غزل:.سہیل اقبال

0
0

ریاض سعودی عرب

————————-
زخم جو اس سے ملیہیں وہ چھپا دیتے ہیں
بے وفا حسن کو ہم داد۔ وفا دیتے ہیں
ہم نے اس سال میں ڈرتے ہوئے رکھا ھے قدم
ہر نئے سال میں وہ زخم نیا دیتے ہیں
دیکھئے کس طرح کرتے ہیں وہ زخموں کا علاج
زہر دیتے ہیں مجھے یا کہ دوا دیتے ہیں
زندگی ایک تماشے کے سوا کچھ بھی نہیں
تم جو چاہو تو ابھی پردہ گرا دیتے ہیں
حالت۔ جنگ میں گر ہاتھ سے تلوار گرے
اپنے کردار سے دشمن کو ہرا دیتے ہیں
یہ اجالا ھے ملاقات میں اڑچن کا سبب
ایسا کرتے ہیں چراغوں کو بجھا دیتے ہیں
اس کو معلوم نہیں ھے کہ ہم آوارہ مزاج
حسن۔مغرور کو آئینہ دکھا دیتے ہیں
قیس تو قیس تھا پر ہم سے بھی دیوانے سہیل
تپتے صحراؤں کو گلزار بنا دیتے ہیں

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا