غوث اعظم کا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے!

0
66

 

 

محمد رضا نوری

(ناسک سٹی)

حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دنیا میں جلوہ گری سے دو سو سال قبل کا واقعہ ہے کہ اپنے زمانے کے بڑے مشہور و معروف جلیل القدر بزرگ حضرت جنید بغدادی رحمللہ تعالیٰ علیہ ایک دن اپنی خانقاہ عالیہ کے اندر مراقبہ میں مشغول تھے کہ اچانک مراقبہ سے سر اٹھا کر فرمانے لگے۔مجھے عالم غیب سے اطلاع ملی ہے کہ پانچویں صدی میں’’جیلان‘‘ کے اندر سیدالمرسلین،خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد اطہار میں سے’’غوث اعظم‘‘ پیدا ہوں گے ان کا نام عبدالقادر اور لقب ’’محی الدین‘‘ ہوگا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے ائمہ کرام اور اصحاب کرام کے علاوہ انہیں اولین و آخرین زمانے کے ’’ہر ولی کی گردن پر میرا قدم ہے‘‘ کہنے کا حق ہوگا۔ (تفریح الخاطر، صفحہ 26 تا 27)

https://islamicimages.in/baghdad-sharif-photos-pngs-download-free-pngs/

اپنے دور کے شیخ کامل حضرت عزار بطایحی رحم اللہ تعالیٰ علیہ نے 478ھ میں یہ پیشن گوئی فرمائی کہ ایک نوجوان سید عبدالقادر ظاہر ہوگا اس کی ہیبت سے مقامات ولایت ظاہر ہوں گے اور اس کی جلالت سے کشف و کرامت رونما ہوں گے وہ حال پر چھا جائیں گے اور محبتِ خداوندی کی بلندیوں پر پہنچ جائیں گے تمام عالم امکان ان کے حوالے کر دیا جائے گا،تمام اسرارِ عالم ان پر ظاہر ہوں گے رب تعالیٰ کے حضور ان کی شان اس قدر بلند ہوگی کہ کسی دسرے ولی اللہ کو نصیب نہ ہوگی۔(بہج الاسرار)
ولادت با سعادت:
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ولادت باسعادت یکم رمضان المبارک 471ھ بمطابق 1078ء کو ایران کے قصبہ گیلان (جیلان) میں ہوئی آپ کی ولادت کی رات آپ کے والد ماجد حضرت ابو صالح کو خواب میں سرکار مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت با سعادت حاصل ہوئی آپ نے دیکھا کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام اور اولیائے عظام کے ساتھ تشریف لائے ہیں پورا مکان غیبی انوار سے روشن و منور ہو گیا حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوش ہو کر ارشاد فرمایا، ’’اے ابو صالح مبارک ہو! آج اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے تجھے وہ فرزند عطا ہوا ہے جو شیخ اعظم اور قطب زماں ہوگا وہ اللہ عزوجل کا محبوب اور میرا لختِ جگر ہے۔‘‘پھر حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت شریفہ ہوگئی،آپ مادر زاد ولی تھے ولادت کے وقت ہونٹ آہستہ آہستہ حرکت کر رہے تھے اور اللہ اللہ کی آواز آ رہی تھی،پیدا ہوتے ہی آپ نے روزہ رکھ لیا اور پورا ماہ یہی معمول رہا ولادت کے بعد آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو دودھ پلانا چاہا تو آپ نے بالکل دودھ نہ پیا حتٰی کہ سارا دن گزر گیا آخرکار مغرب کی اذان ہوئی تو افطار کے وقت آپ نے بھی دودھ پیا چنانچہ ساری بستی میں مشہور ہوگیا کہ سادات کے گھر میں ایک ایسا بچہ پیدا ہوا ہے جو رمضان شریف میں سارا دن دودھ نہیں پیتا یہاں تک کہ پورا مہینہ یہی معمول رہا۔(طبقات الکبرٰی جلد1 صفحہ 126)
اور پھر اخیر رمضان میں بستی کے مسلمانوں کے اندر عید کے چاند کے متعلق جب اختلافات پیدا ہوئے تو لوگوں نے کہا کہ سیدنا ابو صالح کے گھر سے معلوم کرو اگر ان کے شیرخوار بچے نے دودھ نہیں پیا تو روزہ ہے اور اگر دودھ پیا ہے تو عید ہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت شریفہ فضلِ خداوندی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے جبکہ آپ کی والدہ ماجدہ کا سنِ مبارک ساٹھ برس ہوچکا تھا اور نعمتِ اولادی توقع باقی نہ رہی تھی تو سیدنا حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
نام و نسب:آپ کا نام نامی عبدالقادر، کنیت ابو محمد اور لقب محی الدین ہوا۔ایران کے شہر قصبہ جیلان میں پیدائش کی نسبت کی وجہ سے جیلانی کہلائے گئے اور اپنے مقام ولایت کی بلندی کے باعث غوث الاعظم قرار دئے گئے۔آپ والدہ کی طرف سے حسینی اور والد کی طرف سے حسنی سید ہیں۔
صاحب بہجتہ الاسرار اور مولانا جامی رحم اللہ تعالیٰ علیہ نے نفحات الانس میں آپ کا نسب نامہ یوں بیان کیا ہے۔
شیخ عبدالقادر بن ابو صالح بن موسٰی بن عبداللہ بن یحیٰی زاہد بن محمد بن داؤد بن موسٰی الجون بن عبداللہ المحض بن حسن مثنٰی بن سیدنا حضرت امام حسن بن حضرت علی بن ابی طالب۔اس طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی گیارہویں نسل تھے۔
بچپن اور لڑکپن کے واقعات:
حضور غوث اعظم دستگیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کا پورا خاندان کیوں کہ نور نبوت سے منور تھا لہٰذا آپ کا بچپن بھی اس فخر و شرف کی منہ بولتی تصویر تھا۔آپ جب کبھی بچپن میں کوئی کھیل کھیلنے کا ارادہ فرماتے تو غیب سے آواز آتی۔ ’’الی یا مبارک۔‘‘ (یعنی اے برکت والے میری طرف آ)۔ (قلائد الجواہر صفحہ9)
جب آپ مدرسہ میں تشریف لے جاتے تو آواز آتی ’’اللہ عزوجل کے ولی کو جگہ دے دو۔‘‘
یہی وجہ تھی کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیگر لڑکوں کے ساتھ کبھی کسی فضول کھیل میں شامل نہ ہوئے۔ پانچ برس کی عمر میں جب پہلی بار بسم اللہ پڑھنے کی رسم کے لئے کسی بزرگ کے پاس پہنچے تو اعوذ اور بسم اللہ پڑھ کر سورفاتحہ اور الم سے لیکر 18 پارے پڑھ کر سنا دئے اس بزرگ نے کہا بیٹے اور پڑھئے تو فرمایا بس مجھے اتنا ہی یاد ہے کیوں کہ میری ماں کو بھی اتنا ہی یاد تھا جب میں اپنی ماں کے پیٹ میں تھا اس وقت وہ پڑھا کرتی تھیں میں نے سن کر یاد کر لیا تھا۔ (کتب کثیرہ)
ایک روز آپ گھر سے باہر نکلے تو گلی میں بچوں نے آپ کو اپنے ساتھ کھیلنے کے لئے مجبور کیا جس پر آپ رضامند ہوگئے اور فرمایا اچھا میں کہوں گا لا الہ اور تم سب کہو گے الااللہ چنانچہ آپ کے اس انوکھے اور نرالے کھیل سے گلی کوچے کلمہ طیبہ کے ورد سے گونج اٹھے۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مکتب پڑھنے کے لئے تشریف لے جاتے تو آپ کے ہمراہ فرشتے چلتے اور کہتے اس ولی اللہ کو بیٹھنے کی جگہ دو۔ (بہجۃ الاسرار، صفحہ21۔ قلائد الجواہر صفحہ9)
حصولِ علم:
یہ حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی علمی لگن اور جستجو ہی تھی کہ علم کی پیاس بجھانے کے لئے آپ نے جیلان سے چارسو میل کا طویل و کٹھن سفر طے کیا اور یوں 488ھ بمطابق 1095ء میں بغداد پہنچے اور اس زمانے کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی کا درجہ رکھنے والے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہوگئے اور وہاں کے بڑے بڑے قابل ترین اساتذہ سے حدیث و تفسیر اور جملہ علوم دینیہ کے حصول میں مشغول ہوگئے۔چند مہینوں کے بعد آپ کے پاس موجود چالیس دینار ختم ہوگئے اور نوبت فاقہ کشی تک آپہنچی آپ فاقوں پر فاقے کرتے رہے لیکن صبر کا دامن تھامے علم کے حصول میں لگے رہے۔خیرات نہ مانگنے کی عادت نے آپ کو ہمیشہ سوال کرنے سے روکے رکھا اور آپ دوسروں کو بھی سوال کرنے سے منع فرماتے رہے الغرض آپ آٹھ سالہ تعلیمی دور میں تنگدستی و فاقہ کشی کی سخت سے سخت صعوبتوں کو ہمت و حوصلے کے ساتھ برداشت کرتے رہے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود بیان فرماتے ہیں کہ ’’طالب علمی کے دور میں ایسی ہولناک سختیاں میں نے جھیلیں کہ اگر وہ پہاڑ پر پڑتیں تو وہ بھی پھٹ جاتا جب ہر طرف سے مجھ پر مصیبتیں ٹوٹنے لگتیں تو میں زمین پر لیٹ جاتا اور پڑھنے لگتا ’’فان مع العسر یسرا ان مع العسر یسرا۔‘‘
‘‘بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے بیشک تنگی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘(طبقات الکبرٰی جلد1 صفحہ 126)
یوں فاقہ زدگی کی ان مشکلات کے ساتھ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ علم دین حاصل کرتے رہے اسی دوران ایک اور مْصیبت یہ ہوگئی کہ ملک میں قحط پڑگیا اور قحط اس قدر شدید تھا کہ لوگ درختوں کے پتے تک کھا گئے آپ سبزے کی تلاش میں دریائے دجلہ کے کنارے کنارے جاتے مگر وہاں پہلے ہی لوگوں کا ہجوم ہوتا چنانچہ آپ صبر کر کے واپس آ جاتے کیوں کہ لوگوں سے چھیننا آپ کو پسند نہ تھا اس خوفناک قحط کی اطلاع جب آپ کی والدہ نے سنی تو آپ بے چین ہو گئیں اور اپنے لخت جگر کی مدد کرنے کے لئے بے قرار ہو گئیں۔
حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاقوں پر فاقے کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ زرد اور جسم لاغر ہوگیا۔ایک دفعہ آپ نڈھال ہو کر مسجد میں پڑے ہوئے تھے اتنے میں ایک نوجوان کہیں سے بھنا گوشت اور روٹی لیکر مسجد میں داخل ہوا اور ایک طرف بیٹھ کر کھانے لگا آپ کی حالت زار دیکھ کر آپ کو کھانے میں شریک ہونے کے لئے بضد ہوگیا چنانچہ اس کی ضد پر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھانے میں شریک ہوگئے کھانے کے بعد باتوں کے دوران جب اْس شخص کو معلوم ہوا کہ آپ جیلان کے رہنے والے ہیں تو وہ شخص بولا،’’میں بھی جیلان کا رہنے والا ہوں اور طالب علم عبدالقادر کی تلاش میں ہوں۔‘‘ اور جب اْسے معلوم ہوا کہ آپ ہی عبدالقادر جیلانی ہیں تو بے قرار ہو کر رونے لگا اور گڑگڑا کر کہنے لگا کہ ’’مجھے معاف کر دیجئے کہ میں نے آپ کی امانت میں خیانت کی ہے دراصل آپ کی والدہ نے میرے ہاتھ آپ کو آٹھ دینار بھیجے تھے میں نے آپ کو بہت تلاش کیا مگر آپ مجھے نہیں ملے اس دوران میری جمع پونجی بھی ختم ہوگئی آخر فاقے سے مجبور ہو کر میں نے آپ کی امانت سے یہ کھانا خریدا جو آپ نے اور میں نے کھایا اس طرح آپ نے تو اپنا ہی کھایا مگر میں آپ کا مہمان بنا آپ میرا یہ قصور معاف فرما دیجئے۔(طبقات الکبرٰی جلد1 صفحہ129، قلائد الجواہر صفحہ1009)
غرض یہ کہ حصولِ علم کے دوران فاقہ کشی کی صعوبتوں کو خوش اسلوبی سے برداشت کرتے رہے اور اس طرح آپ کا آٹھ سالہ تعلیمی دور جو اپنے دامن میں بیشمار تکالیف اور مصائب لئے ہوئے تھا اختتام پذیر ہوا اور پھر وہ مبارک ساعت آہی گئی جب آپ کے سر اقدس پر دستارِ فضیلت سجائی گئی اور آپ علوم دینیہ میں کامل ہوگئے۔
سالک السالکین میں ہے کہ جب عبد القادر جیلانی کو مرتب غوثیت و مقام محبوبیت سے نوازا گیا تو ایک دن جمعہ کی نماز میں خطبہ دیتے وقت اچانک آپ پر استغراقی کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وقت زبانِ فیض سے یہ کلمات جاری ہوئے؛قدمی ھذا علی رقب کل ولی اللہ: کہ میرا قدم تمام اولیائاللہ کے گردن پر ہے۔معاً منادء غیب نے تمام عالم میں ندا کردی کہ جمیع اولیاء للہ اطاعتِ غوثِ پاک کریں۔یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ جو زندہ تھے یا پردہ کر چکے تھے سب نے گردنیں جھکا دیں۔(تلخیض بہجت الاسرار)

https://lazawal.com/?cat=20

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا