گجر بکروال خواتین میں حفظان صحت کے مسائل

0
0

شاذیہ چوہدری
راجوری جموں و کشمیر

حکومت ہند مختلف وزارتوں کے ذریعے ماہواری کی حفظان صحت کے طریقوں کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ وزارت صحت اور خاندانی بہبود (ایم ایچ ایف ڈبلیو) 2011 سے تولیدی بچوں کی صحت کے پروگرام کے حصے کے طور پر10سے 19 سال کی عمر کی لڑکیوں میں ماہواری کی حفظان صحت کو فروغ دینے کی اسکیم پر عمل کر رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ راشٹریہ کشور سواستھ کاریہ کرم کے تحت اس اسکیم کے بڑے مقاصد نوعمر لڑکیوں میں ماہواری کی حفظان صحت کے بارے میں آگاہی بڑھانا، نوعمر لڑکیوں کی طرف سے اعلی معیار کے سینیٹری نیپکن تک رسائی اور استعمال کو بڑھانا اور ماحول دوست انداز میں سینیٹری نیپکن کے محفوظ تصرف کو یقینی بنانا ہے۔16 -2015 سے، سینیٹری نیپکن کی خریداری اور ماہواری کی حفظان صحت کے لیے آئی ای سی/ بی سی سی کی سرگرمیوں کو قومی صحت مشن ریاستی پروگرام کے نفاذ کے منصوبوں (پی آئی پیز) کے ذریعے ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں سے موصول ہونے والی تجویزوں کے ذریعے معاونت فراہم کر رہا ہے۔ معیار کو یقینی بنانے کے لیے ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے سینیٹری نیپکن کی خریداری کو غیر مرکوز کیا ہے۔رواں سال کے جنوری ماہ میں خواتین اور بچوں کی بہبود کی وزارت(ڈبلیو سی ڈی) میں سکریٹری جناب رام موہن مشرا نے صفائی ستھرائی کی وزارت اور بچوں کی بہبود کی وزارت کے زیر اہتمام حیض سے متعلق صفائی ستھرائی پر ایک ویبنار کی صدارت کی۔ ڈبلیو سی ڈی،نے 21 جنوری سے 26 جنوری 2021 تک بچیوں کے قومی ہفتے کے حصے کے طور پر بچیوں، جوان لڑکیوں اور خواتین سے متعلق امور پر سلسلے وار ویبنار کا انعقاد کیا تھا۔ جس میں سیکریٹری موصوف نے کہا کہ لوگوں کو با شعور بنانے اور بیداری پیدا کرنے کی غرض سے بین الریاستی اختلاط کے مضبوط نظام کی ضرورت ہے، ان سب اسکیموں میں ریاستی یا علاقائی سطح پر خانہ بدوش خواتین اور بچیوں کی حفظان صحت کو لے کر کوئی ا سکیم دیکھنے کو نہیں ملی۔ خاص کر مرکزی زیر انتظام علاقہ جموں کشمیر کو لے کر کوئی پالیسی یاا سکیم دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی۔

چونکہ جموں کشمیر کی کل آبادی کا تیسرا بڑا حصہ خانہ بدوش گجر بکروال طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور ان کا گزر بسر زیادہ تر مال مویشی بھیڑ بکریوں کے پالن پوشن پہ ہی ہوتا ہے، جن کے چارے پانی کی تلاش میں یہ لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے رہتے ہیں۔خاص کر سال میں یہ لوگ دو بڑی ہجرتیں کرتے ہیں۔ گرمیوں میں پہاڑوں، چراگاہوں اور ڈھوکوں وغیرہ میں اور سردیوں میں میدانی علاقوں میں ہجرت کرتے ہیں۔اس عمل میں ان لوگوں کو کئی کئی سو میل کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ جس دوران خواتین کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دیکھا جائے تو گجر بکروال خانہ بدوش خواتین کی پوری زندگی ہی مسائل اور مشکلات کی بھٹی میں سلگتی رہتی ہے جیسے کہ ان خواتین کا سب سے بڑا مسئلہ نا خواندگی ہے جو کہ ان کی زندگی میں درپیش آنے والی ہر مشکل کی جڑ ہے تعلیم کی کمی ان خواتین میں ایسا خلاء ہے جسکو صدیاں بھی پر کرنے میں نا کام ہیں۔ اپنے مال مویشیوں بھیڑ، بکریوں، گھوڑے، خچروں اور بھینسوں کے چارے پانی کی تلاش میں انکو سال میں دو بڑی موسمی ہجرتوں کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹی ہجرتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی کئی سو میل پیدل اپنے کندھوں پر، سروں پر سامان کے ساتھ ساتھ گود میں بچوں کو اٹھائے ہوئے چلتے رہنا ان کے نصیب کا وہ ورق ہے جو پیدا ہوتے ہی ان کے ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے اور پھر چھوٹی عمر میں ہی والدین کا ان خواتین کو پیا دیس بھیج دینا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جو کہ آج اکیسویں صدی میں بھی بدستور ان کا مقدر ہے، ہجرت کے دوران نو عمری میں پہنچتے ہی ان خواتین و بچیوں کو ماہواری کی حفظان صحت اور صفائی ستھرائی کے مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ دوران سفر کئی کئی دن تک پیدل سفر میں ماہواری کے ایام میں صفائی ستھرائی کا دھیان بالکل نہیں رکھا جاتا۔ کئی دن تک کپڑے نہیں بدلے جاتے،پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے نہ ہی کپڑے یا پیڈ کو اچھے سے دھویا جاتا ہے اور نہ ہی سکھایا جاتا ہے بلکہ اسی طرح گندے کپڑے کا استعمال کیا جاتا ہے اور ان ایام میں نہانے دھونے کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ 98 فیصد خواتین کا یہ ماننا ہے کہ ماہواری کے ایام میں نہانا نہیں چاہیے۔ اسی طرح کے بہت سارے فرسودہ خیالات ہیں جن پر عمل کیا جاتا ہے جیسے کہ کھٹی چیزیں نہیں کھانی چاہیے،ٹھنڈی تاثیر والی اشیا کا استعمال بھی نہیں کرنا چاہیے، کنگھی نہیں کرنی چاہئے، پانی کا زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔

خواتین کے ماہانہ مخصوص ایّام یا ’ماہواری‘ نسوانی صحت کے حوالے سے انتہائی اہم موضوع ہے۔ تاہم اس پر بات کرتے ہوئے گجر بکروال خواتین آج بھی جھجکتی ہیں جس کی وجہ سے نوجوان خواتین میں طبعی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق 82.2 فیصد خواتین ناخواندگی کا شکار ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق 13 سے 15سال کی عمر میں لڑکیاں سن بلوغت کو پہنچ جاتی ہیں اور ان میں ماہواری کا عمل شروع ہو جاتا ہے جو کہ ایک عام بات ہے اور اس کے بارے میں بچیوں کو پہلے ہی آگاہ کر دینا چاہئے تا کہ بچیاں اس تبدیلی کو جلدی قبول کر سکیں اور نفسیاتی مسائل سے دو چار نہ ہونا پڑے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ گجر بکروال بچیاں اس عمل سے بالکل بے خبر ہوتی ہیں۔ شرم کے مارے کئی مہینوں تک تنہا ہی درد کو سہتی رہتی ہیں لیکن ڈر،شرم اور جھجک کی وجہ سے اپنی والدہ تک کو اپنی حالت سے آگاہ نہیں کرتیں اور نہ ہی ماؤں میں ان پڑھ ہونے کی وجہ سے اتنا شعور ہوتا ہے کہ آنے والے ماہواری کے اس عمل سے پہلے ہی بچیوں کو آگاہ کر دیں یا دماغی طور پہ پہلے ہی بچیوں کو تیار کر دیں۔ایسے میں بچیاں اندر ہی اندر خوف و ہراس کا شکار رہتی ہیں اور نفسیاتی طور پر کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی اور معاشرتی طور پر بھی کمزور ہو جاتی ہیں۔لوگوں سے ملنا جلنا چھوڑ دیتی ہیں۔یہاں تک کہ یہ بچیاں اپنی سہیلیوں سے بھی اس بارے میں بات کرتے ہوئے جھجکتی ہیں۔ نہ ہی ان کو کپڑے کا استعمال کرنے کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی سینیٹری پیڈ کے متعلق کوئی جانکاری ہوتی ہے۔

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان خواتین میں جو کچھ فیصدخواتین تعلیم حاصل کر رہی ہیں یا کر چکی ہیں ان میں بھی ماہواری کو لے کر وہی خیالات ہیں جو کہ نا خواندہ خواتین کے ہیں۔اسکول جانے والی بچیاں بھی اس موضوع پر بات کرنے سے کتراتی ہیں اور اس عمل سے گزرنے سے قبل انکو بھی والدین یا اساتزہ سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی اور نہ ہی یہ لوگ جانکاری حاصل کرنے کی خواہاں ہوتی ہیں۔ عموماً چھٹی یا ساتویں جماعت میں نو عمر بچیوں میں ماہواری کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن اس کے لئے اسکول میں بھی بچیوں کی رہنمائی کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا ہے۔ حالانکہ چھٹی کے نصاب میں یہ موضوع شامل ہونا چاہئیے لیکن نویں جماعت کی سائینس کے نصاب میں تھوڑا بہت ماہواری کے بارے میں بتایا جاتا ہے یعنی بچیوں کو ماہواری کے عمل سے گزرنے کے تین سال بعد جانکاری ملتی ہے کہ خواتین کے ماہواری کے کچھ خصوصی ایام ہوتے ہیں جن سے ہر خاتون کو ہر ماہ گزرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ برس راقم الحروف نے بنگلورو کی ایک تنظیم سکریہ چیریٹیبل ٹرسٹ کے اشتراک سے راجوری کے ایک دور دراز علاقے ہائی اسکول ساونی میں ماہواری پر ہی ایک بیداری کیمپ کا انعقاد کیا تھا۔جس میں زیادہ تر گجر بکروال طبقے کی بچیوں نے ہی حصہ لیا اور خصوصاً بچیوں کی ماؤں کو بھی مدعو کیا۔ لیکن موضوع کی جانکاری ملنے کے بعد انہوں نے آنے سے منع کر دیا کیونکہ وہ اس موضوع پر بات کرنے سے شرما رہی تھیں اور کترا رہی تھیں۔بچیاں بھی وہاں ایسے بیٹھیں تھیں جیسے کہ ہم انہیں کسی غلط کام کے لئے لائے ہیں۔ان کی طرف سے کوئی مثبت رویہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ لیکن ان سے بات کر کے ہمیں یہ بات ضرور پتہ چلی کہ ماہواری کو لے کر بات کرنا ان کے لئے بے شرمی اور بد تمیزی والا عمل ہے اور اس پر بات کرنا ان کو معیوب لگتا ہے۔کیمپ کے دوران ہم نے ان کو سینیٹری پیڈ کے بارے میں جانکاری دی اور صفائی ستھرائی کے حوالے سے سمجھایا اور ایک ویڈیو کے ذریعے ان بچیوں تک معلومات پہنچانے کی کوشش کی۔اسی دوران بچیوں میں سینیٹری پیڈ بھی تقسیم کئے گئے۔ لیکن بچیاں اتنی شرمندگی والی حالت میں لے رہی تھیں جیسے کہ خدانخواستہ ان کو کوئی معیوب چیز تھما دی ہو۔ ہم نے کوشش کی کہ بچیوں کو سمجھا سکیں کہ ماہواری پر بات کرنا معیوب نہیں ہے۔ اپنی ماؤں سے اور اپنی استانیوں سے بات کی جا سکتی ہے تا کہ اگر کوئی پیچیدگی وغیرہ ہو جائے تو اس سے بر وقت نپٹا جا سکے۔ لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ دیکھنے کو نہیں ملا۔

خواتین میں ماہواری کی حفظان صحت کے سلسلہ میں ماہر امراض نسواں ڈاکٹر سنگیتا کہتی ہیں کہ ایام حیض میں کئی گھنٹے تک ایک ہی کپڑا استعمال کرنے، استعمال شدہ کپڑے کو اچھے سے نہ دھونے یا ضائع نہ کرنے، پیشاب کرنے یا بیتا الخلاء کے بعد غلط طریقے سے صاف کرنے یا مسح کرنے، کھلی جگہ پر پیشاب پاخانہ کرنے اور حیض کے دوران غیر محفوظ جنسی تعلق قائم کرنے سے بچہ دانی میں انفیکشن ہو جاتا ہے، سوجن بڑھ جاتی ہے، ماہواری کے دوران بہت درد ہوتا ہے اور ان برے اثرات کی جانکاری اور شعور نہ ہونے کی وجہ سے ان خواتین کی صحت بری طرح سے متاثر ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خواتین اور بچیوں کو ان مسائل پر رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ حفظان صحت کلیدی حیثیت رکھتی ہے لیکن ہمارے پاس ایسی کوئی اسکیمیں نہیں ہیں جن کے ذریعے ہم خواتین کو ان مسائل کے بارے میں جانکاری دے سکیں، نہ ہی یہ خواتین اتنی با اختیار ہوتی ہیں نہ تعلیم یافتہ اور نہ ہی با شعور کہ وزارت صحت کی طرف سے چلائے گئے ا سکیموں اور ویبنار وغیرہ سے استفادہ حاصل کر سکیں۔

 

حیض کے دنوں میں لڑکیوں کو کن احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کرنا چاہیے، اس حوالے سے مرکزی زیر انتظام علاقہ جموں وکشمیر میں محکمہ قبائلی امور اور محکمہ سماجی بہبود اپنا کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ چونکہ خانہ بدوش گجر بکروال طبقہ دور دراز دیہاتی علاقوں میں رہائیش پذیر ہوتے ہیں اور زیادہ تر چلتے پھرتے ہی مال مویشیوں کے ساتھ گزارہ کرتے ہیں تو ایسے میں محکمہ کو دور دراز کے دیہاتی اسکولوں میں، اور پرائمری ہیلتھ سینٹروں میں ماہر نفسیات کے لیکچرر کا انعقاد کرنا چاہیے تا کہ بچیوں کو نہ صرف مختلف تربیتی لیکچرز دئیے جائیں بلکہ ان کے ساتھ نفسیاتی سیشن بھی کیے جائیں۔ جس میں بچیوں کے ذاتی تجربات کو جانا جائے۔ ان کے مسائل سنے جائیں اور انھیں اعتماد میں لیا جائے تا کہ یہ خانہ بدوش خواتین بنا کسی ڈر جھجک اور شرم کے اپنے مسائل سے آگاہ کریں اور ان مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکے۔ اسکے علاوہ ماہرامراض نسواں کے ذریعے ان خانہ بدوش گجر بکروال خواتین کویہ معلومات فراہم کی جا سکتی ہے کہ زندگی میں سب سے زیادہ احتیاط کا وقت وہ ہے جب بچیوں کو ماہواری شروع ہوتی ہے۔ ماہر نسواں ایسی ماؤں کو آمادہ کر سکتی ہیں کہ وہ بچیوں کو کم عمری میں ہی ماہواری کے متعلق بتائیں۔

محکمہ صحت کی طرف سے ماہواری یا حیض بیداری کیمپوں کا انعقاد کیا جا سکتا ہے۔جن کے ذریعے خواتین اور بچیوں کو جانکاری دی جا سکے کہ جس کپڑے یا پیڈ کو ایک بار استعمال کر لیا جائے اسے دوبارہ استعمال نہ کیا جائے بلکہ نیا کپڑا استعمال کریں۔ کوشش کی جائے کہ پیڈز ڈسپوزیبل ہوں کیونکہ بہت دیر تک سینیٹری ٹاول رکھنے سے بدبو آجاتی ہے اور ریشز ہو جاتے ہیں۔ ان ریشز کا اگر بروقت علاج نہ کیا جائے تو انفیکشن ہو جاتا ہے،خون آلود کپڑے یا پیڈ کو تین چار گھنٹے سے زیادہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ ’خون ایک ایسا میڈیم ہے جسے آپ کہیں بھی چھوڑیں گے تو اس پر بیکٹیریا کی افزائش ہوگی جو آگے بڑھ کر بچہ دانی میں انفیکشن کا سبب بن سکتا ہے۔

اگرمحکمہ قبائلی امور دوران ہجرت اور سفر ان خواتین کے راستوں کی نشاندہی کر کے حفظان صحت و صفائی ستھرائی سینٹروں کا قیام کر دے تو کم سے کم سفر کے دوران دوائیاں اور پیڈ یا تو کم داموں پر یا مفت میں ان خواتین کو مہیا کئے جا سکتے ہیں جس سے ماہواری کے حفظان صحت کے مسائل پر روک لگائی جا سکتی ہے اور ایسی خواتین کو بڑی بیماریوں میں مبتلاء ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اگر مائیں صحت مند ہوں گی تو وہ صحت مند اولاد کو جنم دے سکتی ہیں اور اگر مائیں بیدار ہوں گی تو ان کی بچیاں بھی بیدار ہوں گی جس سے آنے والی نسلیں تندرست و توانا ہوں گی جو کہ کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتی ہیں۔مجھے قوی امید ہے کہ محکمہ قبائلی امور، محکمہ سماجی بہبود اور محکمہ صحت بالخصوص ان خواتین کی مشکلات کا ازالہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ (چرخہ فیچرس)

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا