محمد الطاف حسین ارریاوی-
رابطہ نمبر:7361005168
حالات-ایک تجزیہ!
ملکی حالات اس وقت ناگفتہ بہ ہیں، قدم قدم پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں، ہیبت و خوف کا ماحول گرم ہے ،نفرت و عداوت اور بھید بھاؤ کی فضا عام ہوچکی ہے، مذہب اور ذات پات کے نام پر تفریق فرقہ پرستوں کا پسندیدہ شیوہ بن چکا ہے ہر طرف اضطراب ہے، بے چینی ہے، غربت مقدر بن چکی ہے، غریبوں اور بے کسوں کی آہ وفغاں ہر طرف سے کانوں میں گونجتی ہے، سحاب ظلمات کی گھنگھور گھٹا چار سو پھیلی ہوئی ہے، ملک کا معاشی اور اقتصادی نظام انتہائی پستی کا شکار ہے، ہر جگہ عدم اطمنان کی کیفیت ہے، بہو بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں ہے، انسانوں کی جانوں کی قیمت نہایت ارزاں ہوگئی ہے، آۓ دن معصوم دوشیزاؤں کی عزت سے کھلواڑ کیے جا رہے ہیں، ان کی آبرو لوٹی جا رہی ہے اور یہ وحشی درندے ان ننھی کلیوں کی عصمت دری کرکے انہیں قتل تک کرنے میں کوئی دریغ نہیں کر رہے ہیں، ہر روز بڑے پیمانے پر عصمت دری، ظلم و زیادتی اور اس طرح کے دیگر واقعات ملک میں رونما ہو رہے ہیں- ابھی چند روز قبل 27/ اگست 2021 کو دہلی میں پیش آنے والا وہ واقعہ جس نے ملک میں ہنگامی صورتحال پیدا کردیا ہے ،جس کو لے کر ہر انصاف پسند شہری اس کی پرزور مذمت کر رہا ہے اور انصاف کی مانگ کرتے ہوئے مجرمین کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کے مطالبات بھی ہیں وہ بچی جو سرکار کا نعرہ” بیٹی پڑھاؤ بیٹی بچاؤ” کے مطابق پڑھ لکھ کر ایک پولیس آفیسر بن گئی ،وہ بیٹی جو اپنے خاندان والوں کے لیے ناامیدی کی دنیا میں امید کی کرن تھی، وہ بیٹی جس کے سر پر والدین کی ذمہ داری تھی، وہ بہن جسے ابھی اور جینا تھا، کس طرح انہیں ظالموں نے راستے سے اغوا کرکے ہریانہ کے ایک علاقے سورج کنڈ میں لے جاکر اسے اپنی ہوس کا شکار بنایا اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس کی Private body’s کاٹے گئے اور انتہائی دردناک طریقے سے اسے قتل کر دیا گیا ،وہ مظلوم صابحہ سیفی ہے، کیوں نہیں انکے مجرموں کے خلاف فوری کارروائی کی گئی؟ اس کے خاندان والوں کی چیخ و پکار، کچہریوں اور عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے باوجود کیوں نہیں اس کو انصاف ملا؟ کیا صرف اس لیے کہ اس کا تعلق ایک مسلم گھرانے سے ہے؟
کیا صرف اس لئے کہ اس کا نام صابحہ ہے، رادھا نہیں؟ نربھیا کیس اناؤ آبروریزی ہاتھرس اور دیگر معاملوں میں متاثرین کو جلدا نصاف کیوں نہیں ملا؟ کیوں ان معاملات کو دبا کر جرائم پیشوں اور ظالموں کی طرف داری کی جاتی ہے ؟آخر صابحہ اور ان جیسی ہزاروں ماؤں اور بہنوں کوجن کا ہر روز جنسی استحصا ل کیا جاتا ہے کب انصاف ملے گا؟ کیا ہمارے ملک میں ان جرائم کے سدباب کے لئے وسائل نہیں ہیں؟ کیا سی بی آئی اور خفیہ ایجنسیاں نہیں ہیں جو مجرمین کو تختہ دار تک پہنچانے میں مدد کر سکے ؟یہ سارے سوالات ہیں جن کو اٹھانے کے لئے ملک کی دلال میڈیا کے پاس وقت نہیں ہے، افغانستان میں بیٹیاں محفوظ نہیں ہیں ، ہر روز گولیوں کا نشانہ بن رہی ہیں ان مدوں پر چرچا کرنے کی پوری فرصت ہے اور خود ہمارے ملک میں ہماری ماؤں بہنوں کی حفاظت کا بندوبست نہیں ہے ،اس پر چرچا کرتے ہوئے سانپ سونگھ جاتا ہے- حالانکہ تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے "2018 ” میں اپنے ایک سروے میں بھارت کو عالمی سطح پر خواتین کے لیے سب سے خطرناک ملک قرار دیا تھا- حکومتی اعداد کے مطابق 2019 میں روزانہ بھارت میں 88 خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی جس میں زیادہ تر وہ خواتین تھیں جن کا تعلق انتہائی پسماندہ طبقے سے تھا رپورٹ کے مطابق پچھلے 17/ سالوں میں عصمت دری کے واقعات میں دو گنا اضافہ ہوا ہے-
افسوس کہ کبھی امن و آشتی کا گہوارہ اور سونے کی چڑیا کہا جانے والا ملک آج وحشیوں اور جرائم پیشوں کی آماجگاہ بن چکا ہے- حد تو یہ ہے کہ اعلی اقتدار پر بیٹھے لوگ خود ان ظالموں اور ملزموں کی طرف داری کرتے ہیں ان کا پیٹھ تھپتھپاتے ہیں اور میں آگے بڑھ کر کہوں کہ یہ لوگ خود کرپٹ ہیں غریب اور بے بس لوگوں کی آواز کو دبانے کی کوشش یہی لوگ کرتے ہیں ،ان کی عزت و ناموس کو تار تار کرنے والے بھی یہی افراد ہیں- کہاں گئے وہ لیڈران جو چناوی ریلیوں میں بڑے بڑے وعدے کرتے تھے ؟کیو نہیں ان غریب متاثرین کی حمایت میں ان کی زبان کھلتی ہے؟ کہاں ہیں وہ لوگ جو خواتین کی تحفظ کے بڑے بڑے دعوے کر رہے تھے کیا ان کی زبان اب گنگ ہو چکی ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ مجرموں کے خلاف سخت سے سخت قانونی کارروائی کی جانی چاہیے ،متاثرین کو انصاف ملنا چاہیے- رنگ و نسل کی بنیاد پر تفریق بند ہو ، دھرم کے نام پر بھیدبھاؤ ختم کیا جائے ،جس طرح آزادی کے متوالوں نے بلا کسی تفریق کے یک جہت ہو کر ملک کو آزاد کرایا اگر آج بھی یہ چیزیں یہاں کے باشندوں میں پیدا ہو جائے تو انشاء اللہ پھر سے ہمارا وطن عزیز امن کا گہوارہ اور آشتی کا مرکز بن سکتا ہے_
چٹانیں چور ہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا