مسلم سیاست دانوں کا قتل ،حکومت اور ہم

0
33

 

زین العابدین ندوی

مقیم حال : لکھنو
بھارت میں مسلمانوں کو نشانہ بنا کر ان کے وجود کو ختم کرنے کی سازش آج کی کوئی نئی بات نہیں ، اسلام دشمنی کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے اس کی بنیادی وجوہات میں سے یہ ہے کہ اسلام اس نظام زندگی کا داعی ہے جس سے دیومالائی نظام کا خاتمہ یقینی ہے اور یہ باطل طاقتوںکو کسی صورت برداشت نہیں ، برہمنی تہذیب جس کی بنیاد ہی اونچ نیچ اور طبقاتی نظام پر رکھی گئی ہے اسے یہ کسی پل گواراہ نہیں کہ اس کا خاتمہ کر کے عدل و انصاف پر مبنی کوئی نظام زندگی عمل میں آئے ،

https://www.aljazeera.com/news/2024/5/18/has-indias-muslim-population-really-exploded

اس کو سمجھنے کے لئے بودھ مذہب کو دیکھا جا سکتا ہے جس کا وجود یہیں ہوا لیکن آج برہمنیت کی مخالفت کے سبب اپنے ہی گھر میں پرایا ہو گیا ، ملک کی فرقہ پرست طاقتیں جو خود کو سناتنی باور کراتے ہیں جب کہ سچائی یہ ہے کسی مذہب کے پیروکار نہیں ، فرقہ پرستی اور ناحق ظلم و زیادتی ہی ان کا مذہب ہے وہ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح دیگر تہذیبوں کو کالعدم کر دیا گیا اور ان کا وجود مٹا دیا گیا اسلام اور اس کے ماننے والوں کے ساتھ بھی ایسا کیا جائے ، یہی وجہ ہے کہ نفرت کے بیوپاری اپنے اس بیوپار کو بڑھاوا دینے کے لئے تمام حدود کو پار کرتے نظر آرہے ہیں ۔
یوں تو آزادی کے پہلے سے ہی مسلمانوں کے ساتھ برتا جا رہا رویہ بہت اچھا نہیں رہا ہے ، اقتدار میں کوئی رہا ہے اور جب بھی رہا ہو ہر ایک کا تختہ مشق مسلمان ہی رہا ،حالات پر غیر جانبدارانہ نظر رکھنے والوں سے یہ بات مخفی نہیں ہے ، لیکن پچھلے پانچ دس برسوں سے جو واقعات وحادثات دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں ، خاص طور پر یک بعد دیگرے حکومت کی نگرانی میں پولیس محکموں کی نظروں کے سامنے مسلم سیاسی لیڈروں کو جس طرح نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے وہ بہت تشویشناک ہے ، شہاب الدین کی مشتبہ موت اور پھر عتیق براداران کا اعلانیہ سرکاری قتل ،مختار انصاری اور پھر بابا صدیقی کا قتل یہ کوئی معمولی واردات نہیں جس پر خاموش رہا جائے ،بلکہ یہ مسلم لیڈرشپ کو منصوبہ بند طریقہ سے ختم کرنے کی ناپاک کوشش ہے جس کے خلاف آواز اٹھانا ملت اسلامیہ ہندیہ کی اولین ذمہ داری ہے ، یاد رکھئے یہ کسی ایک مخصوص شخص کا قتل نہیں بلکہ عمومی طور پر مسلمانوں کی آواز کا قتل ہے جس کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہاہے ۔
غور کیجئے ایک طرف اعلانیہ قتل ہوتا ہے اور حکومت جس کا کام یہ ہے کہ وہ قاتلوں کو گرفت میں لے کر ان کے خلاف سخت کاروائی کرے اور ایسی عبرتنا ک سزا دے کہ کوئی اس طرح کی حرکتوں کی جرات نہ کر سکے ، وہ خود ان کی پشت پناہی میں لگی ہوئی ہے چوں کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ منصوبہ بند قتل ہے جس میں وہ خود برابر کی شریک ہے ، ذرا سوچئے بابا صدیقی کا قتل ہوتا ہے ایک گروپ قتل کی ذمہ داری لیتا ہے اور گرفتار کیا ہوا شخص بتاتا ہے کہ پچاس ہزار روپئے کی سوپاری پر اس نے یہ واردات انجام دی ہے ،پچاس ہزار میں تو اسلحے نہیں ملتے صاحب ، جھوٹ کی بھی ایک انتہاء ہوتی ہے اس سے قبل عتیق برادارن کا معاملہ بہت پرانا نہیں ہوا جنہیں پولیس کسٹڈی میں قتل کیا گیا کہاں ہیں ان کے قاتل ؟ مختار انصاری کا قتل کہاں ہیں ان کے قاتل ؟جن کا کام یہ تھا کہ مجرموں کو نشانہ عبرت بناتے وہ خود قاتلوں مجرموں کے ہمدرد اور پشت پناہ بنے بیٹھے ہیں ، اس لئے کسی حکومت سے یہ امید مت رکھئے کہ وہ انصاف سے کام لے گی، جرم کے سودا گروں سے انصاف کی امید حماقت کے سوا کچھ نہیں، ایسے میں ہمیںاپنی طاقت کو مضبوط کرنے کی فکر لامحالہ کرنی ہوگی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔
قوم مسلم جس کا کام تھا کہ وہ کائنات کا احتساب کرے وہ اپنی ذات تک سے غافل ہے ، موت کو گلے لگانا جس کے لئے ایک قیمتی تحفہ ہوا کرتا تھا وہ کھانے پکانے میں اس طرح مست ہے جس کی نظیر مشکل ہے ،اپنے آپ کوقرآن کی علمبردار کہنے والی امت خود غرضی کی دلدل میں اس قدر پھنس چکی ہے کہ قوم کا مفاد اسے بالکل بھی نظر نہیں آتا ، سیاسی اور سماجی شعور اس قدر مفقود ہے جس کو الفاظ کے سہارے نہ بیان کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی سمجھا جا سکتا ہے ،اور یہ سچائی جس قوم سے سیاسی سماجی اور دینی شعور رخصت ہوتا ہے اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی ، ملک میں مسلمانوں کے ساتھ اپنایا جا رہا رویہ ہمیں جگانے کے لئے کافی ہے اگر ہم بیدار ہونا چاہیں ، اورجو خود کو بدلنا نہ چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے بدل نہیں سکتی ، کوئی ایسا شعبہ زندگی نہیں جہاں مسلم قوم کو توڑنے کی کوشش زوروں پر نہ ہو ، معاشی ہو یا سماجی سیاسی ہو یا دینی کوئی ایسا شعبہ حیات نہیں جہاں انہیں تختہ مشق نہ بنایا جا رہا ہو، ایسے میںمسلمانوں کواپنی نسبت ایمان کو سمجھنا ہوگا اپنی حیثیت کو پہچاننا ہوگا ، جس شناخت کو مٹانے پر دشمن تلے ہوئے ہیں اس کو برقرار رکھ کر اپنی طاقت کو مضبوط کرنا ہوگا ،یاد رکھئے کوئی بھی سیاسی جماعت آپ کی خیر خواہ نہیں آپ کو خود اپنا خیر خواہ بننا ہوگا اور اپنی طاقت کو مضبوط کرنا ہوگا اس کا واحد راستہ صرف یہ ہے کہ ہم ذاتی مفاد کی دلدل سے نکل کر ملت کے حق میں سوچنا اور کرنا شروع کریں ۔۔۔اس مرض کے رہتے ہوئے گھن سے چھٹکارے کی امید بے سود ہے ۔۔

https://lazawal.com/?cat=20

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا