تم نہیں اور سہی

0
0

۰۰۰
ڈاکٹر نیلوفر ناز نحوی
۰۰۰
’’جی آپ اردو کے نئے پروفیسر ہیں۔‘‘تسلیمہ نے بات شروع کرنے کے لئے کہا۔’’جی آپ اردو کے نئے پروفیسر ہیں۔‘‘تسلیمہ نے بات شروع کرنے کے لئے کہا۔’’جی،جی۔۔میں یہاں نیا آیا ہوں ،ٹرانسفر ہوکر۔سلیم گنائی۔‘‘’’جی میں ڈاکٹر تسلیمہ۔اینوارنمنٹ سانئس میں ہوں‘‘۔’’آپ سے مل کر خوشی ہوئی‘‘’’اس سے پہلے آپ کہاں تھے؟‘‘’’میں اس سے پہلے گرلز کالج،سوپور میں تھا۔‘‘’’چلئے۔۔مجھے تو اردونہیں آتی ہے ،میں اب آپ سے ہی سیکھوں گی۔‘‘’’جی۔۔جی۔۔ضرور‘‘’’مجھے کبھی کبھی غالب یا اقبال کے شعر کو سمجھنے میں دقّت ہوتی ہے۔مین ان دونوں کو پڑھتی ہوں۔میں کبھی کبھار لکھتی بھی ہوں ۔اور ان دونوں کو کورٹ کرتی ہوں۔شاید مجھے کبھی کبھی آپ کی help چاہیے۔‘‘’’جی آپ حکم کیجئے،بندہ حاضر ہوگا‘‘ سلیم گنائی نے بڑے مؤدبانہ انداز میں کہا۔پروفیسر تسلیمہ کو اس کالج میں دس سال ہو گئے تھے۔وہ بہت خوبصورت تھی اور آنکھیں اس کی بڑی بڑی تھیں۔اسے مردوں کے ساتھ باتیں کرنے میں مزہ آتا تھا۔ وہ کہتی تھی کہ عورتیں جب آپس میں ملتی ہیں تو gossipingکرتی ہیں اور مرد وں کے ساتھ جب ملتی ہیںتو ادب اور لٹریچر کی باتیں کرتی ہیں۔اس کو ادب کے ساتھ کافی دلچسپی تھی۔اس کی شادی ابھی نہیں ہوئی تھی۔جبکہ اب تقریباً چالیس کی ہونے کو آئی تھی۔اس کے گھر والوں کو ایک بھی ایسا لڑکا نہیں ملتا تھا جو ان کو تسلیمہ کے لائق لگتا۔دوسرے دن پروفیسر تسلیمہ کالج کے لان میں چل رہی تھی کہ ان کی نظر پروفیسر گنائی پر پڑی۔’’گنائی صاحب کیا بات ہے۔آپ تو ہم سے دور دور بھاگتے ہیں‘‘’’نہیں نہیں،پروفیسر صاحبہ ایسی بات نہیں ہے۔۔۔در اصل مجھے عورتوں کے ساتھ بات کرنے میں۔۔۔۔سو لوگ سو طرح کی باتیں بناتے ہیں۔۔۔‘‘اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔’’نہیں گنائی صاحب۔۔میں اس ٹائپ کی لڑکی نہیں ہوں۔میں توان معاملات میں بہت straight forward ہوں ۔۔۔اور پھر کالج میں تو چلتا ہی رہتا ہے۔‘‘’’جی‘‘’’ذرا سنایئے کچھ۔۔۔کوئی شعر۔۔غالب کا اقبال کا۔۔یا کچھ اپنا ہی کلام سنائیے۔۔آپ بھی تو لکھتے ہونگے۔‘‘’’جی ۔۔لکھتا تو ہوں کبھی کبھی۔۔۔کچھ خاص نہیں۔۔۔بس یونہی۔۔۔قلم زنی کرتا ہوں۔۔‘‘’’واہ۔۔یہی تو شاعرانہ انداز ہے۔شاعری کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ قلم زنی کرتا ہوں۔‘‘اس پر دونوں ہنس پڑے۔پروفیسر گنائی جوان تھا اور خوبرو بھی۔اس کی ہنسی بہت پیاری تھی۔پروفیسر تسلیمہ اس کو دیکھتی ہی رہ گئی۔پروفیسر گنائی بھی اس کو دیکھ رہا تھا۔اور اچانک اس نے اپنی نظریں جھکا لیں۔جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔پروفیسر تسلیمہ کلاس سے باہر نکل رہی تھی تو گنائی صاحب پر ان کی نظر پڑی جو کسی سٹوڈنٹ کے ساتھ کسی بات پر بحث کر رہے تھے۔تسلیمہ کلاس سے نکل کر ان کے پاس آئی اور کہنے لگی۔’’گنائی صاحب کیا ہو رہا ہے ۔۔کس بات پر گرم گفتگو ہو رہی ہے؟۔اس گفتگو میں ہمیں بھی شامل کیجئے‘‘۔’’ جی بس کچھ خاص نہیں۔۔یہ سٹوڈنٹ کسی شعر کی وضاحت چاہ رہا تھا۔‘‘’’پروفیسر صاحب شعر ہمیں بھی سنائیے۔‘‘’’ دل کو خیال یار نے مخمور کردیا ساغر کو رنگ بادہ نے پُر نور کردیا‘‘ارے واہ واہ۔شعر تو بہت خوبصورت ہے۔بہت ہی خوبصورت۔یہ شعر کس کا ہے‘‘’’یہ شعر فیض کا ہے۔‘‘’’بہت خوبصورت۔۔‘‘پروفیسر تسلیمہ نے شعر کی تعریف کرتے ہوئے پرفیسر گنائی کی آنکھوں میں دیکھا۔اور پروفیسر نے بھی اس کی نظروں میں دیکھا اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہ گئے۔دونوں نے نظریں جھکالیں۔ اب کالج میں اکثر و بیشتران کا سامنا ہوتا تھا۔کبھی آتے وقت اور کبھی جاتے وقت۔کبھی دن میں اور کبھی کلاس میں جاتے وقت تو کبھی کلاس میں سے نکلتے وقت۔اور یہاں تک کہ تسلیمہ کے دل میں تھوڑی سی بے قراری بڑھنے لگی۔ایک دن پروفیسر گنائی نکلتے وقت گاڑی نکال رہے تھے تو پرفیسر تسلیمہ نے روک کر کہا۔’’آپ کس طرح جارہے ہیں۔اگر آپ بُرا نہ مانیں تو مجھے لفٹ چاہیے۔‘‘’’آیئے آیئے  my pleasure۔۔میں برا نہیں مانوں گا۔۔‘‘کار کا آگے کا دروازہ کھولتے ہوئے پرفیسر گنائی نے کہا۔کار میں بیٹھتے ہوئے پروفیسر تسلیمہ نے کہا۔’’پروفیسر صاحب مجھے آپ کو پروفیسر گنائی کہتے ہوئے کچھ عجیب سا لگتا ہے۔آپ کا نام کیا ہے میں آپ کو نام سے پکاروں گی۔‘‘’’سلیم گنائی‘‘پروفیسر گنائی نے ہنستے ہوئے کہا۔’’اگر میں آپ کو سلیم کے نام سے پکاروں،آپ کو بُرا تو نہیں لگے گا۔۔۔۔‘‘’’ جی نہیں آپ تو تب بھی میرے نام سے ہی پکاریں گے۔۔‘‘’’ٹھیک ہے سلیم صاحب۔۔۔۔بہت خوبصورت نام ہے۔۔‘‘’’کس طرف جائیں گی آپ۔۔۔؟‘‘’’جس طرف آپ لے جائیں گے۔۔۔میرا مطلب ہے جس طرف آپ جائیں گے ۔۔میں راستے میں کہیں اتر جاؤں گی۔۔۔۔‘‘ وہ بوکھلائی۔’’جی۔۔۔جی۔۔۔۔جی۔۔‘‘پروفیسر گنائی کی آنکھیں کھلی رہ گئیں۔اب اس کے منہ میں جیسے زبان نہیں ہے۔وہ بس گاڑی چلا رہا تھا۔جیسے اب بات کرنے سے ڈر رہا تھا۔دل ہی دل میں سوچ رہا تھا۔’’یہ تسلیمہ جی کس قدر بے تکلف ہیں‘‘۔۔۔انہیں تو کسی بات سے ڈر ہی نہیں لگتا ہے۔۔۔مجھے تو خوف سا لگتا ہے۔۔۔لوگ کیا کہیں گے۔۔گرلز کالج میں تو ایسی humilation کبھی نہیں ہوئی تھی۔‘‘’’آگے دو راہا ہے گاڑی کس طرف لے جاؤں‘‘’’کہیںبھی لے جائیے۔اپنے گھر یا میرے گھر۔۔سلیم صاحب میں مذاق کر رہی ہوں۔تھینک یو۔بس یہیں روک دیجئے۔‘‘ اسکی ہنسی نکل گئیپروفیسر نے گاڑی سڑک کے کنارے کھڑی کردی مگر منہ سے ایک لفظ بھی نہیں بول سکے۔تسلیمہ جیسے  ہی گاڑی سے اتری تو سلیم نے اپنے آپ سے کہا۔’’لڑکی تو اچھی ہے۔کاش اسکے ساتھ میری دوستی بڑھتی رہے۔‘‘دوسرے دن پھر پروفیسر تسلیمہ پروفیسر گنائی کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔اور پھر اسی دو راہے پر پہونچ کر سلیم نے گاڑی روک دی۔’’سلیم صاحب آج آپ میرے ساتھ میرے گھر تشریف لے آیئے۔ایک چائے کی پیالی ہوجائے۔‘‘’’نہیں پھر کبھی۔۔۔‘‘’’آیئے نا پلیز۔۔‘‘سلیم صاحب نے بھی زیادہ تانا شاہی نہیں دکھائی ۔او کے کہہ کے گاڑی ایک سائڈ میں پارک کی اور اس کے ساتھ ہو لیا۔دونوں تسلیمہ کے گھر پہونچ گئے۔ پروفیسر تسلیمہ نے گھر کی گھنٹی بجائی اور تھوڑی دیر کے بعد اندر سے کسی نے دروازہ کھول دیا۔سلیم صاحب کی نظریں اٹھیں ۔۔اور پلک جھپکانا بھول گئے۔۔۔ سامنے sky blue کلر کی ساڑھی میں ملبوس ایک خوبصورت لڑکی کھڑی تھی۔جس نے ہاف سلیوز بلوز پہنا تھا اور جس کا گلا بہت کھلا کھلا تھا۔بال بھی شانوں پر آدھے سے زیادہ بکھرے تھے۔اورآدھے بالوں کو ایک چھوٹی سی کلپ سے بند کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔’’یہ میری چھوٹی بہن ہے۔ڈاکٹر سائیرہ‘‘پروفیسر گنائی نے تحسین کی ایک نگاہ اس پر ڈالی اور کہا۔’’السلام و علیکم ،آپ خیریت سے ہیں۔‘‘’’وعلیکم السلام ،جی بالکل۔۔۔آپ پروفیسر سلیم ہی ہونگے۔۔‘‘’’جی۔۔جی ہاں۔۔مگر آپ۔۔؟‘‘’’باجی تو آپ کی باتیں کرتے تھکتی نہیں۔۔۔اور آپ اسی لائق ہیں بھی۔۔‘‘’’کس لائق ؟‘‘’’کہ آپ کی باتیں کوئی کرے۔۔‘‘’’شکریہ۔۔۔دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔’’پروفیسر تسلیمہ اتنے میں چائے بنا کے لائی۔ان کو ہنستے دیکھ وہ بھی ہنس پڑی۔اس نے آج پہلی بار سلیم صاحب کو کھل کر ہنستے ہوئے دیکھا۔اس کے دل میں گدگدی ہوئی۔وہ چائے انڈیلنے لگی۔اور پروفیسر گنائی اور ڈاکٹر سائرہ کے ساتھ باتوں میں مشغول ہوگئے۔’’آپ تو بڑے دلچسپ آدمی ہیں‘‘۔’’آپ کی ہنسی تو بہت ہی پیاری ہے‘‘۔چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے ان کی نظریں کئی بار ٹکرایئں۔پیالی نیچے رکھتے ہوئے سلیم صاحب نے اجازت طلب کی تو سائیرہ نے کہا۔’’پروفیسر صاحب اب کب ملاقات ہوگی۔‘‘پھر رُک کر اور بولی۔۔’’جب بھی آپ کا دل کرے بلا جھجک آجائیے گا‘‘۔ایک میٹھی سی مسکراہٹ اپنے ہونٹوں پر چھوڑ گئی۔گھر جاکر پرفیسر گنائی کو ایک عجیب سی بے کلی محسوس ہوئی۔بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے نیلی ساڑھی میں ملبوس سائیرہ کا کھلکھلاتا ہوا چہرہ آرہا تھا۔اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ پھر سے اس سے ملے۔مگر کوئی بہانہ تو چاہئیے۔ چھٹی کے وقت وہ پروفیسر تسلیمہ کا انتظار کر رہا تھا۔گاڑی کے سامنے تسلیمہ جی آکر رُک گئی اور کہا۔’’سلیم صاحب آپ جائیے۔میں آج کسی اور طرف جارہی ہوں۔انتظار کرنے کا شکریہ۔‘‘’’او کے‘‘ کہہ کر اس نے گاڑی آگے بڑھادی۔دوراہے پر پہونچ کر اس کا پاؤں خود بخود بریک پر پڑ گیا۔اور گاڑی رُک گئی۔وہ گاڑی سے اترا اور اس کے قدم آہستہ آہستہ جیسے بے خیالی میں تسلیمہ جی کے مکان کی طرف اٹھ رہے تھے۔اس نے دروازے پر bellبجائی۔دروازہ کھل گیا۔گلابی سوٹ پر سفید کڑھائی اور سفید رنگ کا ڈوپٹہ گردن میں لٹک رہا تھا اور غضب ڈھا رہا تھا۔’’ڈاکٹر سائیرہ۔۔۔۔۔ہ۔۔۔ہڈاکٹر سائیرہ کی تو صرف آنکھیں ہی کھلی رہ گیئں۔تھوڑی دیر کے بعد اس نے کہا۔’’پروفیسر صاحب باجی تو ابھی آئی نہیں ہے۔انہیں کسی کام سے کہیں جانا تھا۔‘‘’’جی میں جانتاہوں۔۔۔میں ۔۔میں۔۔۔اسی لئے۔۔۔۔‘‘نظریں جھکا کے ’’جی۔۔۔وہ۔۔۔‘‘سائیرہ نے نظریں اٹھائیں جیسے اس کے پورے جملے کا انتظار کر رہی تھی۔مگر اس نے کچھ نہیں کہا۔صرف ایک مسکراہٹ پر کام چلا لیا۔سائیرہ نے ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولااور انہیں اندر لے گئی۔باتوں باتوں میں اس کو اپنے بچپن میں لے گئی اور اس کو سارے فوٹو بھی دکھائے۔’’میں بچپن میں بہت تیز تھی۔‘‘’’آج بھی تو ماشا اللہ کچھ کم نہیں۔۔‘‘اسے پہلے کہ تمہاری بہن آجائے۔مجھے چلنا چاہئے۔سلیم صاحب خدا حافظ کہہ کر چلے گئے مگر سائیرہ ایک عجیب کشمکش میں پڑ گئی۔بہن کے آنے سے پہلے کیوں جانا چاہتے تھے۔٭٭’’باجی آج تمہارے پروفیسر صاحب پھر آئے تھے۔‘‘’’ کب؟ کیوں؟کیسے؟‘‘’’وہ شاید آج مجھ سے ملنے آئے تھے۔۔۔۔شاید انہیں۔۔۔۔وہ۔۔۔شاید۔۔میں‘‘وہ ہڑبڑا رہی تھی مگر کوئی جملہ اس سے نہیں بن رہا تھا۔’’کیا تمہیں بھی وہ پسند ہیں۔۔۔سچ بتاؤ۔۔۔‘‘باجی نے اپنے لفظوں پر بہت زور ڈالا۔’’ہاں ۔۔۔شاید۔۔۔مجھے بھی۔۔باجی ۔۔وہ پروفیسر صاحب مجھے بہت پسند ہیں اور ان کو بھی میں پسند ہوں۔‘اس نے ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔یکبارگی کئی اس کے اندر سے اکھٹے کئی شیشوں کے ٹوٹنے کی آواز آئی جو صرف تسلیمہ کو سنائی دی۔٭٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا