اب مہاجر مزدور راشن کی فکر سے آزاد ہیں

0
13

شیطان ریگر
ادے پور، راجستھان

ملک میں روزگار ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر دیہی علاقوں میں نظر آرہا ہے۔ دیہاتوں میں رہنے والی ایک بڑی آبادی روزگار کی تلاش میں دوسری ریاستوں میں ہجرت کرتی ہے۔ ایسے میں دیگر بنیادی سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ ان کے سامنے سب سے بڑا چیلنج عوامی تقسیم کے نظام کے ذریعے فراہم کیا جانے والا راشن ہے۔ یہ کارکن اکثر اس کے فوائد سے محروم رہتے ہیں۔ چونکہ راشن کارڈ گاؤں میں بن ہوتاتھا، اس لیے نقل مکانی کی وجہ سے وہ اس کے ذریعے دیگر جگہوں پر دستیاب سستے راشن کا فائدہ نہیں اٹھا پا رہے تھے۔ لیکن مرکزی حکومت کی ’ون نیشن،ون راشن کارڈ‘ اسکیم نے ان مہاجر مزدوروں کا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ اب یہ مزدور اپنے راشن کارڈ کے ذریعے سستا اناج خرید کر اپنے قیام کی جگہ پر اپنے اہل خانہ کا پیٹ پالنے کے قابل ہو گئے ہیں۔اس اسکیم کے نفاذ کے لیے ملک بھر میں ایک مرکزی ڈیٹا بیس تیار کیا گیا ہے، جس میں ہر اہل شخص کا ڈیٹا محفوظ ہے۔

http://www.charkha.org/

یہ اسکیم ’ڈیجیٹل انڈیا‘ کی جانب بھی ایک اہم قدم ہے کیونکہ اس سے راشن کی تقسیم میں شفافیت اور جوابدہی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ذریعے کارکنان جہاں بھی ہجرت کرتے ہیں اب اپنے حصے کا راشن حاصل کر رہے ہیں۔ راجستھان کے بھیلواڑہ ضلع میں اینٹوں کے بھٹے پرکام کرنے والے لوکیش رویداس کا کہنا ہے کہ ”میں اتر پردیش کے چترکوٹ کا رہنے والا ہوں اور گزشتہ 20 سالوں سے اپنے خاندان کے ساتھ کام کی تلاش میں راجستھان سمیت دیگر ریاستوں میں جا رہا ہوں۔ جہاں مقامی پہلے دکاندار سے راشن خریدنا مہنگا ہوتا تھا، لیکن اب میرے خاندان کو پی ڈی ایس کے ذریعے سستا راشن ملتا ہے، میں گزشتہ 2 سالوں سے بھیلواڑہ میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کر رہا ہوں۔“وہ بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے ہمارا نام گاؤں کی راشن لسٹ میں تھا۔لیکن طویل قیام کی وجہ سے لسٹ سے نام کاٹ دیا گیا جاتا تھا۔ اسے دوبارہ شروع کرنے کے لیے دفاتر کا چکر لگانا پڑا تھا۔ لیکن اب اس اسکیم کی وجہ سے ہمیں اپنے کام کی جگہ اور گاؤں میں بھی راشن کی سہولت مل رہی ہے۔

اسی بھٹٹے پر کام کرنے والے بہار کے بانکا ضلع کے پرمود مانجھی کہتے ہیں کہ اب ہمیں پی ڈی ایس سے راشن لینے کے لیے بار بار گاؤں جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم مزدور یہاں کام کرتے ہیں اور آس پاس کے دیہاتوں سے سستا راشن بھی حاصل کرتے ہیں جس کی وجہ سے میرے خاندان پرمالی بوجھ بھی کم ہو گیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے جب ہم ہردوسال بعد اپنے گاؤں واپس جاتے تھے تو سرکاری راشن کی دکان کا مالک کہتا تھا کہ دو سال سے راشن نہ لینے کی وجہ سے تمہارا نام کاٹ دیا گیا ہے۔ اپنا نام دوبارہ فہرست میں شامل کرنے کے لیے، آپ کو دفتر جانا پڑے گا۔ اس کی وجہ سے ہمیں مالی اور ذہنی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اب کوئی شخص نہ صرف کام کی جگہ کے قریب بلکہ گاؤں واپس جانے پر بھی سرکاری راشن سے اناج حاصل کر سکتا ہے۔ پرمود کہتے ہیں کہ اس اسکیم نے ہم جیسے مزدوروں کی زندگی آسان بنا دی ہے جو روزگار کے لیے دوسری ریاستوں میں ہجرت کرتے ہیں۔ ہم پر مالی بوجھ بھی کم ہوا ہے۔ون نیشن، ون راشن سکیم نے ملک کے کمزور طبقوں کو فوڈ سیکورٹی فراہم کی ہے، کیونکہ اب کوئی بھی شخص ملک کے اندر کسی بھی وقت اور کہیں بھی اپنی ضرورت کے مطابق راشن حاصل کر سکتا ہے۔ اس اسکیم سے پہلے فوڈ سیکیورٹی سے فائدہ اٹھانے والے اپنے آبائی گاؤں میں رجسٹرڈ راشن کارڈ کے ذریعے ہی سستا اناج خرید سکتے تھے۔ ساتھ ہی ہجرت کے بعد طویل عرصے تک راشن نہ لینے کی وجہ سے ان کا نام گاؤں میں درج راشن لسٹ سے بھی نکال دیاجاتا تھا۔ یہی نہیں، چونکہ پورا نظام آن لائن اور ڈیجیٹل ہو گیا ہے، اب اس سکیم کے ذریعے راشن کی تقسیم میں کسی قسم کی گڑبڑی کا امکان بھی کم ہو گیا ہے۔

اس سلسلے میں پر کوآپریٹیو سوسائٹی دھون والا، بھیلواڑہ کے ممبر ستیہ نارائن شرما کہتے ہیں کہ یہ اسکیم سال 2019 میں شروع کی گئی تھی۔ اس کے تحت سہولت حاصل کرنے کا پورا عمل بہت آسان ہے۔ سب سے پہلے، ان مزدوروں کو حکومت کی طرف سے چلائے جانے والے ’میرا راشن ایپ‘ پر رجسٹر کرنا ہوگا۔ جس میں انہیں اپنے آبائی گاؤں کی تفصیلات درج کرنی ہوگی۔ اس کے بعد انہیں اپنے قیام کی جگہ کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ اپنے فنگر پرنٹس کا اندراج کرنا ہوگا۔ جیسے ہی یہ عمل مکمل ہوتا ہے، وہ اس جگہ کی مقامی عوامی تقسیم کے نظام کی دکان سے جڑ جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ یہ ایک قومی سکیم ہے اور مکمل طور پر آن لائن ہے، اس لیے کسی بھی مزدور کو نئی جگہ پر اپنا نام درج کرانے سے پہلے اپنے آبائی مقام سے اپنا نام حذف کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسی حالت میں جب وہ اپنے گاؤں واپس آتا ہے تو وہ وہاں پہلے کی طرح راشن کی سہولت حاصل کرسکتا ہے۔ستیانارائن شرما بتاتے ہیں کہ ’مزدور چونکہ سخت محنت کرتے ہیں، اس لیے اکثر ان کے ہاتھوں پر چھالوں یا دیگر وجوہات کی وجہ سے ان کی انگلیوں کے نشانات نہیں ملتے ہیں۔ اسی لیے راشن کارڈ میں رجسٹرڈ خاندان کے تمام افراد کے فنگر پرنٹس لیے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی رکن کے فنگر پرنٹ میچ ہو جائیں تو انہیں راشن کی سہولت فراہم کی جا سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا راشن ایپ‘پر رجسٹریشن کرتے وقت راشن کارڈ ہولڈروں کے آئیرس امپریشن بھی لیے جاتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر راشن کی دکانوں پر اس سے متعلق مشین دستیاب نہیں ہے۔ اس لیے راشن صرف فنگر پرنٹ کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مہاجر مزدوروں کے مفاد میں فائدہ مند ہونے کے باوجود اس نظام میں اب بھی کچھ مسائل ہیں جنہیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں مزدوروں کی موجودگی اور اس کے مطابق راشن کا ذخیرہ رکھنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اکثر راشن اسٹاک کی آمد کے بعد نئے مزدوروں کا اندراج کیا جاتا ہے، ایسے میں انہیں اناج فراہم کرنا راشن ڈیلروں کے لیے ایک چیلنج بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ دور دراز علاقوں میں کنیکٹیویٹی اور ڈیجیٹل سسٹم کی کمی اس اسکیم کی کامیابی میں رکاوٹ ہے۔ تاہم حکومت ان چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے فوائد حاصل کر سکیں۔ اس کے باوجود یہ اسکیم غریب اور معاشی طور پر کمزور مہاجر مزدوروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہی ہے۔نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت مرکزی حکومت کی طرف سے ملک کے 80 کروڑ لوگوں کو مفت راشن دیا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس اسکیم سے غریبوں کو درپیش خوراک کا مسئلہ حل ہوگیا ہے۔ تاہم اس سے قبل بھی ملک میں عوامی تقسیم کے نظام کے ذریعے غریب اور محروم طبقات کو سستے داموں راشن فراہم کیا جاتا رہا ہے۔ لیکن ون نیشن،ون راشن اسکیم نے نہ صرف لوگوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانے میں مدد کی ہے بلکہ ملک میں راشن کی تقسیم کا ایک مربوط اور موثر نظام قائم کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔یہ اسکیم روزگار کے لیے ہجرت کرنے والے لاکھوں مہاجر مزدوروں کی غذائی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ (چرخہ فیچرس)

https://lazawal.com/?cat

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا