سرکار کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی
یواین آئی
سرینگر؍؍وادی کشمیر میں 1990 کی دہائی میں شروع ہوئی مسلح شورش کے باعث بیوہ ہونے والی کشمیری خواتین انتہائی کسم پرسی کی حالت میں زندگی گزار رہی ہیں۔ ایسی خواتین جن کی تعداد قریب ساڑھے بتیس ہزار ہے، میں سے 60 فیصد کو سرکار کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی، 88 فیصد کو رضارکار تنظیموں سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ 83 فیصد بیوائیں ایسی ہیں جو سماجی اخراجیت کی شکار ہیں جنہیں شوہر کی جائیداد، وراثت وسرکاری مراعات سے بے دخل کردیا گیا ہے اور روزگار کے وسائل سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ 92 فیصد بیوائیں ایسی ہیں جنہیں اپنے رشتہ داروں کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی۔ یہ انکشافات نوجوان کشمیری محقق، مصنف و سماجی تجزیہ نگار ڈاکٹر امتیاز احمد وانی کی جانب سے کئے گئے ایک سروے میں ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر امتیاز وانی کہتے ہیں ‘کشمیر یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات کے سابق پروفیسر مرحوم بشیر احمد ڈبلہ کے مطابق گذشتہ دہائی میں کی گئی ایک اسٹیڈی کے مطابق وادی کشمیر میں اْس وقت بیوائوں کی تعداد 32 ہزار 400 اور یتیم بچوں کی تعداد 97 ہزار تھی۔ جب میں نے وادی میں بیوائوں کی حالت زار پر سروے کیا تو اس کے ذریعے رونگٹے کھڑے کردینے والے حقائق سامنے آئے’۔ انہوں نے بتایا ‘وادی میں شورش کے باعث زیادہ خواتین 30سے 40سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی ہیں۔ ان کی شرح 44 فیصد ہے۔ مجموعی طور پر 21 فیصد بیوائوں کے تعلقات ان کے والد نسبتی کے ساتھ خراب ہیں، 24فیصد بیوائوں کے تعلقات ان کی والدہ نسبتی کے ساتھ خراب ہیں۔ 26 فیصد بیوائوں کے تئیں ان کے برادر نسبتی کے تعلقات خراب ہیں جبکہ28 فیصد بیوائوں کے تعلقات ان کی نسبتی بہن کے ساتھ خراب ہیں’۔ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ محض 6.85 فیصد بیوائوں میں دوسری شادی کرنے کی چاہت ہے۔ زیادہ تر بیوائیں خود گھر کے خانہ دار کی حیثیت سے ذمہ داری نبھارہی ہیں اور ان کی شرح فیصد 83.42 ہے۔ ڈاکٹر امتیاز وانی کی جانب سے وادی کے دس میں سے سات اضلاع میں انجام دی گئی سروے کے مطابق ناخواندہ بیوائوںں کی شرح فیصد 68ہے جبکہ گریجویشن سے آگے کوئی بھی بیوہ پڑھ نہیں پائی ہے۔ سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے ‘ناخواندہ بیوائوں کی شرح فیصد 68ہے جبکہ گریجویشن سے آگے کوئی بھی بیوہ پڑھ نہیں پائی ہے۔ گوکہ زیادہ تر بیوائیں ناخواندہ ہیں۔ پیشہ ورانہ لحاظ سے زیادہ تر بیوائیں زمینداری سے وابستہ ہیں اور ان کی شرح فیصد 40ہے۔ زیر تعلیم بیوائوں کے بچوں کی شرح فیصد 59.35ہے جبکہ اسکول چھوڑنے والے بچوں کی شرح فیصد28.80ہے۔ وہیں ناخواندہ بچوں کی شرح فیصد 15.46ہے’۔ سروے میں ان خواتین کی معاشی، اقتصادی، سیاسی اور سماجی حالت سدھارنے کے لیے تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ تجاویز میں کہا گیا ہے ‘حکومت اور غیر سرکاری ادارے اس طرف توجہ دیں کہ بیوائوں کے لیے مختلف پالسیز، پروگرامز اور قوانین بنائیں۔ اگرچہ کچھ اسکیمیں اور پروگرامز پہلے سے بنائے گئے ہیں لیکن ان پروگراموں کا از سر نو جائزہ لیا جائے اور اس کے لیے سب سے پہلے عمل آوری ہونی چاہیے۔ بیوائوں کے لئے ملازمت حاصل کرنے کے بارے میں نئے قوانین متعارف کروائے جائیں اورمواقع بھی فراہم کئے جائیں’۔ ایک تجویز یہ بھی ہے: ‘حقوق نسواں کے لئے کام کرنے والے تمام سرکاری وغیر سرکاری ، قومی و بین الاقوامی انجمنوں اور ایجنسیوں کو ریاست جموں و کشمیر میں بیوائوں کی ناگفتہ بہ حالت کا جائزہ لے کر اس کا ازالہ کرنا چاہیے’۔ شورش کے باعث بیوہ ہوئی خواتین کی مالی حالت بہتر بنانے کے حوالے سے یہ تجویز پیش کی گئی ہے : ‘خواتین کی مدد اس طرح کی جائے کہ ان میں بھکاری ہونے کا احساس پیدا نہ ہو۔ بلکہ غریب خواتین کو بطور قرضہ سرمایہ فراہم کیا جائے تاکہ وہ کاروبار کے ذریعے اپنے پریوار اور اپنے خاندان کی مالی معاونت کرسکیں اور خود کفیل بن سکیں’۔