تربیت اولاد

0
707

۔نائیلہ چودھری
*کلر راجوری*

[email protected]
بچوں کو پالنا کوئ بڑا کام نہیں جانور اور پرندے بڑے بہتر انداز میں یہ کام صدیوں سے کرتے آرہے ھیں بڑا کام بچوں کی تربیت کرنا ہے اور تربیت توجہ اور وقت مانگتی ہے بچوں کو اچھا ماحول اعلیٰ اخلاق و آداب سکھانا ماں باپ کی اول ذمہ داری ہے بچے کا کردار ، سیرت اور اخلاق کا اچھا ہونا ماں باپ کی محنت کا نتیجہ ہے اس کے لے یہ اولین شرط ہے کے ماں باپ کا صابر و شاکر ہونا ضروری ہے لیکن ہمارے معاشرے میں اولاد کی تربیت کے معاملے میں انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے شاید اس کی وجہ یہ ہے کے والدین خود تربیت یافتہ نہیں ہیں جو خود شرعی احکام سے ناواقف اور تربیت کا محتاج ہو تو وہ دوسروں کی تربیت کیسے کرسکتا ہے یاد رکھیے عموماً بچے والدین کی عادت و کردار کی پیروی کرتے ہیں اگر والدین شریعت کے پابند اور حصول علم کے شوقین ہوں تو ان کی نسلیں بھی نیکوں کی راہ پر گامزن رہتی ہیں۔ اور والدین کی نجات و بخشش اور نیک نامی کا سبب بنتی ہیں۔ اور اگر والدین خود بری عادتوں کے شکار ہوں تو اولاد میں بھی وہی برائیاں منتقل ہو جاتی ہیں اور ایسی اولاد سبب نجات نہیں بلکہ سبب ہلاکت بن جاتی ہیں حدیث پاک میں (نبی کریم ﷺ) نے ارشاد فرمایا (اپنی اولاد کے ساتھ نیک سلوک کرو اور انہیں اچھے ادب سکھانے کی کوشش کرو) یاد رکھیے اولاد کی تربیت کرنا والدین کی زمہداری ہے کیونکہ مفکر کہتے ہیں اور اعلی تعلیم یافتہ لوگوں کا بھی یہ ہی قول ہے کہ ماں کی گود بچے کی سب سے پہلی درسگاہ ہے یہاں سے اسکی زندگی کا نصب العین بنتا ہے یہاں سے عالم ،مفکر شاعر، سائنسدان، ڈاکٹر وغیرہ اور روحانی بزرگ کی ذندگی کی شروعات ہوتی ہے یہ ہی گود ایک ننھی سی زندگی کی زمہدار ہوتی ہے یہاں سے ذندگی بنتی اور بگڑتی ہے اس کے بعد سماج اور اسکول کا اہم رول رہتا ہے یہ تین جگہیں اگر خوشگوار اور عقل مند و دانا ہوں تو بچہ بن جاتا ہے اور اس کے دونوں عالم روشن ہوجاتے ہیں اگر یہ سب اس کے بر عکس ہوتو بچے کے دونوں جہاں جہنم بن جاتے ہیں اور وہ ساری زندگی خود چڑ چڑے پن کا شکار رہتا ہے اور خود تو بے سکون رہتا ہی ہے ساتھ میں پورے سماج اور گھربار پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے کیونکہ الله تعالٰی نے ایک ماں کو بچہ عنایت کر کے گویا ایک سادہ کاغذ یا صاف تختی اس کے ہاتھ میں تھما دی ہے اور پھر فرماتا ہے جو کچھ اس پر لکھنا چاہو لکھ ڈالواور جو ماں لکھتی ہے وہ اتنا گہرا اور دیر پا ہوتا ہے کے کوئ اس کو مٹا نہیں سکتا ماہرہن کی رائے ہے کہ اگر عورت پاکیزہ خیالات اور ذہن کی مالک ہوتو بچہ بھی پاکزہ ذہن کا مالک ہوگا بچوں کو کفایت شعار بناتے ہوئے اصراف سے بچاسکتے ہیں بجلی بچانے کا عادی بنانے کے لئے آپ خود بھی کمرے سے باہر نکلتے وقت تمام فالتو لائیٹ وغیرہ بند کرنے کی عادت ڈالئے کیوں کہ آپ جانتے ہیں کسی کو ترغیب دلانے کے لے خود سراپا ترغیب بننا پڑتا ہے بچوں میں شکر اور مخلوق کی خیرخواہی کا جزبہ پیدا کرنا بچوں کو اس بات کا ذہن دینا چاہیے کہ ہمیں ہر وقت اپنے محسن کا شکر ادا کرنا چاہیے اپنے اساتذہ کرام کا شکر ادا کرنا چاہیے اپنے والدین کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اپنے بڑوں اور چھوٹوں کا شکر ادا کرنا چاہیے جب بچوں میں شکر ادا کرنے کی عادت بن جائے گی تو وہ ہر وقت الله عزوجل کا شکر ادا کرنے کے بھی عادی بن جائیں گے بچوں کے اندر خیر خواہی کا جذبہ بھی پیدا کریں اس کے لے ہمیں بچوں کے سامنے غریبوں کی مدد کرنی چاہیے کسی محتاج کی محتاجی دور کرنی چاہیے اگر آپ کا کوئی پڑوسی کسی مصیبت میں ہے تو اسکی مدد کرنی چاہیے ہمارے بچے جب ہمیں اس طرح خیرخواہی کرتے ہوے دیکھیں گے تو ان کے اندر بھی خیرخواہی کا جذبہ پیدا ہوگا حریت شریف میں ہے کے دین خیرخوای کا نام ہے بچوں میں مہماں نوازی اور سخاوت کا جذبہ پیدا کریں مہمان نوازی سخاوت اور شراکت داری پیدا کرنے کے لئے بچوں کو پردے کا لحاظ کرتے ہوئے ان کے کزن۔ وغیرہ کی دعوت کرنا اور انتطامات میں بچوں کوشامل کرنا۔ حدیث شریف میں ہے بندہ جو کچھ اپنے اوپر اپنے ماں باپ کے اوپر اور بچوں کے اوپر خرچ کرتا ھے بروز قیامت اسکا حساب ہو گا اور جو کچھ وہ اپنے بھائیوں کی دعوت پر خرچ کرتا ہے اس کا حساب نہیں ہو گا اور یہ اس کے لے جہنم کی آگ سے آڑ بن جائےگا ہم بچوں کو کیسا بنانا چاہتے ہیں میں آپ کو ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں
پہلا رویہ_ایک درخت لگا ہوتا ہے اس کی چھاؤں میں اگر کوئی بیٹھتا ہے بٹھنے کے بعد اس کا پھل بھی کھاتا ہے تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد وہاں سے چلا جاتا اور واپس مڑ کر بھی نہیں دیکھتا کے درخت تھا یا پھل تھا اس رویہ کے لوگ ہمیں سماج میں عام ملیں گے کہ پہلے لوگوں سے فائدہ لینا اور جب اپنا کام بن گیا پھر واپس مڑ کے نہیں دیکھنا کے یہ بندہ میرے ساتھ کہاں کھڑا تھا
دوسرا رویہ_ درخت کے نیچے بیٹھنا، چھاؤں لینی، پھل کھانا پھر اسی درخت کو کلہاڑی سے کاٹ دینا ایسے لوگ بھی معاشرے میں بہت ملیں گے پہلے فائدہ لینا اور پھر انہی کو کاٹنا اور انہی کے خلاف شروع ہو جانا
تیسرا رویہ_اس میں کسی حد تک بہتر لوگ ہیں لوگ درخت کے سائے میں بٹھتے ہیں، پھل کھاتے ہیں اور پھر دوسروں کو بھی بتاتے ہیں دیکھو کتنا اچھا درخت ہے درخت چھاؤں بھی دے رہا ہے اور پھل بھی دے رہا ہے
چوتھا رویہ _ درخت کے نیچے بیٹھتے ہیں، پھل کھاتے ہیں پھر سوچتے ہیں کے اس درخت کی حفاظت کرنی چاہیے کیوں کے یہ درخت اگر مجھے سایہ اور پھل دے رہا ہے اسکا مطلب ہےکہ دوسروں کو بھی دے گا اور اگر یہ درخت سلامت رہے گا سب کو چھاؤں اور پھل دے گا
والدین کو چاہیے کے اپنے بچوں کے اندر اپنے لئے اور بزرگوں کے لئےقدر ڈالیں کیوں کہ بچے جو کچھ دیکھتے ہیں وہی کرتے ہیں جیسے والدین ہوں گے بچے بھی ویسے ہی ہوں گے لہذا بچوں کو اچھی تربیت دیں بچوں میں مال اور دولت کی اہمیت ڈالنے کے بجائے اپنی اہمیت ڈالیں کیوں کہ آنے والے وقت میں ہم لوگوں کی خودغرضی کی وجہ سے شاید بچوں میں دور دور تک ماں باپ کی قدر نہیں ہوگی اور اولڈ ہاؤس بھی زیادہ ہونگے اس لئے بچوں کو ان کی غلطی پر ڈانٹ کے سمجھانے کے بجائے پیار سے سمجائیں تاکہ بچوں کے اندر آپ کے لے محبت قائم رہے ہمشہ بچوں کی تربیت اور نشوونما کے لئے صرف مادی ضرویات کی تکمیل ہی نہیں بلکہ ہمیں بچوں کی جز باتی نفسیات کو تکمیل دینے کے لئے ہمیں ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہئے تاکہ ہمارے بچے کبھی خود کو اکیلا نہ سمجھیں ہمیں اﷲ پاک کی رضا کے لے دوسروں کے بچوں کے ساتھ بھی حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا چاہیے اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں کہ کبھی زندگی میں آپ کو یہ نہ لگے کے آپ نے لاپرواہی کی ہے بچوں کی تربیت کرنا مشکل کام ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ﷲ ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق دے (آمین)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا