موجودہ دور کی نفسیاتی بیماریاں اور ان سے محفوظ رہنے کی تدابیر

0
33

ثناء وقار احمد
(بی ایڈ ، ایم اے سائیکالوجی ،ایم اے انگریزی ،ایم اے اردو)
مولانا آزاد کالج آف آرٹس ، سائنس اینڈ کامرس ،ڈاکٹر رفیق زکریا کیمپس ، روضہ باغ ، اورنگ آباد
ساکن نواب پورہ اورنگ آباد (مہاراشٹر)
نفسیاتی امراض دراصل یہ ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جس سے ہر کوئی ڈرتا ہے اور ماہر نفسیات سے تو اور بھی زیادہ ڈر لگتا ہے۔ یہاں تک کہ صرف ماہر نفسیات کا نام سنتے ہی وہ گھبرانے لگتا ہے۔ ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ محض ہماری لاعلمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ دراصل نفسیاتی امراض کا مطلب محض پاگل پن نہیں ہوتا ، یہ ہماری غلط سوچ ہے کہ ہم سوچتے ہیں جیسے نفسیاتی بیماری، مرض لاحق ہو وہ صرف پاگل ہی ہوتا ہے یا اسے صرف پاگل ہی سمجھا جائے۔ ایسی سوچ رکھنا اتنہائی غلط بات ہے۔

https://medlineplus.gov/anxiety.html#:~:text=Anxiety%20is%20a%20feeling%20of,before%20making%20an%20important%20decision.

زندگی بیش بہا عطیہ خداوندی اور اچھی صحت کو ہر ذی روح کی حیات کا عطر کہا جاتا ہے۔ جدید زمانے کے

طرزحیات نے جہاں انسان کو بہت سی آسانیاں فراہم کی ہیں وہیں اس نے انسان کو بہت سے امراض کا تحفہ بھی دیا ہے۔ نفسیاتی امراض اس جدید طرزحیات کے بہت بڑے تحفے ہیں، جو شہری آبادی کے علاوہ دیہی آبادی کے افراد کو بطورخاص ملے ہیں۔ آج ہر شہری اور دیہی طبقے کی ایک بڑی تعداد نفسیاتی امراض کا شکار ہے۔
صحت ایک نعمت ہے خواہ جسمانی ہو، نفسیاتی یا روحانی۔ انسان کا ذہن اور اس کا علم راز ہے ایسے ذہن کو متاثر کرنے کے لئے امراض بہت ہی پیچیدہ ہوتے ہیں۔ انسانی ذہن اور نفسیات ویسے ایک معمہ ہے لیکن اِس ذہن کی شناخت اتنی ہی اہم ہے۔ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کا سامنا کرنے کے لئے جسم اور ذہن کا صحت مند ہونا ضروری ہے ، جس طرح جسم کے کئی امراض ہیں اسی طرح ذہن کی بھی کچھ بیماریاں ہیں۔ ذہن کو لاحق ہونے والی بیماریوں، نقائص کو نفسیاتی امراض، بیماریاں کہتے ہیں۔ نفسیاتی امراض کے تعلق سے معاشرے میں لاعلمی بہت ہے۔ نفسیاتی مرض ، جسمانی امراض ہی کی طرح قابل قبول ہونا چاہئے۔ جسم جیسے مختلف امراض کا شکار ہوتا ہے اسی طرح ذہن بھی مختلف امراض میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ، اس کا علم ہونا ضروری ہے۔ تمام معاشرے کو اِس سے واقفیت ضروری ہے۔ آج تیزی سے بدلتے ہوئے جدید، صنعتی دور میں سماجی زندگی میں پیدا ہونے والی تبدیلی اور بدلتے ہوئے زندگی کی دھارے میں تناؤ کے واقعات زیادہ ہی رونما ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔جس کی وجہ سے فرد، خاندان، سماج اور ملک میں مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ انسان ذہنی طور پر صحت مند ہوتو پیش آنے والے مسائل کا جرأت سے مقابلہ کرسکتا ہے۔
آج کل ہر کوئی ذہنی دباؤ ،ذہنی تناؤ کا شکار ہے جیسے عالمی وبا یعنی کوروناوائرس کا حد سے زیادہ ڈر خوف۔ جس کی وجہ سے انسان نفسیاتی کشیدگی کا شکار ہورہے ہیں۔ تشویش میں مبتلا ہے۔ تیز رفتار انداز زندگی نے حساس لوگوں کو مستقل نفسیاتی کشیدگی دباؤ کا شکار بنا رکھا ہے جسے ہم عام طور پر طبی اصطلاحات میں Anxiety بھی کہتے ہیں۔ اِس کے مختلف ایسے نتائج ہیں جو مادی طور پر جسم میں ظاہر ہوتے ہیں۔ بنی نوع انسان کی بہت سی بیماریوں کا سبب ان کے اجسام میں کوئی مادی تبدیلی ہوتی ہے جبکہ موجودہ دور میں اس سبب کا سب سے بڑا سبب کوئی خارجی مادہ (External material) یا حیوان (Germ of bacteria)نہیں ہوتا جو جسم میں داخل ہوکر اِس کی تخریب کا سبب بنتا ہو، بلکہ یہ نفسیاتی دباؤ ، انسانوں کے جسموں میں اِس قدر تبدیلیوں کا سبب ہوجاتا ہے کہ ان کے خواص بدل جاتے ہیں اور وہ مختلف بیماریوں اور اوہام کا شکار ہوجاتے ہیں۔ مثلاً خون کا دباؤ ، جزوی طور پر جسمانی جھٹکہ ، پٹھوں کا خودکار طور پر پھڑکنا، پٹھوں کا اکڑنا، خوداعتمادی کا فقدان جیسے عوارض گھیر لیتے ہیں۔ روزمرہ کی زندگی مختلف قسم کے دباؤ جیسے شدید مصروف ٹریفک میں کام تک پہنچنا یعنی دفتر، آفس، اسکول، کالج ، کمپنی وغیرہ میٹنگیں ، یہاں وہاں کاغذات ہی کاغذات ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ ، موبائل فون کا ضرورت سے زیادہ استعمال سے انسان ذہنی تناؤ کا شکار ہورہے ہیں۔ جس کی وجہ سے نفسیاتی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ اِس مرض میں بچے ، نوجوان، بوڑھے اِس تیز رفتار انداز زندگی میں ذہنی تناؤ میں مبتلا ہے۔ اِن نفسیاتی امراض کا تناسب بہت زیادہ بڑھ رہا ہے جسے سنجیدگی سے سمجھنا چاہئے۔
جدید دور کے پیشہ ور افراد کا کام اسٹریس (تناؤ) دفتر میں چھوڑ کر نہیں آتے بلکہ چھٹی کے بعد اسے گھر بھی لے آتے ہیں۔ ا س کا سبب ماڈرن آلات جیسے کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ بن رہے ہیں جبکہ ماہرین نے اِس کے صحت پر منفی اثرات سے خبردار کیا ہے۔ موبائل فون سے جو شعاعیں خارج ہوتی ہیں وہ بہت دراز اور سخت ہوتی ہیں جس کو ہمارا دماغ برداشت نہیں کرسکتا۔ ذہنی دباؤ اور ذہنی تناؤ دونوں ہی قوت مدافعت کو کافی زیادہ متاثر کرتے ہیں ، لہٰذا تمام تنازعات اور ذہنی خلفشار سے دور رہنا چاہئے۔ اپنے ذہن کو پُرسکون رکھیں، کیونکہ ضرورت سے زیادہ سوچ یا فکر ،غیرضروری ڈر ، خوف ، وسوسے ، مایوسی، منشیات کا استعمال، کندذہنی ، بے خوابی ، بھولنے کی عادت ، تعلیمی ، سماجی اور معاشی مسائل ، ماڈرن آلات، جیسے موبائل فون ، لیپ ٹاپ کا استعمال اِن سب کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
درحقیقت نفسیاتی صحت کا تعلق ہر ایک قسم کی ترقیوں سے وابستہ ہے۔ ذاتی ترقی سے لے کر ملک کی ترقی تک نفسیاتی صحت ضروری ہے۔ اگر فرد نفسیاتی طور پر صحت مند ہوگا تو وہ زندگی کے ہر میدان میں ترقی کی راہیں طئے کرتا رہے گا۔ یہاں ایک بات ذہن نشین کرلینا بہت ضروری ہے کہ نفسیاتی امراض ایسی بیماریاں ہوتی ہیں جو ہر کسی شخص میں اور کسی بھی عمر میں پائی جاسکتی ہیں۔ جیسے نوجوان لڑکے، لڑکیاں ، مرد ، خواتین ، چھوٹے بچے اور بڑی عمر کے حضرات نفسیاتی بیماری کسی کو بھی کسی بھی عمر میں لاحق ہوسکتی ہے۔ اِس مرض میں مبتلاء شخص کو ہچککچانا یا ڈرنا نہیں چاہئے بلکہ ماہرنفسیات سے رجوع ہونا چاہئے۔ اگر سماج نفسیاتی طور پر صحت مند رہے گا تب ہی روزانہ ہونے والے تنازعات، فسادات ، نفرت سے نجات ممکن ہے اور ہر طرف پھیلی ہوئی غیرمستحکم حالت بڑی حد تک ختم ہوسکتی ہے۔
سائنس اور ریسرچ یہ بتاتی ہے کہ جو لوگ روحانی طور پر مضبوط ہوتے ہیں اِن میں اوروں کے مقابلے نفسیاتی امراض کم پیش آتے ہیں اور اگر پیش آئیں تو بھی جلد ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ بندہ اپنے خالق سے تعلق کو مضبوط کرتا ہے تو اِس کی زندگی کا تناؤ ہلکا ہوتا چلا جاتا ہے۔ تقدیر پر یقین ، مصائب پر صبر ، آخرت میں بدلے کا یقین ، تقویٰ ، قناعت ، توکل ، تواضع یہ تمام باتوں کا اپنے اندر پیدا کرنا خودبخود انسان کو تناؤ اور نفسیاتی امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ دل کو حسد، جلن ، بعض ، کینہ ، عداوت ، تکبر ، بخل سے پاک کرنا ، روحانیت کے اہم اصولوں میں سے ہے یہ تمام قلبی بیماریاں نفسیاتی امراض کو جنم دیتی ہیں۔ درگذر کرنا ، صلح رحمی کرنا ، قطع تعلق سے بچنا ، رحم کرنا، انصاف کرنا ، یہ تمام صفات نفسیاتی صحت کی حفاظت کرتے ہیں۔ اِن طریقوں پر عمل پیرا ہوں گے تو انشاء اللہ اپنی زندگی میں ضرور تبدیلی محسوس کریں گے۔
٭٭٭

https://lazawal.com/

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا