وسیم رضوی کی فکر جائز ہے!

0
0

بشریٰ ارم (جمشید پور )
شیعہ وقف بورڈ کے چیئرمین وسیم رضوی نے سرکار سے گذارش کی ہے کہ ” مدارس کے تعلیمی نظام کو بند کر دیا جائے ، یہاں کی تعلیم دہشت گردی کو فروغ دیتی ہے، مدارس بچوں کو دوسرے بچوں سے دور رکھتے ہیں ، انہیں سماج میں دوسرے بچوں سے رابطہ قائم کرنے نہیں دیتے ، انہیں دین سکھاتے ہیں اور یہ دینی تعلیم چونکہ خالص دینی تعلیم ہوتی ہے اسلئے بلوغت کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انہیں آئی ایس میں آسانی سے شامل کیا جا سکتا ہے ، مدارس کے نظام اسکے وجود نے ہی بچوں کو دنیاوی تعلیم سے دور رکھا ہوا ہے ، مدارس کو حاصل ہونے والے فنڈ پر بھی انہوں نے شک و شبہ کا اظہار کیا ہے "۔ وسیم رضوی کی اسطرح کی فکر اوراعتراضات نئے نہیں ہیں اس سے پہلے انہوں نے ہرے جھنڈوں پر موجود چاند تارے سے ہونے والے خطرے کا خدشہ ظاہر کیا تھا ،بابری مسجد کی منتقلی کی رائے سے بھی انہوں نے حکومت کو نوازا تھا، بابری مسجد کے مسائل کا حل نکالنے کیلئے انہوں نے اس پر فلم بھی بنائی تھی۔ انکے ان اقدامات سے مسائل کے حل حاصل تو نہ ہو سکے مگر میڈیا میں انکے افکار کی کافی چرچہ رہی جسکے سلسلے میں نیوز چینلز پر انکی موجودگی دیکھی گئی۔  اس بار جس نظام پر انہوں نے اعتراض ظاہر کیا جسے میڈیا میں بھی بہت شدت کے ساتھ جگہ دی گئی اسے آپ اور ہم غریبوں کے تعلیمی ادارے کے نام سے جانتے ہیں ، محبت کا پیغام دینے والی جگہ کے نام سے جانتے ہیں ، حق کی آواز بلند کرنے والے نظام کے نام سے جانتے ہیں، وہ نظام جو مسلم قوم کے ان بچوں کو محرومی میں مبتلا ہونے سے بچاتا ہے جنہیں کھانے کیلئے دو وقت کا کھانا ، پہننے کیلئے کپڑے اور پڑھنے کیلئے کتاب میسر نہیں ہوتی ، وہ نظام جو بچوں کی صلاحیتوں کو ختم ہونے سے بچاتا ہے ، وہ نظام جس نے اس قوم کے بچوں کو اردو کے الفاظ اور جملے سکھا کر کم از کم انہیں "تعلیم” نام سے متعارف کروایا ہوا ہے جس پر غیر تعلیم یافتہ ہونے کا ٹھپا لگا ہوا ہے ، جس کی تعلیمی پسماندگی کی تو ہر کوئی بات کرتا ہے مگر اسکو دور کرنے کی جسارت کوئی نہیں کرتا ، وہ قوم جسے سچر کمیٹی کے سفارشات کے نافذ ہونے کا اب تک انتظار ہے تاکہ اسکی نسلوں کا تعلیمی سلسلہ شروع ہو پائے۔ مدارس ہمیشہ سے اسلامی تعلیم کا گہوارہ رہے ہیں انکی بنیاد ہی اسلام کی تعلیم کو عام کرنے کیلئے ڈالی گئی ہے لیکن آج یہ مدارس اپنی خدمات سے بچوں میں آئی اے ایس اور آئی پی ایس بننے کا جذبہ اور جوش بھی پیدا کر رہے ہیں جسکی مثال ہے محمد اشرف جنہوں نے چینئی کے ایک مدرسہ سے تعلیم حاصل کی جوکہ مکہ مسجد کے نام سے مشہور ہے اور بعد میں یہیں کی اکیڈمی سے تیاری کر آئی اے ایس کا عہدہ اپنے نام کیا ۔ مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اس چراغ کی مانند ہیں جسکی روشنی سے سماج فیضیاب ہوتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں سے آزادی کی گونج اٹھی اور انگریزوں سے آزادی چھین لی گئی۔ مدارس کی تعلیم سے آراستہ بچے اپنے دین سے اور اپنے ملک سے خالص محبت کرتے ہیں ، مدارس کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کبھی لباس کی بنیاد پر کبھی تعلیم کی بنیاد پر کبھی ان مدارس کو حاصل ہونے والے فنڈ کی بنیاد پر ، لیکن ان سبھی الزامات کے پیچھے جو نظریہ کام کرتا ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح مسلمانوں سے اسکی شناخت چھین لی جائے ، کس طرح مدارس کے بچوں کو احساس کمتری میں مبتلا کر دیا جائے تاکہ وہ اس تعلیم سے دوری اختیار کر لیں جو انکی دنیا اور آخرت کو سوارنے کا کام کرتی ہے۔ وسیم رضوی کے تازہ الزامات بھی اسی تناظر میں دیکھیں جا رہے ہیں۔ مسلمانان ہند نے بھی انکی اس رائے پر غم کا اظہار کیا ہے۔اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسدالدین اویسی صاحب کا کہنا ہے ” وسیم رضوی آر ایس ایس کی کٹھپتلی ہیں ” ہمیشہ مدارس کی فکر میں سرگرداں رہنے والے افراد مدارس کو مارڈنائیز کرنے کی شگوفہ بازی کرتے رہتے ہیں لیکن ان سرکاری اسکولوں کو بھول جاتے ہیں جن کی حالت تعلیمی اعتبار سے مدارس سے بھی بدتر ہے ، ان مدارس میں کم از کم ایسا تو ہے کہ ماں باپ نے بچوں کو جس تعلیم کی حصولیابی کیلئے بھیجا ہوا ہوتا ہے انہیں وہ تعلیم پوری ایمانداری سے دی جا رہی ہوتی ہے سرکاری اسکولوں کی مانند تعلیم کے نام پر دھوکہ تو نہیں ہو رہا ہوتا۔ اتر پردیش میں ہی نہ جانے کتنے سرکاری اسکول ہیں جہاں پرائمری کیا ہائی اسکول کے بچوں کو بھی لکھنا پڑھنا نہیں آتا ، کیا کسی نے کہا کہ ان اسکولوں کو بند کر دینا چاہئے اگر یہ اسکول نہیں ہوں گے تو والدین خود ہی بچوں کو اچھے پرائیویٹ اسکولوں میں داخل کروائیں گے ، نہیں ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہ حل نہیں تو پھر مدارس کیلئے دوہرا رویہ کیوں ؟ آخر مدارس کے حق میں چیخ چیخ کر آواز بلند کرنے والی میڈیا سرکاری اسکولوں کی بد حالی پر خاموشی کیوں اختیار کر لیتی ہے ؟ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف مزاہب کے لوگ رہتے ہیں اور ملک کا خوبصورت آئین مذہبی آزادی کا حق فراہم کرتا ہے یہاں ہر شہری یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی تعلیم کا نظام قائم کرے اور اپنے عقائد پر عمل پیرا رہے ، تب ہی تو ہم نے دیکھا کنبھ کے موقع پر پر یاگ راج کی پوتر دھرتی پر اپنے عقائد کے علمبردابنے ہوئے عزت مآب سادھوو¿ں کو کہ کسطرح انہوں نے ہندو مذہب ، کی خوبصورتی کو خود میں سمیٹا ہوا ہے اور زندہ رکھا ہوا ہے اپنی آنے والی نسلوں کو اپنا شناختی پیغام پہنچانے کیلئے، کس طرح اپنے گھروں سے دور ، بغیر کپڑوں کے تپسیا میں لین ہیں ، کس قدر خوبصورت لوگ ہیں اپنے مذہب کیلئے زندگی کی لذتوں کی قربانی دے رکھی ہے۔ اپنے مذہبی عقائد کو زندہ رکھنے کیلئے مذہبی تعلیم حاصل کرتے ہیں ٹریننگ لیتے ہیں پھر اس پر عمل کرتے ہیں یہ مذہبی تعلیم چاہے وہ مدارس کی ہو یا کسی مٹھ کی یا کسی آشرم کی آئین میں دیے گئے حق سے جدا نہیں اسی کا حصہ ہیں ہماری تہذیب ہیں جسکے نظام کو بند کر دینے کی التجا کرنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا