"کارپوریٹس کا نشانہ جموں شہر، اہلیان جموں کو خصوصی پوزیشن کی جدوجہد کے لئے آگے آنا ہوگا "

0
0

محمد ارشد چوہان

جموں و کشمیر کی سرمائی راجدھانی میں بدھ کے روز مکمل ہڑتال رہی – یہ کال جموں کامرس اینڈ انڈسٹری نے دے رکھی تھی جس کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کیساتھ ساتھ جے اینڈ کے کی تمام سیاسی پارٹیوں کی حمایت حاصل تھی ماسوائے بی جے پی کے -جموں کامرس اینڈ انڈسٹری کا کہنا ہے کہ جیو – ریلائنس جموں شہر میں سو کے قریب ریٹیل اسٹور کھولنے جا رہی ہے – اگر واقعی میں ایسے اسٹورز کھل جاتے ہیں تو جموں کے درمیانہ اور چھوٹے درجے کے تاجر کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا –

جیو ریلائنس مکیش امبانی کی کمپنی ہے – حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی امبانی نوازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں – گذشتہ سال تین ذرعی قوانین بننے کے بعد بھارت میں کسان لگا تار سراپا احتجاج ہیں – کسانوں کو ان قوانین سے چھوٹے کسان کو ختم کر کے ‘کارپوریٹ سیکٹر’ کو نوازنے کی بو آ رہی ہے – یہی وجہ کہ پنجاب کے اندر ناراض کسانوں نے جیو – ریلائنس کے سینکڑوں ٹاورز بھی توڑ دیئے تھے – جموں کے لوگ بھی اب امبانی – اڈانی کے ڈسنے کے خدشے کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں-05 اگست 2019 کو جب جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ہٹائی گئی تھی تب سے ہی جموں و کشمیر کے دیگر علاقوں کے لوگ اہلیان جموں پر یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ سب سے پہلے نشانہ جموں شہر بنے گا – جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن میں یہی سب تھا کہ بیرون ریاست کا کوئی بھی بڑا تاجر یہاں آ کے زمین وغیرہ نہ خرید سکے, یہاں کی نوکریاں مقامی لوگوں کے لئے محفوظ رہیں وغیرہ –

05 اگست 2019 کیبعد سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر جموں ہے – جموں، ادھمپور و کٹھوعہ میں جگہ جگہ ٹول پلازے بنا کر لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے – جموں شہر میں ٹول پلازوں کے خلاف سوشل میڈیا پر بھی بہت تنقید دیکھنے کو ملی تھی – پھر ڈیڑھ سو سال دربار موو کی پرانی روایت ختم کر کے اہلیان جموں پر ایک اور بجلی گرائی گئی –

انتظامی امور کو احسن انداز سے سر انجام دینے کے لئے دربار موو کی پالیسی مہاراجہ گلاب سنگھ نے 1872 میں شروع کی تھی – آزادی کے بعد ریاست کی مختلف حکومتوں نے اسے قائم رکھا – سرینگر و گردو نواح میں سردیوں کے موسم میں برفباری کی وجہ سے بہت زیادہ ٹھنڈی پڑتی ہے – زیادہ برفباری سے کئی بار کاروبار زندگی مفلوج ہو جاتے ہیں –
اسی طرح گرمیوں میں جموں شہر میں دہلی، راجھستان و یوپی وغیرہ کی طرح بے تحاشہ گرمی پڑتی ہے – سرینگر گرمیوں میں جبکہ جموں سردیوں میں کام کاج کے لئے زیادہ موزوں ہوتے ہیں – انتظامی امور کہیں موسموں کی بھینٹ نہ چڑھیں اس کو مد نظر رکھتے ہوئے سردیوں کے چھ مہینے سکریٹریٹ جموں شہر منتقل ہو جاتی تھی – اور گرمیوں کے چھ مہینے سرینگر شہر –

دربار موو نہ صرف دونوں شہروں کے درمیان میل ملاپ کا ذریعہ تھا بلکہ یہ دونوں شہروں کے اکانومی کے لئے بھی بہت مفید تھا – رواں سال کے مئی میں جموں و کشمیر کی گورنر انتظامیہ نے اس پریکٹس کو ختم کر دیا تھا – اس کے خلاف بھی لوگوں نے آواز اٹھائی تھی – پی ڈی پی کی صدر نے اس فیصلے کو غیر سنجیدہ قرار دیا تھا – اسی طرح مستقبل میں بھی دوسرے شہروں کے مقابلے میں جموں سب سے پہلے نشانے پر رہے گا –

اب وقت آگیا ہے کہ حکومت کی جموں مخالف پالیسیوں کے خلاف استقامت کیساتھ کھڑا ہوا جائے – 370 اور 35 اے کی بحالی کے لئے سیاسی و قانونی جنگ لڑنا دیش سے غداری نہیں بلکہ بالکل عین حب الوطنی ہے – بدقسمتی سے ملک بھر اور جموں و کشمیر کے بھی کچھ نوجوانوں کے دلوں میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ 370 دیش دروہی چیز ہے لہٰذا اس کے حق میں بات نہیں کرنی –

یہاں نوجوانوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جب بھی کوئی 370 یا 35 اے کی بات کرتا ہے اسکا مطلب وہ آئین ہند کی بات کرتا ہے – آئین ہند میں علاقائی نوکریوں، زمینوں و کلچر کو محفوظ بنانے کی پوری گنجائش موجود ہے – بھارت کی دیگر کئی ریاستوں کو ایسے آئینی تحفظ حاصل ہیں – اور 370 میں بھی یہی بات تھی – ستر سال تک اہلیان جموں کو کیوں کوئی ایسا احتجاج نہیں کرنا پڑنا؟ اسکا آسان جواب جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن ہے جس نے لوگوں کو کارپوریٹس سے بچائے رکھا – 370 یا اس جیسی کوئی اور آئینی حیثیت جموں و کشمیر کی بقا کا مسئلہ ہے – اگر نوجوان آج بھی اپنے حقوق کے لئے متحد ہو جائیں تو یہ کام دشوار ضرور ہے، ناممکن نہیں – ورنہ ہر روز ایسے پورٹسٹس کرنے پڑیں گے –

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا