مسلمان! سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔

0
0

 

 

از: آصف جمیل امجدی (انٹیاتھوک،گونڈہ)
رکن: تنظیم فارغین امجدیہ2010؁ء
asifamjadi92@gmail.come

میرا اپنا ذاتی تجربہ ہے(سب کا اتفاق ضروری نہیں)کہ جب موسم سیاست آتا ہے۔تو سیاسی بادل ووٹرس کے بنجر دلوں کو شادابی عطا کرنے کے لیے ایک جیسا بارش نہیں برساتاہے۔جو چشم ذی شعور سے قعطی پوشیدہ نہیں۔میں سارے ووٹرس کے وقار و منزلت بتانے کے لیے صفحۂ قرطاس پر اپنی بیش قیمت توانائیاں صرف کرنے کے لیے قلم کو نہیں پکڑا ہوں۔ اور نہ ہی ہمیں اس کی چنداں ضرورت ہے۔ بس ہماری مسلم برادری قوم و ملت کی تحفظ و بقا کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جاۓ،اور یہ طاقت کبھی متزلزل نہ ہو یہی میرے دیرینہ خواب ہیں۔مسلمانوں کو اپنی طاقت کا اندازہ اس سے لگانا چاہئےکہ آج ہم گروپ در گروپ بٹے ہوۓ ہیں،پھر بھی ہر سیاسی لیڈر کی للچائی نگاہیں ہمیں ہی دیکھ رہی ہیں۔لیکن ہم نے اس مصلحت کو سمجھنے کی کوشش نہ کی۔ اور اگر ہم سیاسی اعتبار سے متحد ہو جائیں،جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔اور سر جوڑ کر یہ غور و فکر کریں کہ جب اسلامی قوانین کی بیخ کنی کی جاتی ہے۔تو سنسد میں ہماری فکر کرتے ہوۓ کون مسلم سیاسی رہنما اپنی آواز کو بلند کرتا ہے اور ہماری کاری ضرب پر مرہم کون لگاتا ہے؟۔ پھر اسی کو ووٹ دے کر اپنا مضبوط رہنما چنیں۔ الیکشن کے وقت میں برساتی مینڈک کی طرح سبھی نیتا اپنے اپنے سیاسی اسٹیج پر مسلمانوں کے حقوق کے لیے چیختے چلاتے ہیں۔لیکن ہمیں ان کی کوئی پرواہ نہیں کرنی ہے۔ بل کہ جو مسلم قوم و ملت کی سالمیت کی بقا کی آواز اٹھاۓ، مسلمانوں کو اپنے اور آنے والی نسلوں کی مفاد کے لیے اسی کو ووٹ دیں۔کیوں کہ ہر قوم اپنے مفاد کے لیے برسہا برس سے جنگی میدان میں ہے۔اور اگر آج قوم مسلم نے ووٹ کی اہمیت کو سمجھ کر اپنی حالت نہیں بدلی،تو ان کی بربادی پر زمانے کے لیل و نہار بھی مرثیہ خواں نہیں ہوں گے۔ وقت کی سب سے اہم ضرورت اتحاد ہے جسے ریڑھ کی ہڈی کہا گیا ہے۔ قوم مسلم کے آپسی اختلافات نے جو نشیب و فراز دیکھے ہیں شاید ہی اور کسی قوم نے کبھی دیکھا ہو‌اتحاد ایسی خدا داد غیبی طاقت ہے کہ جب تک اس کے افراد میں یکجہتی اور ہم آہنگی نہ ہو،ملی اتحاد کے بغیر ترقی اور خوش حالی کا تصور بھی خام خیال ہے۔ یہاں تک کی کوئی بھی قوم عزت و آبرو اور وقار و احترام کا مقام آپسی اتحاد کے بغیر پانے کا خیال بلکل دل سے نکال دے۔آج ملکی اور عالمی سطح پر بھی مسلمانوں کے خلاف جس طرح حالات بناۓ جارہے ہیں وہ ہر چشم بینا کے لیے تشت از بام ہے۔ خون مسلم ارزانی کی داستاں زبان زد و عام ہے۔ قوم مسلم کو سب سے زیادہ گروہ بندی نے نقصان پہنچا ہے۔آئیے گروہ بندی کے لازوال نقصان کا احساس کرتا چلیں۔”لڑاؤ اور حکومت کرو” یہ کوئی پرانی کہاوت نہیں ہے بل کہ قومی یکجہتی میں غیبی روح پھونکنے کا ایک بہترین نعرہ ہے۔ جسے شاید بھارت کی جنگ آزادی کے موقع پر انگریزوں نے اپنی قوم کو متحد رکھنے کے لیے یہ نعرہ دیا تھا۔ کیوں کہ جنگی امور کے ماہرین اسے ایک کاری ہتھیار گردانتے ہیں۔ اور واقعی! یہ ہے بھی ایک مہلک ہتھیار !!! عموماََ جنگ کے دوران اگر آپ مخالف فوجوں کے اندر بغاوت اور پھوٹ ڈالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ آپ کے لیے بہت بڑی کامیابی شمار ہوتی ہے۔اس سے آپ کو فتح و کامرانی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑی بڑی اقوام اور ادارے باہنی نزعات اور گروپ بندی سے ٹوٹ پھوٹ اور زوال کا شکار ہوۓ۔باہمی گروہ بندی سے جہاں آپ کی اجتماعی قوت انحطاط اور کمزوری کا شکار ہوتی ہے۔وہاں دشمن قوتوں اور آپ کے بدخواہوں کے لیے یہ خوشی اور فرحت و سرور کا سامان ہوتی ہے۔ یقیناً آپ کو یہ بات پسند نہیں کہ آپ کے دشمن آپ پر ہنسیں۔ آپ کی کمزوری اور بدحالی پر خوشیوں کے شادیانے بجائیں۔ لگے ہاتھ اتحاد و اتفاق کے فوائد کا بھی جایزہ لیتے چلیں۔ اتحاد ایسی نعمت ہے جسے اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں "نعمت اللہ” اللہ عزوجل کی خصوصی نعمت قرار دیا ہے۔ اتحاد ہر قوم کی شان و شوکت اور عزت و وقار میں اضافہ کرتا ہے۔ آپس میں اتحاد و اتفاق کی وجہ سے ہمدردی اخوت و محبت پیدا ہوتی ہے۔اور ہمت و حوصلہ بھی بڑھتا ہے۔ سیاسی میدان ہو یا کوئی دوسرا لیکن کامیابی انہی کی قدم بوسی کرتی ہے جو اتحاد و اتفاق کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ اگر اس بار اسمبلی انتخابات میں قوم مسلم نے اتحادی طاقت کو سمجھ لیا تو یقین مانیں کامیابی کا پرچم ہمارے ہی ہاتھوں میں ہوگا۔ ابھی بھی وقت ہے مسلمانو! جاگ جاؤ اپنے وجود اور بقا کی جنگ حکمت و دانائی سے لڑو۔ میں شکر گزار ہوں اپنی جماعت کے شاہین صفت جیالے علماۓ کرام کا (مولانا زاہد علی مرکزی صاحب قبلہ کالپی شریف۔چیئرمین تحریک علماۓ بندیل کھنڈ__________!!! مولانا شاہد علی مصباحی صاحب قبلہ جالون__________!!! مولانا صادق مصباحی صاحب قبلہ________!!! مولانا غلام مصطفے
نعیمی صاحب قبلہ و دیگرسیاسی تحریر لکھنے والے علماۓ کرام) مذکورہ علماے کرام قوم مسلم کے لیے ہمیشہ متفکر رہتے ہیں کہ مسلمانوں کا ووٹ بے کار نہ جانے پاے، تقریر و تحریر ہر طرح سے خدمت کےلیے کمر بستہ رہتے ہیں۔ تاکہ قوم مسلم کا تشخص برقرار رہے۔ اس جانب تنظیم فارغین امجدیہ 2010؁ء کے نوجوان علماۓ کرام کی بھی پیش رفتی قابل مبارک باد ہے۔ اعظم خان اور شہاب الدین کی مثالوں کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مسلمانوں کو دوسری پارٹیوں کے بینر تلے رہنے کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ہر کمیونٹی کی اپنی ایک پارٹی ہے، صرف مسلمان ہے جو دوسرے کے تلوے چاٹنے پر مجبور ہے۔
اویسی تنہا ایسا لیڈر نظر آتا ہے جس کی طرح باصلاحیت لیڈر کسی پارٹی میں نہیں ہے۔اویسی کے علاوہ موجودہ ہندوستان میں کوئی دوسرا مسلم لیڈر نظر نہیں آتا، اگر ہے تو بکے ہوئے زر پرست مولوی یا موروثی تنظیموں کے امیرانِ امت جو ایک کروڑ کے ڈیل میں سے 30 فیصد کی ادائیگی پر کھلا خط لکھنے بیٹھ جاتے ہیں۔علما اس امت کے ریڑھ کی ہڈی ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مستقبل کو ذہن میں رکھ کر اپنے مفادات کو سائڈ کرکے مسلمانوں کی سیاسی رہنمائی اور ذہن سازی کریں۔ ورنہ تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔(مولانا ناظم اشرف مصباحی) یقینا اگر تمام مسلم سیاسی لیڈروں کے قومی، ملی، سماجی و فلاحی کام کا جائزہ لیا جاۓ تو کرۂ سیاست کے نقشے پر اسدالدین اویسی صاحب کا نام ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اور سیاسی فیلڈ پر مسلم قیادت میں آپ کا قد کافی بلند بھی ہے۔ آزادئی ہند کے بعد سے مسلمان احساس کمتری اس طور پر شکار ہوۓ کہ اپنی کوئی مسلم پارٹی بنائی ہی نہیں۔ بس دوسرے کے پرچم تلے راحت و سکون محسوس کرتے رہے۔ یہی وجے اب تک بنی رہی کہ ہر سیاسی لیڈر مسلمانوں کو اپنے اعتبار سے استعمال کرتے، اور جب غرض نکل جاتا، تو انہیں اٹھا کر ڈسٹ بین میں ٹشو پیپر کی طرح بعد استعمال ڈال دیاجاتا۔ لیکن گزشتہ کئی دہائیوں سے کافی مسلم لیڈر تیار ہوگئے ہیں۔ لیکن قوم مسلم کو بس ایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلمانوں کے حقوق کے لیے بے فکر بات کر سکے۔ حکیم یکس ٹو کی ایک لاجواب تحریر جو سوشل میڈیا پر ہر کس و ناکس کی فیس بک آئی ڈی پر شیئر کی ہوئی دیکھی جا سکتی ہے۔ ذرہ برابر بھی سیاسی شعور رکھنے والا شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا ہے۔ اترپردیش الیکشن میں کچھ قابل غور باتیں،(الف) اویسی کو ووٹ دینے کے نقصانات۔(١)مسلم سماج ہمیشہ کے لئے تنہا ہوجائے گا، ہندو مسلم کے درمیان کی خلیج مزید وسیع ہوگی.(۲) نفرت کی سیاست کو فائدہ پہنچے گا۔(۳) جو کچھ سیکولروں کے ذریعہ حاصل ہوتا رہا ہے مسلمان اس سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ (۴) سیکولر پارٹیوں کی ہار ہوگی اور بھاجپا دوبارہ اقتدار حاصل کرکے مزید مضبوط ہوگی اور ظلم و ستم کا ننگا ناچ اور بڑھے گا۔(ب) اکھلیش کو ووٹ دینے کے نقصانات۔ (۱) مسلم ووٹ کی بے وقعتی مزید بڑھے گی۔ (۲) مسلم مدعے سرد خانہ میں پڑے رہیں گے۔(۳) مسلم علاقوں سے غیر مسلموں کو کھڑا کیا جاتا رہے گا۔ (۴) مسلم نیتاؤں کو اسٹیج سے بھگایا جاتا رہے گا، قد آور مسلم نیتاؤں کو سائڈ لگایا جاتا رہے گا۔(۵) پارٹی اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے کسی سے بھی سودے بازی کرلے گی چاہے اس میں مسلمانوں کا نقصان ہی ہو۔(۶) مسلمانوں کی کوئی ذاتی رائے نہیں ہوگی۔(ج) اکھلیش کو ووٹ دینے کے فائدے۔(۱) بھاجپا کی ہار ہوگی، اور سرکاری لیول پر ظلم و ستم کا جو ننگا ناچ ہوتا ہے وہ کچھ حد تک کم ہوگا. اور مسلمان وقتی طور پر ہر سکون کی سانس لے سکیں گے۔(۲) سرکاری طور پر مسلم شرفا کو کچھ مراعات اور فوائدہ حاصل ہونگے۔(۳) شناخت کا مسئلہ، لنچنگ، مسلمانوں کا وجود وقتی طور پر محفوظ ہوجائے گا.۔(۴) مسلمانوں کو اپنا وجود سمیٹنے اور مضبوطی سے کھڑے ہونے کا کچھ وقت مل جائے گا۔(د) اویسی کو ووٹ دینے کے فائدے۔(۱) مسلم قیادت کو فائدہ پہنچے گا، اور صوبے میں مسلم قیادت مضبوط ہوگی۔(۲) مسلمانوں کا بکھرا ہوا ووٹ متحد ہوگا، اور مستقبل میں کسی فیصلے کی پوزیشن میں ہوگا۔(۳) سیکولر پارٹیاں مسلم قیادت سے سودے بازی اور معاہدہ کرنے کے لئے مجبور ہونگی کیونکہ ۲۰ فیصد ووٹ کو کوئی بھی پارٹی ضائع نہیں کرنا چاہے گی۔(۴) مسلم مدعے برابر اٹھتے رہیں گے۔(۵) مسلم نیتاؤں کی غیر بھاجپائی اسٹیجوں پر وقعت بڑھے گی اور کوئی ان کی بے عزتی کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔خلاصہ: اکھیلیش کو ووٹ دینے میں ہمیں وقتی سکون و راحت ملنا طے ہے، لیکن یہ سکون بس وقتی ہوگا جیسے کانگریس کے دور اقتدار میں ہوتا تھا، لیکن مستقبل میں مستقل طور پر اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا، جبکہ اویسی کو ووٹ دینے کی صورت میں وقتی نقصان ہوگا، جس ظلم و ستم کے ہم شکار ہیں اس میں اضافہ کے بھی امکانات ہیں، لیکن مستقبل میں مستقل فائدے حاصل ہونے کے امکانات ہیں۔لہذا میری رائے یہ ہے کہ لمبے اور مستقل فائدے کے حصول کے لئے تھوڑا اور ظلم برداشت کرنے میں کوئی پریشانی

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا