جو پورے عالم کے لیے رحمت کا پیغام بن گیا:مولاناجاویدرضانعیمی
سرفرازقادری
مینڈھر؍؍بھارت صوفی سنتوں کا ملک ہے۔اسی لیے برسوں سے یہاں روحانیت کا بو ل بالا رہا ہے۔اس بات سے انکار بھی نہیں کہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ ان صوفیائے کرام کو مادی طاقتوں سے کڑا مقابلہ بھی کرنا پڑا۔ان اخوت ومحبت کا درس دینے والے دیوانوں کو ظالموں کے ظلم کا نشانہ بھی بننا پڑا۔مگر ہمیشہ ان امن کے سفیروں نے بھائی چارہ اور امن ومحبت کو فروغ دیا۔ اس کا اظہار مولانا جاوید رضا نعیمی امام و خطیب جامع مسجد مہرا شریف دبڑاج نے خطبہ جمعہ کے دوران کیاکہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے مل کر رہنے کی تعلیم دی۔ خدمت خلق کواپنی پوری زندگی کا نصب العین بنا لیا۔بلا تفریق مذہب وملت سماج کے ہر فرد کی خبر گیری کی اور ان کے ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا کام کیا۔ انہیں صوفیائے کرام کی جماعت میں ایک نمایاں نام سلطان الہند،عطائے رسول حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا آتا ہے۔ جن کے دم قدم سے نہ صرف یہ کہ ہندوستان میں اسلام کی بہاریں آئیں اور شجر اسلام کو ہریالی ملی بلکہ یہاں کے لوگوں کو زندگی جینے کا سلیقہ بھی میسرآیا۔ حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے بھارت میں آمد سے قبل یہاں معبودان باطل کی پوجا کی جاتی تھی۔ظلم واستبداد، حق تلفی اور قتل و غارت گیری کو عزت وشان تصور کیا جاتا تھا۔ سیدھے سادھے اور بھولے بھالے انسانوں کو مادیت کے جال میں پھنسا کر ان کو گمراہ کیا جا رہا تھا۔ ایسے پر خطر اور پر فتن ماحول میں حضرت خواجہ غریب نواز نے فرمان نبوی ؐ پر یہاں تشریف لاکر اس سر زمین کو انوار توحید و رسالت سے ایسا منور کیا اور باطل پر ستی کاقلع قمع فرماکر یہاں کے ذرے ذرے کو بھائی چارگی اور امن محبت کا ایسا درس دیا جو پورے عالم کے لیے رحمت کا پیغام بن گیا ۔حضرت خواجہ غریب نواز رحمۃ اللہ کا جذبہ خدمت خلق اور آپ کی انقلابی تعلیمات ہی کا نتیجہ ہے کہ آپ نے بلا تفریق مذہب وملت تمام لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی۔ جس طرح مسلمان آپ کے دربار پر انوار میں محبت و عقیدت سے آیاکرتے تھے ۔ٹھیک اسی طرح اس وقت کے بڑے بڑے راجہ مہاراجہ بھی آپ کے اخلاق و تعلیمات سے حد درجہ متاثر تھے۔جو آج بھی بدستور سابق جاری و ساری ہے کہ بھارت کا وزیر اعظم کوئی بھی ہو لیکن وہ خواجہ صاحب کے دربار میں اپنے عقیدت و محبت کا خراج ضرور پیش کرتا ہے۔ آپ نے اپنے اخلاق وتعلیمات کے ذریعہ اسلام کی ترویج و اشاعت نہایت خوش اسلوبی سے کی۔یہی وجہ تھی کہ آپ کے محض دہلی سے اجمیر تک کے سفر کے دوران کم وبیش نوے لاکھافراد مشرف بہ اسلام ہوئے۔چوں کہ آپ کی مبارک تعلیمات مسلمانوں کو موجودہ در پیش مسائل کا حل بھی ہیں اور امن کی بحالی اور بھائی چارہ کے فروغ کے لیے نسخہ کیمیا بھی ہیں۔