نہاں نورین (نور)ریسرچ اسکالر، شعبہ اردو ،یونی ورسٹی آف حیدرآباد
اہل تلگو میں یہ قول مشہور ہے۔ ’’دیشا بھاشا لندو تلگو لیسّا‘‘ معنی ہیں دیش کی زبانوں میں تلگو عمدہ زبان ہے۔’’تینے لانٹی تلگو‘‘ شہد جیسی تلگو زبان… ہر کسی زبان داں کو اپنی زبان عزیز ہوتی ہے لیکن ہم اسی تک محدود ہوکر رہ جاتے ہیں۔ اپنی زبان کے علاوہ دوسری زبانوں کو سیکھنے کا عمل موجودہ دور میں نہیں رہا۔ تلگو کے حوالے سے بات کریں تو اردو خواتین شعراء کی طرح تلگو ادب میں بھی ایسی کئی ایک شعراء ہیں جنہوں نے تلگو ادب میں اپنا نمایاں مقام حاصل کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے سماج میں ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائی تلگو ادب کی شروعات گیارھویں صدی میں ہوتی ہے اور دوسو برس تک کوئی خاتون ادبی منظر نامے میں نظر نہیں آتی ہے کیونکہ خواتین مذہبی اور تہذیبی روایات کی قیدوبند میں ہی رہی ہے پندرھویں صدی عیسوی کے آغاز میں خواتین نے ادبی قدم رکھا اور انیسویں صدی کے آخر تک سماج کی برائیوں جیسے مذہبی ذات پات، ستی کی رسم، شادیوں میں جہیز، جسم فروشی، مردوں کی بالادستی، خواتین پر ظلم و ستم، نابالغ لڑکیوں کی شادی، جیسے موضوعات پر بہت کچھ لکھا اور بیسویں صدی کی شروعات کے ساتھ تلگو نسائی ادب نے کروٹ بدلی ایسی ہی ایک شاعرہ ہیں سری لتا
سری لتا کا شمار فیمی نسٹ شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق آندھرا پردیش کے ضلع گنٹور سے ہے۔ شادی کے بعد محبوب نگر منتقل ہوئی۔ سری لتا نے ایم اے، ایل ایل بی تک تعلیم حاصل کی۔ سری لتا نے شعر گوئی کا آغاز 1984 سے کیا۔ سری لتا کو جتنی محبت تلگو سے تھی اتنی ہی دلچسپی اردو زبان سے بھی تھی اور وہ اردو زبان کی قدر دان بھی تھیں۔ سری لتا تلگو ادب کی جدید شاعرہ ہیں۔ یہ بڑی ہی جذباتی ہیں۔ سر لتا ایک فیمی نسٹ شاعرہ ہیںلیکن ان کا فیمی نزم نرم اور متوازن ہے۔ سر لتا تلگو کی ایک جذباتی اور ابھرتی ہوئی شاعرہ ہے۔ سری لتا کا عورت پن ان کی شاعری کی پْرکشش کا ضامن ہے۔سری لتا کی شاعری کی عمر بہت ہی کم ہے لیکن اس مختصر سے عرصے میں انہوں نے اپنی شناخت بنالی۔ ان کی شاعری عورت کی زندگی کی ترجمانی کرتی ہے۔ ان کی شاعری نے عورت کو نہایت ہی بلند مقام عطا کیا۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعہ نسوانی زندگی کی پابندیوں، آزادیوں، تمناؤں، آرزوؤں کی نمایندگی کرتی ہے۔چونکہ تلگو میں نثری نظموں کا رواج ہے اسی لیے سری لتا نے پابند نظمیں لکھیں اور گیت بھی لکھے. ان کے گیتوں میں بھی نظموں کا مزاج ملتا ہے۔سری لتا نے اپنی نظموں میں جہاں اپنے خدمات و احساسات کی عکاسی کی ہے۔ تو دوسری طرف ان کو اپنی مٹی سے بھی محبت تھی اور قدیم ساتھ ہی قدیم روایات سے بھی اپنا رشتہ برابر جوڑے رکھا سری لتا کو نے عورتوں کو یہ تلقین کی تھی کہ وہ اپنے عورت ہونے پر فخر محسوس کرے اور اس بات کی تلقین کی کہ عورت نسوانیت کا دامن چھوڑ کر مردانہ رویہ اختیار کرے اور نہ ہی مردانہ ذہن سے سوچے اور اسی کی طرح جینے کی کوشش کرے۔ سری لتا نے عورتوں کے متعلق یہ کہا عورتیں اپنے عورت پن کے تحفظ ساتھ ساتھ کاروبار زندگی میں مرد کے برابر حصہ ادا کرنے کی قائل ہے۔ سری لتا کی شاعری جنس مقابل کی نفسیاتی کمزوریوں اور مردوں کی بالادستی کے خلاف جذبات اور خیالات کا اظہار ہے۔
سری لتا نے تلگو میں ایک کتاب ’’دھکارم‘‘ کے نام سے لکھا۔ سری لتا نے اس کتاب میں لکھتی ہیں کہ ان کو ایسے قانون سے انحراف ہے جس میں میاں بیوی کی مشترکہ اولاد کو صرف باپ کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے اور ماں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ عورت جو نو ماہ تک بچے کو اپنی کوکھ میں رکھتی ہے اور خون دے کر اس کی پرورش کرتی ہے۔ اپنے دل کی دھڑکن سے بچے کی دل کی دھڑکن کو دھڑکنا سکھاتی ہے۔ پھر اس کو جنم دے کر ایک نئی دنیا سے روشناس کراتی ہے۔ پھر جب وہ بڑا ہوجائے تو اس کو خون دے کر اس کی پرورش کرتی ہے۔ اس طرح بچہ اس کی آغوش میں بڑھتا ہے ۔کھیلتا ہے، ہنستا ہے روتا ہے اور رو کر اپنی گفتگو کی ابتداء کرتا ہے تب ماں اس کی زبان کو سمجھتی ہے اور بچے کی زبان صرف ماں کو ہی سمجھ آتی ہے اور پھر جب اس کی منہ سے جو پہلا لفظ نکلتا ہے وہ ماں ہوتا ہے ان سب کے باوجود مردوں کا بنایا ہوا قانون بچے کو باپ سے منسوب کرتا ہے لیکن اگر سری لتا کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ سب سری لتا کہ ذاتی اور ایک طرفہ خیالات ہیں۔ جس میں ممتا پن کی آواز زیادہ سنائی دیتی ہے لیکن اگر سری لتا گھر کی دیواری سے باہر نکل کر دیکھیں تو دنیا کو جان پاتی اور یہ سمجھتی کہ بچے کو اپنی اقامت تک پہنچنے کے لئے روٹی اور کپڑے کے علاوہ تعلیم و تربیت ضروری ہے اور اپنے خاندان کو چلانے کے لیے مرد کو کتنی محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے اور ساتھ ہی کیا کیا قربانیاں دینی پڑتی ہیں تو وہ ہرگز ایک طرفہ فیصلہ نہیں کرتیں……
سری لتا کی ساری نظمیں متاثر کن ہوتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی پیش کشی بھی عمدہ ہوتی ہے کہا جاتا ہے کہ شاعری اور مصوری میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ مصور اپنے نظریے کی عینک سے جو کچھ بھی دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے تو اس کی تصویر بھی بنا دیتا ہے لیکن شاعر اپنے الفاظ کے ذحیرے سے اس میں موجود باطن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ جس میں جذبات اور احساسات کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے۔ سری لتا نے جتنی بھی نظمیں لکھی ان میں عورت کو بالاتر رکھا ان کی اہمیت و عظمت کو بتایا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر عورت نہ ہو تو تمہارا وجود باقی نہ ہوتا بغیر عورت کے مرد نصف انسان کہلاے گاعورت مرد کو اس کے وجود کا احساس دلاتی ہے اور خود عورت کے وجود کو حسن سراپا، حرف نزاکت کا نام دیتی ہے۔
سری لتا کی شاعری عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف احتجاجی شاعری کی۔ سری لتا نے شاعری میں جو بھی تجربے کئے وہ تلگو دنیا میں قبول رہے۔ ان کی زیادہ تر نظمیں تاثراتی ہیں۔ ان کی نظموں کے عنوانات عورت، الفاظ، کچھ دیر ذرا سا چپ کرلیں، ابارشن، بڑا ضدی ہے دل، محنت کش، آرزو، آثار، بھلا دو ہر رشتہ بے وفا کو، ہے سری لتا کی بعض نظمیں طنزیہ بھی ہیں. ان کی ایک تاثراتی نظم ملاحظہ ہو:
بھلا دو ہر اک رشتہ بے وفا کو
جنہیں تیری خوشیوں ترے غم
تری حسیت سے علاقہ نہ ہو
تری دوستی اور کمال ہنر سے خوشی بانٹ لینا بھی آتا نہ ہو
ترے دل کی گہرائیوں میں ذرا جھانک لینا بھی نہ آتا ہو
بھلادے مرے دل انھیں تو بھلادے
جو اپنے تھے زنجیر پا بن گئے وہ
عزیزوں کے تھے آستینوں میں خنجر
دیے ذخم خود چارہ سازوں نے مل کر
بھلادے مرے دل انھیں تو بھلادے
سنبھل جا ذرا اس سے پہلے مرے دل
جلاکر تجھے یاسیت راکھ کردے
تھے گھیر لے بے کلی ہر جہت سے
تجھے تشنگی کھوکھلی کرکے رکھ دے. بس اب توڑ دینا زنجیر پا کو
بھلادے ہر اک رشتہ بے وفا کو
یہ سری لتا کی نہایت ہی بہترین نظم ہے جو دل کو جنھوڑ کر رکھ دیتی ہے ساتھ ہی یہ سبق آموز نظم ہے جس میں شاعرہ لوگوں سے کہتی ہیں کہ جن کو ہمارے خوشی سے خوشی نہیں ہوتی نا ہمارے غم سے جو لوگ غمگین ہوتے ہیں اور ہماری قدر نہیں کرتے۔ نہ ہی ہمارے دل کی گہرائیوں تک پہنچتے ہیں۔ ان تمام رشتوں سے تعلقات رکھنے سے اچھا ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے ان رشتوں سے دوری اختیار کرنا ہی بہتر ہے اور اپنے دل سے یہ کہہ رہی ہے کہ ایسے بے وفا رشتوں کو بھلا دینا چاہیے اور یہ کہتی ہے کہ اے دل جس کو تو نے اپنا سمجھا اپنا مانا پوری وفاداری سے جن رشتوں کا ساتھ دیا وہی رشتے آج ترے پاوں کی زنجیریں بن گئی۔ سری لتا کی نظمیں قاری کو سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ ان کی نظمیں متاثر کن ہوتی ہیںاور فکر انگیز ہوتی ہیں اور عصر جدید کا انکشاف بھی کرتی ہیں۔ سری لتا کی شاعری میں خیالات کی گہرائی ہوتی ہے۔ ان کی زیادہ تر نظمیں حقائق پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان کی شاعری کا مقصد عورتوں کے سماجی موقف کو محسوس کرتے ہوئے اگر کوئی آنکھیں چونک اٹھتی ہیں تو اور کوئی دل دھڑکتا ہے کوئی ذہن بیدار ہوتا ہے اور کوئی معصوم دل پگھل جاتا ہے یا کسی دانشور سے خراج تحسین مل جاتا ہے تو اس وقت سمجھ آئے گا واقعی عورت کو اس کا مقام مل گیا۔
سری لتا کی شاعری زیادہ تر شاعری میں عورتوں کی زندگی کے گوناگو پہلو نظر آتے ہیں سری نے تا حیات اپنی شاعری میں عورتوں کے ظلم و ستم کے متعلق ہی لکھا ہے اپنے ذاتی تجربات اور احساسات کو اپنی شاعری میں خوبصورت انداز میں پیش کیا اور اسے شعری پیراہن میں ڈھال کر اظہار کے وسیلے کو اپنے احساس سے مالا مال کردیا۔ مرد کی برتری کے خلاف آواز بلند کرتے اور اپنی نسائی شناخت کو شعر و ادب کے توسط سے مضبوط اور برقرار رکھنے والی خواتین میں سری لتا کا شمار ہوتا ہے۔ خواتین زیادہ حساس ہوتی ہیں مگر احساسات کو چھپانا ان کے اظہار سے زیادہ پسند کرتی ہے اور ساتھ ہی حیا کے فطری تقاضے بھی شامل ہیں۔ ان کی شاعری لوگوں کے اندر مثبت فکر کو پیدا کرتی ہے اور انسان میں روشن خیالات کو بیدار کرتی ہے۔ ان کی شاعری کو استحصال کے خلاف استعمال ہونے والا شمشیر کہا جاسکتا ہے۔ ان کی شاعری میں خود کلامی اور مکالمہ دونوں صورتیں پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں استعاریں، تشبیہات اور مستعمل علامتیں زیادہ تر پائی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں خیالات کی گہرائی زیادہ تر ہوتی ہے۔ سری کی شاعری کے موضوعات حقیقت پر مبنی ہوتے ہیں۔ سری لتا نے دنیا کے لوگوں کی فطرت کو بھی بخوبی بتایا ہے کہ کس طرح لوگوں کی زندگی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں گزرتی ہے ایک دوسرے پر طنز کرتے ہیں جب لوگ محنت کی کھاتے ہیں اور پوری ایمانداری سے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں تو لوگ ان کو ادنی کہتے ہیں اور جو محنت کی کھاتے ہیں اور جو لوگ محنت نہیں کرتے ان کو نکما کہا جاتا ہے اور جو ڈٹ کر ہر ایک مشکل کا سامنا کرے تو اس کو ضدی کہتے ہیں :
جو محنت کی کھائی تو ادنی کہا
جو سستا لیا تو نکما کہا
اور جو ڈٹ کر رہا اس کو ضدی کہا
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو سری لتا کی شاعری عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے خلاف احتجاجی شاعری ہے ۔
*****