فرقہ واریت کا جنون

0
0

 

محمد اعظم شاہد

سب جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں پچھلے سات برسوں سے فرقہ واریت نے شدت اختیار کرلی ہے -حکومت پر قابض ہونے والی بھارتیہ جنتاپارٹی پورے ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی کوششوں میں برسرپیکار ہے – ہندوتوا اور ہندوراشٹر کا تصور ان کے نزدیک بے حد اہم ہے -ملک میں امن وامان اور سکھ چین سے تمام مذاہب کے ماننے والے باہمی یگانگت سے رہیں – اس جانب لگتا ہے کہ حکومت کی توجہ نہیں کے برابر ہے وطن پرستی اوروطن سے محبت ان کے نزدیک ہندو نیشنلزم ہے- آئے دن مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں خوف واضطراب پیدا کرنے کی کوششیں ہوتی رہتی ہیں – خوف وہراس کا ماحول عام کرنے کی جانب شرپسند عناصر چاروں طرف پھیلے ہوئے ہیں- ہر شرپسند جس کی سرپرستی زعفرانی حکومتیں کرتی آئی ہیں گویا یہ انسانی بم کی طرح عام زندگی کا سکون درہم برہم کرنے اپنا کام منصوبہ بند طریقے سے کرتے آرہے ہیں – گڑگاؤں اور تریپورہ میں جس طرح مسلمانوں کو شرپسندوں نے اپنے عتاب کا نشانہ بنایا وہ جگ ظاہر ہے – کھلے عام نفرتوں کی ہولی کھیلی جاتی ہے اورحکومتیں روایتی خاموشی اختیار کئے ہوئے ان عناصر کے حوصلے بندھاتی رہتی ہیں -ایک ان کہی بے تابی، بے چینی کا شکار ہیں ، ہندوستانی مسلمان، اسی لئے کبھی اذان کا مسئلہ یا پھر کھلے میں نماز کی ادائیگی یا پھر مساجد کو نشانہ بنایا جاتا ہے -مسلمانوں کے ووٹوں پر اپنی چاندنی چمکانے والی سیاسی پارٹیاں بھی ایسے موقعوں پر خاموش ہوجاتی ہیں – ویسے قانون کی رکھوالی کرنے والے حکام بھی انجان بن کر گوشۂ عافیت تلاشتے رہتے ہیں -حیرت ہوتی ہے کہ ملک کا آئین اور اس کے اقدار کی کھلے عام پامالی کے باوجود بھی دور دور تک کوئی آواز نہیں اٹھتی- ہمارے ہاں اپوزیشن پارٹیاں بھی اپنے مفاد کو عزیز رکھتی ہیں -حق وانصاف کیلئے اورمظالم کی روک تھام کیلئے کوئی مؤثر کاوش نظر نہیں آتی-
کبھی زبان اردو کو مسلمانوں سے جوڑ دیا جاتا ہے -کبھی دینی مدارس کو نشانہ بنایا جاتا ہے مسلمانوں کی معاشی ترقی کی رفتار کو کمزورکرنے کی سازشیں رچی جاتی ہیں ، ایک طرح سے موقع پرست، مفاد پرست اورشاطر فرقہ پرست کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کو اپنی سازشوں کا نشانہ بنانے میں مصروف رہتے ہیں -کھلے عام ہورہے ایسے غیر آئینی اورغیرانسانی رویہ کی مذمت اور جوابدہی کیلئے کوئی مؤثر آواز سنائی نہیں دیتی –
شہروں اورراستوں کے نام بدلنے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے -بالخصوص وہ نام جن میں مشترکہ تہذیب کی وراثت نظر آتی ہے وہ گھٹنے لگے ہیں -تاریخ کی نصابی کتابوں میں ان شخصیات کا تذکرہ اورنام نہاد کارنامے ٹھونسے جارہے ہیں جن کا تحریک آزادی یا پھر حصول آزادی کے بعد ملک کی تعمیروتشکیل میں کوئی کردار ہی نہیں رہا وہ نصابی کتابوں میں جگہ پارہے ہیں -وہ شخصیات جیسے علامہ اقبال جنہوں نے ملک کی عظمت کے گیت گائے، مولانا ابوالکلام آزاد جنہوں نے ملک کے تعلیمی نظام میں انقلابی اورقابل تحسین خدمات انجام دیں -ٹیپو سلطان جنہوں نے انگریزوں کی سامراجیت کے خاتمے کیلئے جنگیں لڑیں اوروطن کی آبرو اور آزادی کیلئے شہادت پائی ایسے بے شمار نام ہیں جنہیں فراموش کرنے اورمنصوبہ بند طریقے سے بھلانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں-
ایسی روش چل پڑی ہے کہ گاندھی کے قاتل کی تعریف وتوصیف ہوتی ہے وہ سادھو سنت جن پر قتل وغارت گری اورفسادات کی آگ پھیلانے کے الزامات ہیں ،انہیں بہ آسانی ضمانتیں مل جاتی ہیں -وہ انتخابات جیت کر پارلیمنٹ جاتے ہیں اور پھر اپنی شرپسندی اور اشتعال انگیزی سے وہ باز نہیں آتے اور یہ سر اٹھائے اپنی شان جگاتے پھرتے ہیں- بے قصور نوجوان اکثر پولیس کے جبراور یکطرفہ رویہ اور شرپسندوں کے ساتھ ان کے گٹھ جوڑ سے قید کی سلاخوں کے پیچھے اپنے مقدمات کی شنوائی اوراپنی رہائی کیلئے تڑپتے رہ جاتے ہیں – کئی بار اب ضمانت پر نہ توجہ ہوتی ہے اور نہ ہی انہیں اہمیت سے دیکھا جاتا ہے – اس عظیم المرتبت جمہوریت میں اپنی قربانیوں اورخدمات سے اپنا فعال رول ادا کرنے والے مسلمانوں کو ملک کے دشمن ثابت کرنے کی کارستانیاں کسی بھی طرح ملک کی سا لمیت کے حق میں نہیں ہیں -یہاں فرقہ واریت نئے رنگ دکھانے لگی ہے – ہیبت ناک رنگوں سے ملک کو داغدار ہونے سے بچانے اور پاک کرنے کی ضرورت ہے –

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا