عالم یا طالبعلم بنیں یا پھر محب یا مطیع علماء بنیں ورنہ ہلاک ہوجائوگے

0
188

۰۰۰
ڈاکٹر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
۰۰۰

اللہ تعالی جنہیں علم سے سیراب فرماتا ہے اور انہیں علم کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عنایت فرماتا ہے وہ اپنے مالک حقیقی کے درِ اقدس پر ہمیشہ جبین نیاز جھکائے رہتے ہیں، شب و روز اطاعت و فرمانبرداری اور دردانگیزنالوں میں گزارتے ہیں اور اپنی عبادتوں میں فخر و نازاں نہیں ہوتے اس کے بالکل برعکس جو لوگ علم کی دولت سے محروم ہوتے ہیں وہ اپنے رب کی نافرمانیوں پر اس قدر جری ہوجاتے ہیں کہ سرکشی کی تمام حدیں پارکرجاتے ہیں اس کے باوجود انہیں توبہ و استغفار کی توفیق نہیں ہوتی چونکہ وہ دنیاوی جاہ و حشمت کی وجہ سے غرور و تکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور باغیانہ روش اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہر چیز سے بے نیاز تصور کرنے لگتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی میں علم کی کتنی اہمیت ہے۔ اسی لیے قرآن مجید نے متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے کہ جس طرح پاکیزگی اور گندگی، روشنی اور تاریکی، سایہ اور سخت گرمی، بینا اور نابینا، مومن اور فاسق، خوش ذائقہ اور تلخ و نمکین پانی، زندہ اور مردہ، نیکی اور بدی، اصحاب الجنۃ اور اصحاب النار مساوی نہیں ہوسکتے اسی طرح اہل علم اور کسی قسم کا قطعاً علم نہیں رکھنے والے برابر نہیں ہوسکتے۔ چونکہ علم و معرفت اور عقل و تدبر ہی کے ذریعہ انسان کو ہدایت نصیب ہوتی ہے اگر یہ نہ ہو تو انسان گمراہی کا شکار ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید کی محولہ بالا تمام آیات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ جن مبارک ہستیوں کو رب کائنات علم سے نوازتا ہے اور وہ علم کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے عمل کرتے ہیں تو ان کی زندگی پاکیزہ بن جاتی ہے، ان کی ذات بنی نوع انسانی کے لیے مینارہ نور بن جاتی ہے، ان کے سایہ میں بھکٹی ہوئی انسانیت کو سکون ملتا ہے، ان کی بصیرت سے لوگ اپنے دل کی تاریکی کو دور کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، ان کے ایمان سے متاثر ہوکر فاسقین اپنے گناہوں سے تائب ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے ہیں، ان کی خوش مزاجی سے اغیار و معاندین بھی متاثر ہوجاتے ہیں، ان کی نگاہ سے مردہ دل زندہ ہوجاتے ہیں، ان کی صحبت میں رہنے والا بدکار بھی صاحب کردار بن جاتا ہے الغرض جہنم کا ایندھن بننے میں زندگی گزارنے والے ان کی صحبت سے فیض حاصل کرتے ہوئے جنت کے مستحق بن جاتے ہیں انسان کی زندگی میں یہ انقلاب اسی وقت آ سکتا ہے جب اس کے پاس علم کی دولت ہوگی چونکہ اللہ تعالی اہل علم کو تمام جسمانی، روحانی، انفرادی، اجتماعی، دینی ، دنیاوی الغرض ہر قسم کی سعادتوںسے سرفراز فرماتا ہے۔ علامہ نور الدین الھیثمیؒ کی مجمع الزوائد و منبع الفوائد میں مذکور حدیث شریف میں آتا ہے کہ عالم بنو یا طالب علم بنو یا ان سے محبت کرنے والے بنو یا ان سے اتباع کرنے والے بنو اور پانچویں (یعنی علم و علماء سے بغض رکھنے والے) نہ بننا ورنہ ہلاک ہوجائوگے۔ اس حدیث شریف میں رحمت عالمؐ نے جن کو اللہ تعالی نے ذہنی صلاحیتوں ،خداداد استعداد اور اختراعی خوبیوں سے سرفراز کیا ہے انہیں عالم بننے کی ترغیب دلائی ہے اور جو ان خوبیوں سے محروم لیکن معاشی طور پر مستحکم ہیں انہیں طالب علم بننے کی ترغیب دی ہے اور جو عالم اور طالب علم بننے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں علماء سے محبت کرنے اور ان کی اتباع کرنے کی ترغیب دلائی ہے اور پانچویں نہ بننے کی تلقین فرمائی ہے کیونکہ اس میں ہلاکت ہے۔ یعنی جو نہ عالم بننے کی کوشش کرے اور نہ متعلم بننے کی سعی کرے اور نہ علماء کی توقیر و عزت کرے اور نہ علماء کی نصیحتوں پر عمل کرنے کی جستجو کرے تو یقینا وہ علمی، فکری، اخلاقی، دینی، دنیاوی، معاشی، اقتصادی، سیاسی، تہذیبی اور ثقافتی طور پر ہلاک ہوجاتا ہے جیسا کہ موجودہ دور کے مسلمانوں کی حالت ہوچکی ہے چونکہ آج کا مسلمان علم سے زیادہ دولت اور شہرت کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ اللہ تعالی اپنے بندوں پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ و ذمہ داری نہیں ڈالتا اسی لیے رحمت عالمؐ نے مسلمانوں کو اپنی استعداد و استطاعت کے مطابق علم سے وابستگی اختیار کرنے ترغیب دلائی اور کسی حال میں علم اور علماء سے دوری اختیار نہ کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ خلاق دو جہاں نے انسان کو نہایت ہی بہترین قد و قامت صورت و شکل اور تناسب اعضاء کے ساتھ ظاہری پیکر کے لحاظ سے بڑا ہی حسین و جمیل اور خوبصورت بنایا ہے اور اس کے باطن کو سنوارنے کے لیے معنوی خوبیاں جیسے عقلی و فکری استعداد و صلاحیتوںکی عظمتیں و رفعتیں عطا فرمائی ہیں اس طرح انسان کو صوری و معنوی اعتبار سے احسن الخلق اور اکمل الخلق بنایا ، تمام مخلوقات میں انسان کو عزت بخشی اور اپنا نائب و خلیفہ بناکر اس کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج رکھا۔ ان تمام دلائل و شواہد اور انسان پر ہورہے نعائم کردگار کا بنیادی تقاضہ یہ تھا کہ انسان کا ایمان مضبوط، اعمال درست ،اخلاق بلند ،کردار اعلی اور وہ اپنے پالنہار کے ہر حکم کا پابند رہے جس کے حکم کے سامنے کائنات کی ہر چیز سرنگوں، مطیع و فرمانبردار ہے ۔زمین و آسمان میں کوئی بھی سرتابی کی جرأت نہیں کرسکتا۔ لیکن انسانوں بالخصوص مسلمانوں کی اکثریت اپنے مالک حقیقی سے غافل ہوکراحکامات الٰہی سے انحراف کرتی ہے اور خود اپنی سعادت مندی کو شقاوت میں تبدیل کررہی ہے نتیجتاً ذلت و پستی ان کا مقدر بن رہی ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ جہالت اور تعلیمی پسماندگی ہے۔ جو انسان اپنے مقام رفیع سے ناآشنا ہوتا ہے وہی اپنے نفس کی سفلی جذبات کی تکمیل و تسکین کو اپنا زندگی کا مقصد سمجھ لیتا ہے اس طرح وہ حلال و حرام کی تمیز کو مٹاکر اپنے رب کا نافرمان بن کر ناقابل بیان پستیوں میں اپنے آپ کو گرالیتا ہے اور دنیا و آخرت کو تباہ و تاراج کرلیتا ہے۔ بنی نوع انسان میں اللہ تعالی ان اشخاص کو رفعت و بلندی عطا فرماتا ہے جو خودشناس ہوتے ہیں اور اپنی خداداد صلاحیتوں اور توانائیوں کا ادراک رکھتے ہیں، موقع و محل کے لحاظ اس کا بھرپور استعمال بھی کرتے ہیں، اپنی زندگی کو ایمان و عمل صالح سے معمور کرلیتے ہیں اور پوری انسانیت کے لیے چراغ روشن بن جاتے ہیں۔ انسان کے لیے ان کمالات کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب اس کے پاس ایمان و علم کی دولت ہو۔ اللہ تعالی کی جناب میں مفلوک الحال مومن کی عظمت و رفعت متمول کافر سے بہت بلند ہے چونکہ مسلم معاشرے میں تعلیمی پسماندگی کا دور دورہ ہے اسی لیے ہمارے یہاں معاملہ بالکل برعکس ہے ہم متمول کافر و نافرمان کی عزت مفلوک الحال فرمانبردار مومن سے زیادہ کرتے ہیں جبکہ ہم سب اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں کہ خلیفہ چہارم حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم ؓ کے غلام قنبر کے وضوکے پانی کا قطرہ قیصر کے خون سے زیادہ عزت والا ہے۔ اسی طرح ہمارے اسلاف نے جاہل جاگیر دار و دولت مند پر ہمیشہ غریب صاحب علم کو فوقیت دی ہے لیکن آج جو صاحب علم ہیں ہم ان کی قدر دانی نہیں کرتے ہم تو صرف صاحب جاہ و منصب کی عزت افزائی کرتے ہیںاگرچہ وہ تعلیمی پسماندگی کے نچلے پائیدان پر ہی کیوں نہ کھڑا ہوا ہو۔ جبکہ ہم سب اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ علم کی قدر دانی کرنا انبیاء و مرسلین کی سنت رہی ہے جبکہ مال و دولت سے شغف و محبت رکھنا فرعون، شداد، ھامان اور اللہ تعالی کے نافرمانوں کا شیوہ رہا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے حضرت سلیمان ؑکو تین چیزوں یعنی (i)علم، (ii) حکومت اور (iii) مال میں اختیار دیا آپ نے علم کو پسند فرمایا اللہ تعالی نے اس کی برکت سے آپ کو بادشاہی اور مال بھی عطا فرمایا ۔ آج کا مسلمان بے دریغ پیسہ خرچ کرکے جاہ و منصب حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے اور سمجھ رہا ہے کہ اس طرح اسے عزت مل جائے گی۔ یہ ہماری خام خیالی ہے حقیقی شرف و بزرگی حصول علم میں مضمر ہے نہ کہ حصول مال و دولت میں۔ قیامت کے دن انبیائے کرام کے بعد جن خوش نصیبوں کو شفاعت کرنے کا حق دیا جائے گا وہ اہل علم ہیں۔ مال و ثروت رکھنے والوں کے حق میں ایسی کوئی فضیلت بیان نہیں ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود ہم مالدار بننے کی تمنا میں پوری زندگی صرف کررہے ہیں اور بزعم باطل سمجھ رہے ہیں ہمیں دنیا و عقبی میں بلند مراتب حاصل ہوجائیں گے۔ دنیا میں وقتی طور پر بلند مناصب پر ہم فائز ضرور ہوسکتے ہیں لیکن عدم علم کے باعث ان عہدوں کی اہلیت نہ ہونے کے سبب ہم عوام الناس کی خدمت کرنے کے بجائے مفادپرستی،اقربا پروری اور چاپلوسی کا شکار ہوکرگناہوں کے دلدل میں دھنس جائیں گے اوردنیا میں اپنی اور اپنی قوم کی نیک نامی کو متاثر کرنے والے بن جائیں گے اور آخرت میں ذلت و رسوائی کا سامنے کریں گے۔
مسلمانوں کی اکثریت آج علم بھی حاصل کررہی ہے تو علم میں مہارت و لیاقت پیدا کرنے کے لیے نہیں بلکہ اچھی ملازمت کے لیے علم حاصل کررہی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم نوجوان نسل کے پاس اعلی تعلیم کی ڈگریاں موجود ہیں لیکن نہ ان کے پاس ایمان و علم کی دولت ہے ، نہ ان کے اعمال میں اخلاص و شائستگی ہے اور نہ ہی وہ اخلاق و کردار کے حامل ہیں۔ جبکہ قرآن مجید صراحتاً ارشاد فرماتا ہے کہ اللہ تعالی مومنین میں سے ان کو رفعت عطا کرتا ہے جن کے پاس ایمان اور علم کی لا زوال دولت ہوتی ہے۔ اس آیت پاک سے صاف ظاہر ہوگیا ہے کہ ایمان اور علم یہی وہ دو نعمتیں ہیں جس سے انسان کے شرف و بزرگی میں اضافہ ہوتا ہے اس طرح وہ بلند مراتب و درجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی معیشت کو مضبوط و مستحکم بنانے سے پہلے اپنے ایمان کو مضبوط اور علمی معیار کو بلند کریں چونکہ ایمان اللہ تعالی کی عظیم نعمت ہے اور ایسا نور ہے جس سے جہالت وکفر کی ظلمتیں چھٹ جاتی ہیں، ہر قسم کے ظلم کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور بنی آدم انسانیت کا علم بردار بن جاتا ہے۔ افسوس صد افسوس آج ہم مسلمان اور مومن ہونے کا دعوی ضرور کرتے ہیں لیکن ہم نہ ایمان والی زندگی گزارنے پر آمادہ ہیں اور نہ ہی علم سے کوئی شغف رکھتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب مسلمانوں نے علم کے ہر شعبہ میں اپنی امامت کا لوہا دنیا سے منوایا تھا لیکن آج قحط الرجال کا یہ زمانہ آگیا ہے کہ کسی ایک مضمون میں بھی بڑی مشکل سے کسی مسلمان کا نام نظر آتا ہے جبکہ یہ وہی قوم ہے جس کی مقدس کتاب یعنی قرآن مجید کی پہلی وحی کا تعلق علم سے ہے ۔ یہ اسی نبی کی امت ہے جس نے ارشاد فرمایا کہ مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفی اس ماہ ِمبارک میں تمام مسلمانوں کو اپنی رحمت، مغفرت سے سرفراز فرمائے اور دوزخ سے نجات عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا