امین سیانی-اپنا پن کی وہ آواز یاد آتی رہے گی

0
322

 

 

 

 

 

محمد اعظم شاہد
آدمی مسافر ہے، آتا ہے جاتا ہے،آتے جاتے رستے میں یادیں چھوڑ جاتا ہے – مشہور براڈکاسٹرمنفرد آواز کے جادوگر امین سیانی اب ہمارے درمیان نہیں رہے -مگر ان کی یادیں اوران کی سحر انگیز آواز برسوں ہمیں ان کی یاد دلاتی رہے گی- دنیا کے کسی بھی کونے میں ان کے مداح جب کبھی بھی ان کی اپنائیت سے بھرپور آواز سنیں گے – ان سے جڑی یادیں، ان کی شخصیت، آواز کا وہ کھنکتا ہوا بانکپن یاد آجائے گا- سننے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے فن میں ماہر امین صاحب آواز کے گراف یعنی الفاظ کی ادائیگی میں نشیب وفراز سے بخوبی واقف تھے – بہنو اوربھائیو، ہر پروگرام کے آغاز میں ان کا یہ انوکھا اندازِ تخاطب ان کا Signature اسٹائل بن گیا – نہ جانے کتنے لوگ جو ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اشتہاری جنگلس اورفلموں کیلئے اپنی آواز دیتے ہیں وہ سب امین سیانی کی تقلید کرتے رہے – کہناچاہئے کہ نہ صرف ہندوستان بلکہ جہاں بھی اردو، ہندی بولنے سننے والے بستے ہیں وہاں امین سیانی اوران کی آواز ایک خاص پہچان بن گئی تھی – نام گم جائے گا ?چہرہ یہ بدل جائے گا?میری آواز ہی پہچان ہے گر یاد رہے -جی ہاں امین سیانی کا نام ہی نہیں ان کا مسکراتا چہرہ اور دلوں پر دستک دینے والی ان کی سحر انگیز آواز بھی برسوں یاد رہے گی- ترسیل کے معاملے میں ان کی آواز کا کامیابی کی ضمانت سمجھاجاتا رہا- آپ نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کیلئے کئی واٹس آرٹسٹ یوں کہنا چاہئے کہ آواز کی دنیا کیلئے میزبانوں (Radio & TV Hosts) کا ایک کارواں تشکیل دے دیا- آواز کے میڈیم سے آپ نے اپنی لائق تحسین اورباعث تقلید کارکردگی کے کئی نقشِ میل (ریکارڈز) قائم کئے- اور آج اس میدان کے سبھی آرٹسٹ آپ کو اپنا ماڈل،آئیڈیل مانتے ہیں- اور سینکڑوں سننے والوں کی پسندیدہ آواز بنے رہے امین صاحب سنہری آوازکے لیجینڈکے طورپر ایک دلکش تاریخ رقم کرنے میں کامیاب گذرے ہیں-
مجھ جیسے ان کے لاکھوں قدردانوں کو ان کی آواز مسحور کیا کرتی رہی -آخرکار سال1995 میں ان سے ملاقات کی وہ گھڑی آہی گئی- وہ آواز جس کو میرے ابا کے ساتھ ریڈیو سیلون پر بچپن میں سناکرتا تھا-اوراسی دلکش آواز میں ’’بناکاگیت مالا‘‘ کی جھلکیاں دوستوں کی فرمائش پر سنایا کرتا تھا- جس آواز کے کئی انوکھے انداز اوراشتہارات مجھے یاد تھے- اب اسی آواز کے جادوگر کے ساتھ میں روبرو تھا-اسی شام بنگلور کے شیواجی نگر رُسل مارکیٹ کے روبرو جناب روشن بیگ کیریچ فاؤنڈیشن کے موبائل اسپتال کے افتتاح کی تقریب میں دلیپ کمار اورسائرہ بانو شریک تھیں- میں نے نظامت کے فرائض نبھائے تھے – رات میں شہر کے ویسٹ اینڈ ہوٹل کے سبزہ زار پر ڈنر کیلئے امین صاحب کے ساتھ روشن بیگ، جناب عزیز ا? بیگ آئی اے ایس اور میں شریک تھا- دوران گفتگو امین صاحب نے پوچھا پروگرام کس نے کنڈکٹ کیا -بیگ صاحبان نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ میں امین صاحب کی آواز سے بے حد متاثر ہوں- ارے بھئی ہم بھی تو ذرا سنیں آپ کیسے بولتے ہیں؟ امین صاحب نے اپنی نقرئی آواز میں میری طرف دیکھتے پوچھ لیا- میں خود کو نروس محسوس کرتے ہوئے سمٹاہوا محسوس کررہاتھا- پھر خود کو سمیٹتے ہوئے میں نے امین صاحب کی آواز میں میرے پسندیدہ ads کو دہرایا- کندھا تھپتھپاتے ہوئے وہ کہنے لگے اگر بمبئی میں یہ ہوتے تو ہمارے ساتھ کام بھی کرلیا کرتے اورنکھر بھی جاتے -دوسرے دن صبح میری فیملی سیانہیں ملوانے میں ہوٹل گیا -بڑے تپاک اورمحبتوں سے ملے -تصاویر کھینچوائیں- پھر دوپہر میں دلیپ صاحب کے ساتھ اس شام ہوٹل اشوک میں منعقد ہونے والے دلیپ سائرہ جی کے ساتھ امدادی پروگرام کی ترتیب وپیشکش پر ڈسکشن میں ساتھ رہا-اورشام کو اسٹیج پر امین صاحب کا تعارف میں نے کروایا -حالانکہ اس کی قطعی ضرورت نہیں تھی-مگر اپنی دیرینہ آرزو کی تکمیل کیلئے میں نے پروگرام میں یہ شامل کروالیا تھا-تعارف کرواتے میں نے اس آواز کے جادوگر کیلئے گلزار صاحب کا وہ یادگار جملہ دہرایا کہ یہ آواز Eskimosایسکیموز(برفیلی پہاڑوں کے درمیان رہنے والے) بھی ریفریجریٹر خریدنے پرمجبور کردے گی- پروگرام کے دوران پہلی بار میں دم بخود سامنے بیٹھے دیکھتا رہا سنتا رہا کہ امین صاحب کس نفاست اور سلیقے سے بولتے ہیں اورپورا سامعین کا مجمع ان کی آواز کے سحر میں ان کے ساتھ ہولیتا ہے –
کروگے یاد تو ہر بات یاد آئے گی
گذرتے وقت کی ہر موج ٹھہر جائے گی
آج جب میں امین صاحب سے جڑی بے شمار یادوں کے چراغ روشن کررہاہوں تو ان کی آواز کانوں میں رس گھولتی ہوئی محسوس ہورہی ہے -وہ اپنے آپ میں قدرت کی صناعی کا ایک کرشمہ Phenomenon تھے- ہر بار یہی محسوس ہوا کہ وہ اپنے سننے والوں اور دیکھنے والوں کے درمیان کوئی فاصلہ ہی نہیں رکھتے تھے -گویا وہ راست ان کے سامنے اپنی پوری سادگی اور خلوص کے ساتھ ان سے ہمکلام ہیں-ان کی یہی خوبی انہیں اپنے ہم عصروں میں ممتاز رکھتی ہے -ایک انگریزی ویکلی میگزین Onlooker ’’آن لوکر‘‘نے امین صاحب کی آواز کی دنیا میں خدمات پر سرورق پر ان کی مسکراتی تصویر کے ساتھ کوراسٹوری کی تھی -عنوان تھا کیوں اس آواز کو کروڑوں لوگ سنتے ہیں – فلم فیئر ایوارڈز پر ایک فیچر فلم ’’سنہری یادیں‘‘ بنی تھی – پورے تین گھنٹوں پر مشتمل اس فلم کے ٹائٹلس میں Words & Voice کے کریڈٹس میں امین سیانی کا نام دیا گیا تھا- مجھے یقین ہے کہ امین سیانی کی آواز اوران کی براڈ کاسٹنگ پیش کش سے دلچسپی رکھنے والوں نے یہ فلم ضرور دیکھی ہوگی-امین صاحب کی رحلت کے بعد ان پر بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے – ان کے چاہنے والوں نے جس طرح ان کی آواز سے ان کی وابستگی کی یادوں کو دہرایا ہے وہ قابل ستائش ہے – وہ اس ملک کی آواز Voice of Nation تھے -ہرکسی کی زندگی کا حصہ رہے امین صاحب سبھی کے پاس ان کے تعلق سے اپنی یادیں جڑی ہیں۔آواز کی دنیا میں ’’بہنو اوربھائیو‘‘ آپ کے دوست امین سیانی کو اب دیجئے اجازت‘‘یہ مشفق آواز یوں محسوس ہورہا ہے کہ چاروں سمت پھیلی ہوئی انہیں پھرسے سننے کا اشتیاق دلاتی رہے گی-
[email protected] cell: 9986831777

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا