نئی دہلی،// پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے پار ستمبر 2016 میں ہندوستانی فوج کی سرجیکل اسٹرائک جگ ظاہر ہے لیکن اس سے تقریباً ایک دہائی قبل وادی کشمیر میں حضرت بل مسجد کو دہشت گردوں سے آزاد کرانے کے لئے اسی طرح کی مہم شروع کی گئی تھی اور ’آپریشن خاتمہ‘ اسی مہم کابیان ہے دو صحافیوں آر سی گنجو اور اشوینی بھٹناگر کی تصنیف کردہ کتاب ‘آپریشن خاتمہ’ مارچ 1996 میں جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر میں تاریخی حضرت بل مسجد کامحاصرہ کرنے والے دہشت گردوں سے آزاد کرانے کے لئے شروع کی گئی مہم کی زندہ کہانی ہے۔ پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ (ایس او جی) کی اس کارروائی میں جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے 22 کٹر دہشت گرد مارے گئےتھے۔
اس سے قبل 1993 میں جے کے ایل ایف کے ایک گروپ نے درگاہ حضرت بل پر قبضہ کرلیا تھا اور 32 دن کی بات چیت اور بین الاقوامی میڈیا کی سرخیوں کے بعد دہشت گردوں کو پاکستان جانے کی اجازت دی گئی تھی۔
مارچ 1996 میں جب جے کے ایل ایف کے کمانڈر شبیر صدیقی اور ان کے 20 سے زیادہ ساتھی دہشت گردوں نے درگاہ حضرت بل پر قبضہ کرلیا تھا تب ‘آپریشن خاتمہ’ شروع کیا گیاتھا۔ ایس او جی چیف اور ایس ایس پی فاروق خان مقدس مسجد کو آزاد کرانے کے لیے پرعزم تھے۔
کتاب میں، مسٹر خان کے خطرات مول لینے، اعلیٰ حکام کو راضی کرنے اور تاریخی مہم شروع کرنے کے سلسلے کی تفصیلات ہیں۔مصنفین نے کتاب میں لکھا، ’’پہلے قدم کے طور پر دہشت گردوں کو مرکزی درگاہ چھوڑنے اور ملحقہ عمارت میں جانے کے لیے آمادہ کیا گیاتھا۔ جب بات چیت جاری تھی، اسی دوران صدیقی کو پی او کے سے جے کے ایل ایف کے سربراہ امان اللہ خان کے ذریعہ ہدایت دی گئی تھی کہ وہ واپس مسجد میں چلے جائیں۔ پیغام کوانٹرسیپٹ کیا گیا اور مسٹر خان کی قیادت میں ایس او جی نے دہشت گردوں کا محاصرہ کیا۔ دہشت گردوں کو ہتھیار ڈالنے کا چیلنج دیا گیا لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ اس کے بعد ایس او جی نے دہشت گردوں کی اس حرکت کا منہ توڑ جواب دینے سے پرہیز نہیں کیا۔ ایس او جی کی اس ‘آپریشن خاتمہ’ مہم میں 22 کٹر دہشت گرد مارے گئے تھے۔
کشمیر کا گہرائی سے احاطہ کرنے والے گنجو اور بھٹناگر نے کتاب میں ‘آپریشن خاتمہ’ کے ساتھ ساتھ اس سے متعلق واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ مصنفین نے کہا کہ ‘آپریشن خاتمہ’ کی اس بنیادی حقیقت کو واضح کیاہےکہ جمہوری ڈھانچے کے اندرر جہادیوں کے ساتھ بات چیت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ بالآخر بپھرے ہوئے بیل کو سینگوں سے پکڑنا اورانہیں زمین پرٹکانا یا پٹخناہوگا اور اس تناظر میں سیاست دانوں کو اس سےدورہونا چاہیے۔
گنجو نے یو این آئی کو بتایا کہ دہشت گردی کا واحد حل انسداد دہشت گردی آپریشن ہے۔ جمہوری سیاسی عمل کے ذریعے شکایات کے گفت و شنید کے حل کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ مذہبی جنونیت میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ میری بات مانو ورنہ گولی مار دوں گا، وہ یہی کہتے ہیں۔
مصنفین نے بتایا کہ یہ کتاب ایک بین الاقوامی فلم پروڈکشن ہاؤس نے بھی ویب سیریز بنانے کے لیے حاصل کی ہے۔