اولیاء کی قبریں حکومتوں تک محدود نہیں بلکہ وارث تخت کو بھی اللہ کے حکم سے جنم دیتی ہیں ؟؟؟؟

0
0

شہنشاہ اکبر کو وارث تخت سلطان ہند خواجہ محی الدین چشتی ؒ کے دربار سے عطا ہوا؟؟؟
تحریر :لیاقت علی چودھری

9419170548
اولیاء کے مقبرے کو اینٹوں او پتھروں کا ایک ڈھیر سمجھنے والے اور ایک بے جاں قبر زندوں کو کیا دی سکتی ہے گمان رکھنے والے آئیں آج آپ کو دنیا کی حقیقت سے روشناس کرواتے ہیں۔جلال الدین جسے دنیا اکبر بادشاہ کے نام سے جانتی ہے۔ باپ کی موت کے بعد بچپن ہی تھا اور نتیجہ یہ ہوا کہ تعلیم سے محروم ہو گیا اور وقتی بادشاہ بھی قائم ہو گیا۔ بد عقیدہ اور ملک کے برہمن بھی اس کے دائیں بائیں رہنے لگے۔ اور ہوا یہ کہ اکبر نے اپنا مذہب ” دین الہی”ایجاد کر لیا۔ اکبر کی اس نیٹ دین کے سامنے ہندو دھرم کا زیادہ غلبہ تھا۔ بادشاہ کے سامنے آگ روشن کی جاتی آتش پرستی کا جواز پیدا ہو گیا۔ اپنی دوآشیانہ منزل میں اکبر سورج کے سامنے سرجکھائے دیر تک بیٹھا رہتا تھا۔ یہ سورج کی پوجا کی ابتدا تھی۔ اکبر سفر اور قیام دونوں میں گنگا کا پانی استعمال کیا کرتا تھا۔ جب لاہور میں قیام کرتا تو بادشاہ ہندوں کے مشہور تیرتھ ستھان ہریدوار کا پانی پیتا تھا۔ اور تمام کھانے گنگا جل میں پکائے جاتے تھے۔ آگ، سورج کے سامنے سرجکھائے اور گنگا جل پینے کے بعد اکبر نے تمام ہندوں کو خدا ئے واحد کا پرستار قرار دے دیا تھا۔ اکبر نے گائے کا زبحیہ حرام قرار دے دیا۔ اکبر نے تمام قصابوں کو عام آبادی سے علحیدہ کر دیا جو لوگ اس برادری سے تعلق رکھیں گے ان سے تاوان وصول کیا جائے گا۔ قرآن نے سور اور اس کے گوشت کو حرام قرار دیا ہے اس حکم پر اکبر نے احتراض کرتے ہوئے کہا اگر سور کو اس کی بیغیرتی کی وجہ سے حرام قرار دیا ہے تو شیر یا اس طرح کے دوسرے جانوروں کو حلال ہونا چاہیے تھا۔ اکبر کی گستاخی یہ تھے کہ وہ الالعلان مذہب اسلام کا مذاق اڑانے لگا۔ ایک دن اس نے اپنے درباریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملت اسلامی کا سارا سرمایہ بدعقلی کا مجموعہ ہے۔ معازاللہ۔
دراصل شیخ مبارک، ابوالفضل، فیضی اور برہمنوں نے اکبر کی ایسی تربیت کی تھی کہ ان کی زبانیں اکبر بولنا شروع کرگیا تھا۔
دیوان خانہ میں کسی کی مجال نہیں تھی کہ سامنے وہ نماز ادا کر سکے۔
اکبر نے صاحب نصاب لوگوں پر زکوات بھی معاف کر دی تھی۔
اکبر نے دین الہی کی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے سجدہ تعظیمی کی بنیاد ڈالی۔ بادشاہ کا دیدار کرنے والے بغیر کسی جھجک کے اکبر کو سجدہ کرتے۔
دین اسلام کے خلاف یہ کھلی بغاوت تھی۔
اسلام نے ایسے تمام سجدوں اور تعظیمی آداب کو قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا ہے۔
اکبر کے مشیروں نے ماضی کی ایک روایت سے فائدہ اٹھایا اور جاہل بادشاہ کو یقین دلایا کہ سجدہ تعظیمی دراصل خدا کو ہی سجدہ کرنا ہے۔
ملاقات کے وقت اسلام علیکم کی معروف رسم ختم ہو چکی تھی۔
جب کوئی شخص کسی سے ملتا تو با آواز بلند کہتا اللہ اکبر۔
جواب دینے والا بڑی عقیدت سے کہتا جل جلالہ۔ اکبر کے دور میں ان الفاظ کا مطلب کیوں کہ ان کا نام جلال الدین تھا اور لقب اکبر تھا۔ جب پکارنے والا اللہ اکبر کہتا تو اس کے ذہن میں یہی خیال ہو گا کہ وہ خالق کائنات کو پکار رہا ہے۔ مگر دین الہی کی بنیاد رکھنے والے یہ کلمہ سن کر مطمعن ہو جاتے تھے کہ وہ اکبر کی خدائی کے لیے راستہ ہموار کر رہیئے ہیں۔ اس طرح جل جلالہ بظاہر اللہ کی شان کبریائی کا اظہار ہوتا تھا۔ مگر وقتی سلطنت کا بادشاہ جلال الدین کی عظمت کی طرف اشارہ تھا۔
اکبر نے مشہور راجپوت سردار راجہ ماں سنگھ کی بہن رانی جودھا بائی سے شادی کر لی۔ ملکہ کی پوجا پاٹ کے لیے شاہی محل میں ایک چھوٹا سا مندر تیار کیا گیا۔ جس کے اندر ہندوں کی تمام قابل ذکر مورتیاں موجود تھیں۔ قلعہ میں موزن کی صدا بلند ہونے کے بجائے صبح و شام کیرتن اور بھجن کی آوازیں گونجتی تھیں۔ اور گمراہ مصاحب اسے یقین دلا رہے تھے کہ آپ ہی ان داتا ہیں اور آپ ہی لوگوں کہ مشکل کشا ہیں۔ دنیا کے سارے کام آپ ہی کے حکم سے انجام پاتے ہیں۔ اور آپ کے سوا کسی طاقت کا وجود نہین۔
مگر ایک دن اکبر کی نظر جب اپنے ذاتی مسلے پر گئی تو وہ لرز گیا۔ اکبر کے کئی بیٹیبہوئے لیکن چند روز زندہ رہنے کے بعد مر جاتے تھے۔ ملکہ نے اپنے دیوتاوں کے سامنے بہت سی منتیں مانگیں لیکن یہ عالیہ تخت ہندوستان کا وارث پیدا نہیں کر سکے۔ اکبر تنہائی میں سوچتا کہ وہ کیسا مشکل کشا ہے کہ اپنی مشکل دور نہیں کر سکتا کہ اپنی اولاد پیدا نہیں کر سکتا۔ اس کی راتوں کی نیدیں حرام ہو گئیں۔ ایک دن ایک درباری نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ بادشاہ سلامت آپ کا مسیخا ہیں فتحپور سیکری میں موجود ہے۔
کون مغل شہنشاہ نے حیران ہو کر اپنے درباری سے کہا۔
حضرت شیخ سلیم الدین چشتی۔ درباری نے مسیخا کا نام بتایا۔ مغل شہنشاہ نے کہا کیا شیخ ہمیں ہندوستان کے تخت کا وارث دے سکتے ہیں۔ اس کی عقل یہ ماننے کو تیار نہیں تھینکہندعائیں تقدیر بدل سکتی ہیں۔
ہمیں ایک فقیر کے دروازے پر کھڑا دیکھ کر لوگ کیا کہیں گے۔ شہنشاہ نے کہا۔ ہم تو خود لوگوں کی اولیا بھرتے ہیں اگر ہمارا دامن کسی کے آگے پھیلا تو ہماری روحانی عظمتوں کا محل زمین بوس ہو جائے گا۔
مغل شہنشاہ کہیں دن تک اپنی کشمکش میں دیا۔ آخر کار ایک دن اسے اولاد کی خواہش اسے ایک بوریا نشین درویش کے دروازہ پر لے گئی۔
حضرت شیخ سلیم الدین سلسلہ چشتا کے مشہور بزرگ حضرت فریدالدین شکر گنج کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔مغل شہنشاہ نے بیسرواسامانی کا اعتراف کیا تمام حکیم طبیب عاجز آگئے ہیں۔
شیخ صاحب نے فرما یا پھر میں کیا کروں۔
اکبر گریہ و زاری کرنے لگا مجھے تخت ہندوستان کا وارث چاہیے۔
واللہ خیرالوارثین۔ حضرت شیخ سلیم چشتی رح آئیت تلاوت فرمائی۔ اور کہنے لگے مگر تو نے تو اللہ کو فراموش کردیا۔ پھر تجھے تیرا وارث کون دے گا؟
شیخ میں آپ کی دعاوں کا طلبگار ہوں مغل شہنشاہ بہت دیر تک فریاد کرتا رہا۔ حضرت شیخ سلیم چشتی رح استغراق کی حالت میں بیٹھے رہے۔ پھر آنکھیں کھول کر مغل شہنشاہ سے فر مایا۔ تو بظاہر ہندوستان کا حکمران ہے مگر حقیقتا” سلطان ہند کوئی اور ہے۔
اکبر نے شدید حیرت کے عالم حضرت شیخ سلیم چشتی رح کی طرف دیکھا۔
حضرت شیخ سلیم چشتی رح نے فرما یا دراصل اقلیم ہند پر حضرت خواجہ محی الدین چشتی رح کی حکومت ہے۔ اور میں بھی اسی آستانے کا غلام ہوں اب تو اس فقیر کے گھر تک آگیا ہے تو میں بس اتنا ہی کر سکتا ہوں کہ تمہیں بھی سلطان ہند کے حوالے کر دوں گا۔
پھر دیکھنے والوں نے عجیب منظر دیکھا مغل شہنشاہ اجمیر شریف کی طرف جا رہا تھا۔ فتنہ گروں نے مغل شہنشاہ کو روکنے کے لیے بہت سی دلائل پیش کی گئی۔ جہاں ظل الہی تشریف لے جارہے ہیں وہ جگہ اینٹوں اور پتھروں کا ایک ڈھیر ہے۔ ایک بے جاں قبر کسی زندہ انسان کو کیا دے سکتی ہے۔ مگر شہنشاہ نے پیدل فتحپور سیکری سے اجمیر شریف تک کا سفر شروع کرنے کا اعلان کر دیا۔
اکبر کی یہ کہانی ان کے بیٹے جہانگیر نے اپنی تزک خودنوشت میں واضع طور پر تحریر کیا ہے۔ میرے والد نے میری ولادت کے لیے فتحپور سے اجمیر کا پیدل سفر کیا ہے۔
جب مغل شہنشاہ اجمیر پہنچے تو پیروں میں اچھالے پڑھ گئے تھے خدمتگاروں نے انتہائی منتیں کی کہ یہ نہائت ہی مشکل گزار راستہ ہے آپ سواری کا استعمال کر لیں کوئی حرج نہیں۔ شہنشاہ نے کہا کہ ہم سلطان ہند کے دربار میں حاضر ہو رہے ہیں نیازمندی کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ پیادہ پا سفر اختیار کیا جائے۔
شہنشاہ خواجہ کے قدموں کی طرف کھڑا ہو گیا اور دعا کء ساتھ زارقطار روتا رہا۔ پھر اس نے جوش میں حواجہ میری الدین کے مزار مبارک کی چادر اپنے سر پر ڈال لی۔
پھر اجمیرطکے باشندوں میں زر نقد تقسیم کیا اس کے بعد واپس لوٹ گیا۔
لوگوں کی نظریں اب ٹکٹکی لگائے ہوئے تھیں کہ ایک دن شہنشاہ کو ولی عہد سلطنت کی پیدائش کی خبر سنائی۔ دارلحکومت آگرہ کے دروبام چراغوں اور قدیلو سے جگمگا اٹھا۔
اکبر نومود فرزند کو لے کر حضرت سلیم چشتی رح کی خدمت میں حاضر ہوا۔
حضرت نے کہا یہ صاحب اقتدار ہو گا اور رہتی دنیا تک اس کے نام کی گونج سنائی دے گی۔ اکبر نے عقیدت سے بیٹے کا نام بھی حضرت کے نام سے سلیم رکھ دیا۔ پھر یہی سلیم نورالدین جہانگیر کے القاب سے تخت نشین ہوا۔ مزار کو اینٹ اور پتھر کا ڈھیر کہنے والوں اللہ جب کسی ملک کے شہنشاہ کو اپنی اوقات دکھاتا ہے تو ان ہی مزار والوں کے قدموں میں ڈال دیتے ہے اور ان کے دعا کے صدقہ انہیں سلطنت کا وارث بھی دیتا ہے۔ جب اللہ کے والی دعا کرتے ہیں تو اولاد میں جہانگیر پیدا ہوتے ہیں اورنگزیب پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے معمولی سے دنیا کے علم کی حکمت نہ سمجھا کرو اللہ والوں کے دربار پر حاضری دیا کرو۔۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا