کیا آر ایس ایس اب اپنے وجود کی جنگ لڑ رہا ہے

0
168

۰۰۰
بینام گیلانی
۰۰۰
27 ستمبر 1925 کو وجود پزیر ہونے والا آر ایس ایس جس برق رفتاری سے فروغ پایا۔وہ آب اپنی مثال ہے۔ہیڈ گیوار نے اس کے قیام کے وقت سے لے کر اپنے آخری دم تک اسے اپنے خون جگر سے سینچا۔گو کہ اس کا خروج ہندو مہا سبھا سے ہی ہوا ہے۔تاہم اس نے ایک انفرادی و آزاد تنظیم کی حیثیت اختیار کر لی۔چونکہ اس کی اساس ہندوتوا کے تحفظ اور ہندو تمدن و ثقافت کے فروغ نیز اسلام دشمن جذبے کے تحت ڈالی گئی تھی۔چنانچہ اسے پھلنے پھولنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔اس کا ایک اہم سبب یہ تھا کہ اس وقت اہل فرنگ کی حکومت تھی اور اس حکومت کو کسی کے دھرم یا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔اسے یہ علم تھا کہ تلواروں کی دھار سے سارے مذہبی جنون و جذبے کو ذبح کیا جا سکتا ہے۔پھر یہ تو بھوکوں اور ننگوں کا ملک ہے۔کوئی بھی انسان بہت دنوں تک بھوک اور پیاس کی تاب نہیں لا سکتا ہے۔اسے جب چاہو زیر کر کے غلامی کو مجبور کیا جا سکتا۔اس فرنگی کا تو بس ایک مقصد تھا کہ کس طرح حکومت کو مستحکم اور دیر پا بنایا جا سکتا ہے اور یہ مقصد کیونکر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اہل فرنگ کی اس فکر کی پیروکار تو ہندوستان کی ساری سیاسی جماعتیں ہیں۔لیکن چونکہ دیگر جماعتوں کو راست حکومت کے مواقع حاصل ہی نہیں ہوئے۔چنانچہ وہ جماعتیں اپنے چھوٹے چھوٹے مفاد کے حصول میں ہی الجھی رہیں۔جنہیں راست طور پر حکومت کرنے کے مواقع حاصل ہوئے ان میں پہلا نام کانگریس کا ہے۔یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ اسی کانگریس کی حکومت میں ارض ہندوستان پر کم وبیش سوا لاکھ فرقہ وارانہ فسادات عمل پزیر ہوئے۔جن میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں ضائع ہوئیں۔ان شہداء میں جوانان بھی تھے ،معصوم بچے بھی تھے اور ناتواںں بزرگان و ضعیف بھی۔ان فرقہ وارانہ فسادات میں کتنی ہی خواتین و دوشیزاؤں کی عصمت دری بھی عمل پزیر ہوئی۔اس سے زیادہ وحشتناک معاملہ تو یہ عمل پزیر ہوا کہ کتنی ہی مسلم دوشیزائیں غائب کر دی گئیں جن کا سراغ کبھی نہیں مل سکا۔وہ آج بھی گم شدہ ہی ہیں۔ یہ سارا دلدوز واقعہ جس حکومت کے عہد میں انجام پزیر ہوا۔وہ کوئی اور نہیں بلکہ آج سیکولرزم کا دم بھرنے والی طوطا چشم کانگریس ہی ہے۔یہ کانگریسی گنگا جمنی تہزیب ،باہمی بھائی چارہ،مذہبی اتحاد و اتفاق اور رواداری کے نعرے خوب خوب لگاتی نظر آتی لیکن اگر کانگریس کی تاریخ کا بغائر نظر مطالعہ کیا جائے تو اس کا دامن مسلمانوں کے لہو سے تر بتر نظر آئیگا۔اج وہی کانگریس قومی یکجہتی اور مذہبی ہم آہنگی کی علمبردار بنی گنگا جمنی تہذیب کی ٹھیکیدار بنی بیٹھی ہے۔اج جو بی جے پی اور آر ایس ایس والے سر پر چڑھ کر ناچ رہے ہیں۔اس کے صد فیصد ذمہدار یہی کانگریس والے ہیں۔جنہوں نے اپنے عہد حکومت میں سرکاری نوکری میں مسلمانوں کو %33 سے%3 پر پہنچا دیا۔چلئے چونکہ فی زمانہ ناچیز کا موضوئے سخن کانگریس نہیں بلکہ بی جے پی اور آر ایس ایس ہے۔چناچہ ان ہی پر باتیں ہوں تو بہتر ہے۔
یہ عجب حالات پیش نگاہ ہیں کہ 2014 سے ہندوستان کی سیاست اور طرز حکومت میں نمایاں تغیر نظر آ رہا ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بھوکے بھیڑیوں کو انسانوں کے درمیان چھوڑ دیا گیا ہے۔زندگی کے ہر میدان عمل میں حکومت ہند کی بیجا مداخلت نظر آرہی ہے۔ان اہل حکومت نے گویا پورا نظام حکومت ہی تبدیل کر کے رکھ دیا۔یہ آئین ہند کے بھی پابند نظر نہیں آتے ہیں۔یہ ہر میدان عمل میں اپنی منمانی کرتے نظر آتے ہیں۔انتہا تو یہ ہے کہ یہ لوگ اس آر ایس ایس کو بھی ناقابل اعتنا تصور کرنے لگے ہیں جہاں سے انہیں وجود میسر ہوا ہے اور جہاں سے انہوں نے مسلم دشمنی ورثے میں پائی ہی۔
آج جو یہ بی جے پی والے اصحاب اقتدار بنے بیٹھے ہیں۔یہ اقتدار در اصل لال کرشن اڈوانی کی رتھ یاترا کی مرہون منت ہے۔اسی یاترا سے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی۔کیونکہ خود آر ایس ایس والے اپنی ایک صدی پر مشتمل جد و جہد کے باوجود اقتدار تک رسائی حاصل کرنے سے قاصر ہی رہے۔لیکن لال کرشن اڈوانی کی یاترا نے وہ چمتکار کر دیا جو آر ایس ایس والے کا دیرینہ خواب تھا۔لیکن صد افسوس بی جے پی میں موجود اڈوانی سے بہت ہی جونیر ارکان نریندر داس مودی اور امیت شاہ نے اڈوانی کو میدان سیاست سے ہی خارج کر دیا اور پوری بی جے پی پر اس طرح حاوی ہو گئے کہ تیسرے نمبر پر کوئی بچا ہی نہیں۔ غرض بی جے پی مودی اور شاہ ہو کر رہ گئی۔انتہا تو یہ ہوئی کہ آر ایس ایس کے دو بہت ہی قریبی راج ناتھ سنگھ اور گڈکری کی بھی ان دونوں کی نگاہوں میں کوء قدر و وقعت نہیں رہ گئی۔یہ سارا تماشا آر ایس ایس والے خموشی سے دیکھتے رہے اور اندر ہی اندر خوش ہوتے رہے کہ چلو کم از کم اقتدار تو ہمارے ہاتھوں میں ہے۔یہ اقتدار بس اقتدار نہیں بلکہ آر ایس ایس کے سو سالہ خوانوں کی وہ تعبیر ہے جس کے لئے آر ایس ایس سو سال سے کوشاں تھی۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ آر ایس ایس کا دیرینہ خواب تعبیر سے ہمکنار ہو چکا ہے۔لیکن شائد اس امر کا گمان بھی ان آر ایس ایس والوں کو نہیں تھا کہ یہ تعبیر ہی آر ایس ایس کے وجود کے لئے بہت بڑا خطرہ ہو جائے گی۔چنانچہ جیسے ہی مودی تخت نشیں ہوئے۔انہوں نے بی جے پی کے تمام لیڈران کو درکنار کر دیا۔علاوہ از یں جو بی جے پی کا بانی ادارہ آر ایس ایس ہے۔اسے بھی ناقابل اعتنا بنا کر رکھ دیا حتیٰ کہ اسے مشاورت کے لائق بھی تصور نہیں کیا۔یہ ہے مودی اور شاہ کی خود عنانیت کی وہ دل شکن داستان جس سے ابلیس کو بھی شرم محسوس ہو۔اس طرح آر ایس ایس کو اپنا وجود ہی خطرے میں نظر ایا۔جس اقتدار کے لئے اس نے کم و بیش سو سال تک جان توڑ کوشش کی وہی اقتدار اس کے ہاتھ سے نکلتا نظر آنے لگا۔تب آر ایس ایس کے سر سنگھ سنچالک موہن بھاگوت جی کی نیند ٹوٹی ہے۔انہوں نے ذرائع ابلاغ میں باضابطہ بیان دیا ہے کہ صاحب اقتدار کو تکبر زیب نہیں دیتا ہے۔ایک سال سے منی پور جل رہا ہے اور حکومت بالکل ہی مجبور و معذور نظر آ رہی ہے۔اب کوئی شری موہن بھاگوت جی سے یہ استفسار کرے کہ یہ ایک سال تک آپ کیا کرتے رہے اور کیا بات ہوئی کہ دفعتاً اہل اقتدار کا تکبر بھی نظر آنے لگا اور منی پور کے ابتر ہوئے حالات کا بھی اندازہ ہو گیا۔کیا ہوا کہ آپ کے قلب و جگر میں اچانک کھلبلی سی مچنے لگی اور آپ کے اندر کی محو خواب انسانیت بیدار ہو اٹھی۔ آخر ایسا کیا ہو گیا کہ آپ کو ذرائع ابلاغ پر آکر بغیر کسی کا نام لئے کھری کھوٹی سنانی پڑی۔اگرچہ آپ کے بیان سے یہ واضح ہو ہی گیا کہ آپ اپنا نزلہ کس پر اتار رہے ہیں۔حقیقت لاکھ چھپانے سے بھی نہیں چھپتی ہے اور اجاگر ہو کر ہی رہتی ہے۔
در اصل جب تک بی جے پی والے یا صاحبان اقتدار اپنے اندر کی کمائی آر ایس ایس پر لٹاتے رہے۔اس کے دفتر ہی نہیں بلکہ پورے ہندوستان میں بکھرے پڑے آر ایس ایس کی شاخوں اور بی جے پی کے ہر چھوٹے بڑے دفاتر کو مزین کرتے رہے اور آر ایس ایس کے مقاصد کے حصول پر بیدریغ خرچ کرتے رہے تب تک تو شری موہن بھاگوت جی کو نہ وزیر اعظم نریندر داس مودی سے کوئی شکایت رہی اور نہ وزیر داخلہ شری امیت شاہ جی سے۔گرچہ آر ایس ایس کے حصول مقاصد میں ے شمار جانوں کا اتلاف بھی عمل میں ایا۔جن میں بیشتر مسلمان تھے ،کتنے گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ان گھروں میں بھی بیشتر گھر مسلمانوں کے تھے۔کتنی دوشیزائیں غائب کر دی گئیں،کتنے ہی معصوم بچے نیزے پر اچھالے گئے اور کتنے ہی بزرگوں کو بڑی سفاکی سے قتل کیا گیا۔متذکرہ بالا تمام قیامت خیزیاں آر ایس ایس کے قلب کو متزلزل نہیں سکیں،ان کی غیرت انسانی کو بیدار نہیں کر سکیں۔جس منی پور کا ذکر خیر لے کر موہن بھاگوت جی صاحبان اقتدار کو آج کوسنے لگے ہیں۔وہ مکمل ایک سال تک کیوں اندھے اور بہرے بنے بیٹھے رہ گئے۔ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔اپ نے اس سلسلے میں خود سنگ دلی کی انتہا کر دی۔ پھر اب ایسا کیا ہو گیا کہ مسلمانان ہند بھی آپ کو اپنے نظر آ نے لگے اور منی پور کے ناگفتہ بہ حالات پر آپ کی چشم بھی نم ہو گئی اور دل بھی ابلنے لگا۔شری موہن بھاگوت یہ سمجھتے ہیں کہ عوام تو بالکل نا سمجھ اور جاہل ہیں۔یہ اندر کی بات کو نہیں سمجھ سکتے۔لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔عوام بلے سے مصلحتاً خاموشی کی چادر اوڑھے رہے لیکن وہ تمام حقائق کے فہم و ادراک رکھتے ہیں۔وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے مابین داخلی طور پر کیا چل رہا ہے۔
در اصل آر ایس ایس والے کو یہ اطمینان ہی نہیں کامل یقین تھا کہ جتنے بھی اراکین بی جے پی ہیں وہ سب کے سب ہمارے زر خرید غلام ہیں۔دوسرے لفظوں میں یہ کہ موجودہ حکومت صرف نام نہاد کے لئے بی جے پی کی کہلا رہی ہے حقیقتاً تو وہ آر ایس ایس کی ہی حکومت ہے۔کس صاحب اقتدار میں اتنا دم ہے کہ آر ایس ایس سے بغاوت کرے۔دوسری جانب بی جے پی کی غیرت خوداری جاگ اٹھی کہ سارا کام ہم کریں ،جد و جہد ہم کریں ،جنگ و جدال ہم کریں اور کرائیں لیکن حکومت سازی کا سارا سہرا آر ایس ایس کے سر۔ہم صاحب تخت و تاج ہو کر بھی محکوم رہیں۔اس معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ سارے بی جے پی والے پر سبقت لے جاتے نظر آئے۔ بالآخر وہ دونوں آر ایس ایس سے بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔اس طرح دونوں ہی نے بی جے پی کا سارا نظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور صرف اپنے طور پر نظام حکومت چلانے لگے۔ان دونوں نے آر ایس ایس خصوصاً موہن بھاگوت کو بالکل ہی حاشئے پر ڈال دیا۔مودی اور شاہ کی یہی ادا بھاگوت کو ناگوار گزری۔ان کے سامنے آر ایس ایس کے وجود کا سوال کھڑا ہو گیا۔وہ اس لئے کہ آج جس قدر آر ایس ایس مضبوط و مستحکم نظر آتا ہے۔وہ سب اقتدار کی ہی بدولت ہے۔چنانچہ موہن بھاگوت مودی اور شاہ کے خود عنانیت والے رویے سے پریشان ہو اٹھے۔ان کے پیش نگاہ اب آر ایس ایس کے باہم خود اپنا وجود خطرے میں نظر آنے لگا۔بالآخر موصوف کو ذرائع ابلاغ میں آکر اپنے دل کی بھڑاس نکالنا پڑا۔کیونکہ ان کے پاس سوا اس کے کوئی چارہء کار نہیں تھا۔ [email protected]

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا