وا ر دا تیں اور تہذیب وشرا فت کا خون ہو تے ،اپنا سر ما یہ حیا ت لٹتے اور مٹتے دیکھا وہ بے حد رنجیدہ اور افسر دہ تھے ۔یہی وہ حا لا ت تھے جب سر سید نے ملت کے درمیان جدید تعلیم کے فروغ کو ضروری سمجھا۔اگر یہ وا قعہ نہ ہو تا تو شا ید وہ تعلیم پر تو جہ نہ کرتے اور ایک ادیب کی طرح کتا بیں تصنیف و تالیف کر تے ہو ئے سر کا ری ملا زمت میں اپنی خوشحال زندگی بسر کر تے رہتے ۔ سر سید احمد خا ں کی دور رس نگا ہیں ، حقیقت پسندا نہ مزا ج ، خلوص ، نیک نیتی اور قو می درد نے مل ملا کر ان کو ایسے آ ہنی عزم کی دولت بخشی جس کی مدد سے تنقید و تبصرے سے بے خوف اور پر عز م ہو کر انہوں نے اعلا ن کیا کہ 1857کی نا کا می کے بعداگر مسلما ن اس ملک کے با عزت اور باوقار شہری بن کر رہنا چا ہتے ہیں ، اپنی تہذیب و روا یا ت کو قا ئم رکھتے ہو ئے ترقی کی شا ہرا ہ پر اپنے ہم وطنو ں کے دوش بدوش چلنا چاہتے ہیں تو جلداز جلد انہیں جدید علوم کو اپنا نا چا ہئے ۔اور اس کے لئے نظا م تعلیم میں انقلا بی تبدیلیا ں لا نا ضروری ہے ،انگریزی لکھ پڑھ کر ملت کے افراد انگریزوں کے مقابلہ پر آ جا ئیں تب وہ اپنا کھو یا ہوا وقار اور آ برو دو با رہ حا صل کر کے اپنے لٹے ہوئے سرما ئے کی کچھ تلا فی کر نے کے قا بل ہو سکیں گے ۔
سر سید احمد خا ں نے ان بڑے مقا صد کے حصول کے لئے علی گڑ ھ میں مدرسۃ العلوم کی بنیا د24 مئی 1875عیسوی کو ڈا لی وہ ادا رہ اپنی فطری رفتا ر سے ترقی کر تا ہوا اسکول ،کا لج کے مر حلہ سے گزر کر 1920میں ’’علی گڑھ مسلم یو نیور سٹی‘‘کے نام سے مشہو ر و معروف ہوا ۔ اخلاص کی بنیاد پر قا ئم اس تعلیمی تحریک نے پو رے ملک میں اسکو لوں اور کالجوں کا ایک لا متنا ہی سلسلہ قا ئم کر دیا ۔حا لا ت کی سنگینی کا اندا ز ہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ 1882سے 1902کے درمیان پو رے ہندو ستا ن میں گریجوٹ کی تعداد 1184تھی اوراس میں مسلما ن گریجوٹ 220تھے۔(تعلیمی سروے تھیو ڈر ما ریسن )
سرسید کو اس بات کا خیال تھا کہ ا س وقت ہندوستان کے چھ کروڑمسلمانوںکی تعلیم کے لئے ایک کالج کافی نہیں ہے ۔بلکہ پورے ملک کے مختلف مقامات پر تعلیمی اداروں کے قیام کی ضرورت ہے ۔اس عظیم مقصد کی تکمیل کیلئے کالج قائم کرنے کے گیارہ سال بعد انھوں نے 1886میں ایک تعلیمی تحریک محمڈن ایجو کیشنل کانگریس کے نام سے قائم کی جو بعد میں’’مسلم ایجو کیشنل کانفرنس‘‘ کے نام سے مشہور اور سرگرم عمل ہوئی ۔اور ہر سال ملک کے کسی اہم مقام پر پابندی سے اسکے اجلاس ہونے لگے ۔ اس کثیر المقاصد تحریک نے 1947سے قبل پو رے ملک میں تعلیمی بیداری پیداکی اور مسلمانوں میں اداروں کے قیام کا رجحان پیداہونے لگا ۔ پورے ملک کی باکمال اور اہم شخصیتوں کا رشتہ مسلم ایجوکیشنل کانفرنس سے قائم رہا ۔بعد میں یہ تعلیمی تحریک بھی سرد مہری کی شکار ہونے لگی ۔اس آل انڈیا مسلم ایجو کیشنل کانفرنس کے جمودوتعطل کے شکار ہونے کا ذکر خود اس کانفرنس کے جنرل سکریٹری پروفیسر ریاض الرحمان خاں شروانی نے 1993 میں دلی میں منعقد 57 ویںسالانہ اجلاس کی روداد میں کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’ 1955 میں اس کانفرنس کا 56 واں سا لانہ اجلاس مدراس میں منعقد ہوا تھا جسکی صدارت ڈاکٹر ذاکر حسین نے فرما ئی تھی ، افسوس ہے کہ اسکے بعد 1993تک کانفرنس کا سالانہ اجلاس منعقد نہیں ہوا ،گو یا 38سال سے کانفرنس کا سالانہ اجلاس اور پندرہ سال سے مجلس عام کا جلسہ نہیں ہو سکاتھا‘‘۔ اس صورت حال پر افسوس کا اظہار کر تے ہوے جناب سید حامد نے 24 اکتوبر 1993کوغالب اکیڈمی نئی دہلی میں فرمایا ’’کانفرنس کا مقصد علی گڑھ تحریک کو ملک بھر میں پھیلانا تھا ،اسکے پیغام کو گھر گھر پہو نچانا تھا ،لیکن اس نے پسپائی اختیار کر لی ہے ‘‘ ۔ مذکو رہ صورت حال علم دولت حضرات بالخصوص مسلم یو نیور سٹی کے ابنائے قدیم کو اقدام کی دعوت دیتی ہے ۔

https://amu.ac.in/about-us/the-founder
سر سید احمد خا ں اپنے تعلیمی مشن کے سلسلے میں دو با ر پٹنہ تشریف لا ئے پہلی با ر26 مئی 1873کو اور دو سری با ر27 جنوری 1883کو دو نوں دفعہ ان کا قیا م قا ضی سید رضا حسین کے دولت کدہ محلہ لو دی کٹرہ پٹنہ سیٹی میں ہوا دو نو ں مو قعوں پر سر سید نے اپنے مؤثر خطا ب میں مسلمانوںکو ان کی ملی اور قو می ذمہ داریوں سے وا قف کرا یا اور انہیں عملی اقدا م کے لئے ابھا را ۔(خطبا ت سرسید احمد خاں صفحہ 73 تا 78) ان کے خطا ب کا غیر معمو لی اثر اہل عظیم آ با د پر ہو ا چنا نچہ یکم فر وری 1884کو قا ضی سید رضا حسین کے دولت کدہ محلہ لو دی کٹرہ پٹنہ سیٹی میں ایک میٹنگ ،صا حب را ئے مسلمانوں کی ہو ئی جس میں طے پا یا کہ علی گڑھ کی طرح ایک ’’محمڈن ایجو کیشن کمیٹی ‘‘قا ئم کی جا ئے جس کا صدر مقا م پٹنہ ہو چنا نچہ فروری 1884 کے پہلے ہی ہفتہ میں لفٹنینٹ گور نر بنگا ل کو اس کی منظو ری کے لئے در خوا ست بھیجی ، در خوا ست منظو ر ہو گئی ،بعدازاں ’’محمڈن ایجوکیشن کمیٹی ‘‘کے قوا عد و ضوا بط مرتب کر نے کے لئے سر سید احمد خا ں کے چھو ٹے صا حبزا دے ڈا کٹر سید محمو د (جو ان دنو ں الہ آبا د ہا ئی کو ر ٹ کے جج تھے ) سے گذ ا رش کی گئی انھوں نے ایک جا مع دستو ر تیا ر کر دیا ،اسی کمیٹی کے تحت ’’محمڈن اینگلو عر بک اسکو ل پٹنہ سیٹی ‘‘یکم مارچ 1884کو قا ئم ہو ا اور اسی کمیٹی کے تحت بہا ر کا مشہو ر و معروف اقلیتی تعلیمی ادا رہ ’’اور ینٹل کالج ‘‘پٹنہ سیٹی کا قیا م21 اپریل 1964 کو عمل میں آ یا ۔
سر کا ری اور غیر سر کا ری سطح پر جو سر وے رپو رٹ آ رہی ہیں وہ بتا تی ہیں کہ مسلما ن آ ج بھی سا رے شعبہ جا ت بہ شمول تعلیم میں دیگر طبقوں، حد یہ ہے کہ دلت سے بھی پسماندہ ہیں ۔ہما ری پسما ندگی کے تذ کرے عا م ہیں اور ہم ترقی کے اس دور میں حقا رت و ذلت کی نگا ہ سے دیکھے جا رہے ہیں ۔ خوا تین کی تعلیم و تر بیت بھی افسوس نا ک حد تک خرا ب ہے ملک و ملت کو ہما ری خد مت کی ضرو رت ہے ، موجودہ حالات ہمیں اقدا م کی دعوت دیتے ہیں ۔
سرسید اعلی تعلیم کے ساتھ تکمیل اخلاق چاہتے تھے ۔ ان کے خیال میں مہذب سماج کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ایک آئیڈیل سماج کی تشکیل کرے۔ سر سید کہتے ہیں : ’’ ہماری رائے میں اخلاقی تعلیم صرف کتابوں سے حاصل نہیں ہوتی ، بلکہ عمدہ سوسائٹی اس کی تعلیم دیتی ہے ۔ ‘‘ وہ اس طرح اظہار افسوس کرتے ہیں : ’’مجھ کو اس بات کا رنج ہے کہ میں اپنی قوم میں ہزاروں نیکیاں دیکھتا ہوں پر ناشائستہ ، ان میں نہایت دلیری اور جرأت پاتا ہوں پر خوفناک ، ان میں نہایت قوی استقلال دیکھتا ہوں پر بے ڈھنگا ، ان کو نہایت دانا اور عقلمند پاتا ہوں پر اکثر مکر و فریب اور زور سے ملے ہوئے ، ان میں صبر و قناعت بھی اعلی درجے کی ہے مگر غیرمفید اور بے موقعہ، پس میرا دل جلتا ہے اور میں خیال کرتاہوں کہ اگر یہی ان کی عمدہ صفتیں عمدہ تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو جاویں تو دین و دنیا دونوں کے لئے کیسی کچھ مفید ہوں۔ ‘‘
محسن قوم و ملت ’’سر سید احمد خاں ‘‘کے افکا ر و نظر یا ت اور ان کی عملی کا وشوں کو اپنے پیش نظر رکھ کر یہ غور کر نا چا ہئے کہ ہما ری کیا ذمہ دا ری ہے اور خا ص طور پر ان حا لات میں جبکہ پا نی سر سے اونچا ہو گیا ہو اور ہم ملی سطح پر ’’بے آ برو ‘‘ ہو تے جا رہے ہوں تو ہمیں حد در جہ حسا س ہو نا چا ہئے ۔ نامسا عد حا لا ت میں کا م کر نے وا لوں نے اپنی ذمہ دا ریا ں ادا کی ہیں ۔انہیں بہت دشوا ریوں کا سا منا کرنا پڑا ہے لیکن اپنے بلند مقا صد سے انحراف کر نے کو انہو ں نے جرم سمجھا اور منزل مقصود تک پہونچے ۔
سا رے تعلیمی اداروں کے ابنائے قدیم کی خد مت میں رفیق کا ر کی حیثیت سے یہ عر ـض کرنے کی ضرو رت محسوس کر تا ہو ں کہ ما در علمی کے بڑے احسا نات ہو ا کر تے ہیں، اس کا تقا ضا ہے کہ ملت کی پسما ند گی دو ر کرنے کے لئے ابنا ئے قدیم آگے آ ئیں اور مثبت فکر کے سا تھ ’’تعمیر ملت ‘‘کی کو شش کریں ، تعلیم کے معیار اور اخلاق کی بلندی پر توجہ دیں۔ بلا شبہ ہما رے بہت سا رے ابنا ئے قدیم ملت کے عظیم مقا صد کی تکمیل میں مصروف ہیں وہ تعلیمی ادار وں کی سر پرستی اور اس میں خد مت انجام دے رہے ہیں، ہمیں ان کو تقویت پہو نچا نا ہے اور چراغ سے چرا غ روشن کر تے جا نا ہے۔آ پ کے اند رجو صلا حیت ہے ، فکری بلند ی اور ’’ ویژن ‘‘کی جو دولت ہے اس سے آ پ بڑا کا م لے سکتے ہیں ۔
جلا نے وا لے جلا تے ہی ہیں چرا غ آ خر
یہ کیا کہا کہ ہو ا تیز ہے زمانے کی

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا