"کھندول دانشور”

0
0

 

 

 

محمد ارشد چوہان

کھندول دانشور ایک اصطلاح ہے جو جموں و کشمیر کے دہلی کی جامعات میں زیر تعلیم طلباء کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جموں یونیورسٹی اور غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی، راجوری کے طلباء میں کافی مقبولیت حاصل کر چکی ہے – پانچ سال پہلے غالباً دو ہزار سترہ میں میں نے اپنے فیس بُک ہینڈل سے جب یہ اصطلاح متعارف کرائی تو مجھے بھی اندازہ نہیں تھا کہ اسکو اتنا زیادہ پسند کیا جائے گا – اب تو خیر پیر پنجال علاقے کے زیادہ تر ریسرچ اسکالرز نیز دیگر طلباء میں یہ لفظ ہر زبان زد عام ہے – کسی کی بات کو رد کرنا ہو یا کسی پر تنقید سادھنا ہو تو یہ لفظ بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے – آج سوچا کہ قارئین بھی اس سے لطف اندوز ہوں –

کھندول لفظ دراصل کھندولیوں سے مستعار لیا ہے – کھندولی پنجابی، گوجری اور پہاڑی میں بیڈ پر بچھانے والے بچھونے کو کہا جاتا ہے – ایک کپڑا جس میں عموماً روئی بھر دی جاتی ہے کھندولی کہلاتی ہے- مقامی زبانوں میں اسکے الگ الگ نام ہیں – اس بچھونے کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ اسے کوئی پبلک میں نہیں دکھاتا- یہ ایک خالص پرائیویٹ چیز سمجھی جاتی ہے – ہمیشہ اسے بیڈ شیٹ کے نیچے ہی رکھا جاتا ہے – مثال کے طور پر آپ اپنے بیڈ روم میں تشریف فرما ہیں – کوئی گوگل میٹ ہو رہی ہے یا فیسبک پر لائیو ہیں یا کسی کو ویڈیو کال کر رہے ہیں تو اسمیں آپ کی بیڈ شیٹ بھی نظر آئے گی، اوپر اوڑھنے والا کمبل، چادر یا لحاف بھی نظر آئے گا لیکن رضائیاں چھپا کر رہی رکھی جاتی ہیں – جس طرح بیڈ روم میں تالائی یا رضائی تو موجود ہوتی ہے لیکن آپکے مہمان کو وہ نظر نہیں آئے گی اور نہ ہی اسکا کوئی شو آف کرتا ہے اسی طرح کے کچھ نام نہاد دانشور بھی ہوتے ہیں جن کے آئیڈیاز بھی کھندولی کی طرح ہی ہوتے ہیں اس لئے انہیں کھندول دانشور کہا جاتا ہے – یا اس کو بوریا سے بھی جوڑا جا سکتا ہے – ایک بوریا جس میں بھینس گائے کے لئے بھوسا ڈالا جاتا ہے کھندول دانشور بھی اس سے کافی مماثلت رکھتے ہیں – ان کے دماغ بھی بھوسے سے بھرے ہوتے ہیں – بغیر سوچے بات کر دینا انکی عام سی روٹین ہے – اس قبیل کی سب سے بڑی صفت یہ ہے کہ انکی گفتار اور کردار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے –

اب یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ بعض قارئین کے دماغ میں یہ سوال بھی جنم لے سکتا ہے کہ ایک طرف یہاں انکو کھندول، بوری یا گاربیج کہا جا رہا ہے تو ساتھ ساتھ میں انٹلیکچول یا دانشور کیوں کہا جا رہا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے چونکہ یہ لوگ جو اپنے کو دانشور سمجھتے ہیں-گلی کوچوں یا اپنے اپنے علاقوں میں سادہ لوح عوام میں ایسی ایسی فلاسفیاں جھاڑتے ہیں کہ کوئی بھی باشعور بے ساختہ ہنس پڑے – گاؤں دیہات میں جیسا کہ چولا کھڑپنچوں کی بہتات ہوتی ہے – کھندول انٹلیکچول زیادہ تر ان کے مشیر، صلاح کار و آلہ کار کے طور پر کام کرتے ہیں اور اپنی کھندولیت کو بروئے کار لاتے ہوئے سماج کی ایسی کی تیسی کرتے ہیں – یہ لوگ خود ساختہ دانشور کہلاتے ہیں- میں تو انہیں دانشور کے بجائے کھندول دانشور کہتا ہوں –

 

اٹھارہ اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کو "دی ہندو” میں سندر سارو کائے کا ایک مضمون شائع ہوا – یہاں پر اس مضمون کا تذکرہ اس لئے ضروری ہے تاکہ قارئین ہماری بات کو صحیح سے سمجھ سکیں – اس مضمون کا عنوان تھا ‘لیبلنگ دی نیو اللیٹریسی آف آور ٹائم’ – مذکورہ مضمون میں سندر سروکائی نے ویسی ہی باتیں کی ہیں جو میں دو ہزار سولہ سے کرتا آ رہا ہوں – فرق صرف اتنا ہے کہ صاحب مضمون نے ان لوگوں کو کھندول کہنے کے بجائے ‘نیو اللیٹریٹ’ کہا ہے –

مذکورہ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ ‘آجکل ہم ایک نئی قسم کی نیو اللیٹریسی کے خطر ناک دور سے گزر رہے ہیں – اس نیو اللیٹریسی کا تعلق چیزوں کو نہ سمجھنے سے ہے – پڑھنے کا مطلب صرف الفاظ کو دیکھنا نہیں بلکہ اچھی طرح سے سمجھنا بھی ہوتا ہے – اور ہر جملے کو اسی پیرائے میں سمجھنا ہوتا ہے جس ضمن میں لکھاری نے لکھا ہے – چیزوں کو سمجھنے کا فقدان ہے – وہ آگے لکھتے ہیں آجکل یہ رحجان چل نکلا ہے چیزوں کو پڑھنے سے پہلے ہی یا ہلکی نظر ڈال کر یا ٹائٹل دیکھ کر اس پر اپنی طرف سے لیبل لگا دیا جاتا ہے کہ یہ تحریر فلاں چیز کے متعلق ہے اور پھر اس پر بے تکے تبصرے شروع ہو جاتے ہیں – تحریر کے بعض حصوں یا جملوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یہ سمجھے بغیر کہ لکھاری نے کس سمت میں یہ بات کہی ہے ‘-

سندر کا یہ آرٹیکل آن لائن بھی دستیاب ہے قارئین اسکو تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں – ہماری آجکل کی عموماً پڑھی لکھی جنریشن mis-conception کا شکار ہے جس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں – دو سال پہلے جب جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ہٹایا گیا تو علاقہ کے پڑھے لکھے نوجوان بھی سندر ساروکائے کی نیو اللیٹریسی اور میری اصطلاح کھندول دانشوری کے مریض نظر آئے – مثال کے طور پر مرکزی حکمران جماعت کی طرف سے یہ بیانیہ پھیلایا گیا کہ خصوصی آئینی پوزیشن جموں و کشمیر کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اب تو دودھ اور شہد کی نہریں بہیں گی- اسی طرح دوسرا بڑا بیانیہ یہ تھا کہ جے اینڈ کے کی علاقائی پارٹیاں بالخصوص نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے لیڈران چور ہیں جنہوں نے رشوت خوری کی ہے – ہمارے علاقے کے کچھ بھولے نوجوان اس بیانیے کو پھیلاتے نظر آئے کہ واقعتاً یہ باتیں سچی ہیں –

ہم جیسے کچھ سر پھرے ان نوجوانوں کو اسوقت بھی سمجھا رہے تھے کہ ایسا مت کریں – یہ سب جمہوریت پر شب خون مارنے کے لئے بیانیہ بنایا گیا ہے – وقت نے آج ثابت کر دیا ہے اور ان نوجوانوں کو آج اس چیز کا ادراک بھی ہو رہا کہ ہم لٹ گئے یار، اور سمجھ بھی نہ آئی کہ کیسے – دو سال پہلے جب ہم سمجھاتے تھے کہ ایسا بھی نہیں کہ نیشنل کانفرنس یا پی ڈی پی وغیرہ دودھ کے دھلے ہیں لیکن اسوقت انکے خلاف بات کرنا ایک مخصوص بیانیے کو تقویت دینے کے مترادف ہو گا جو صرف اپنے مذموم سیاسی مقاصد کی تکمیل کے لئیے گڑا گیا ہے –

یہ سب اس لئے ہوتا ہے کہ پڑھے لکھے لوگ چیزوں کو صحیح سے سمجھتے نہیں ہیں – کسی چیز کو بس ہلکا دیکھا تو فیس بک وغیرہ پر اپنی دانشوری شروع کر دیتے ہیں – ان میں ایک قبیل ایسی بھی ہے جو فیس بک پر عالمی سطح کی سیاست پر اپنی دانشوری جھاڑتے نظر آئیں گے – ہیلری کلٹن یا بایئڈن کو گلوریفائی کریں گے – ٹرمپ کو کوستے نظر آئیں گے لیکن اپنے آس پاس کی نا انصافیوں بابت بات نہیں کریں گے کیونکہ گلی محلے کے چھوٹے موٹے ٹرمپوں پر انگلیاں اٹھانے پر انکے پر جلتے ہیں –

ان دانشوروں کا پڑوسی ممالک باالخصوص پاکستان کے متعلق وہی بیانیہ ہے جو اند بھکتوں کا ہے – مثلاً پاکستان کی سیاست پر اگر کوئی بات کرئے یا وہاں کسی لیڈر کو فیور دے تو انکے نزدیک یہ گناہ کبیرہ ہے – ظاہر ہے جب بندہ کسی بھی ملک کی سیاست پر گفتگو کرتا ہے تو کسی نا کسی کو فیور ضرور کرتا ہے – جیسا کہ آپ اگر یونائٹید اسٹیٹس آف امریکہ پر گفتکو کر رہے ہوتے ہیں یا دوران الیکشن کرتے تھے تو ایک کو ضرور اچھا سمجھتے تھے – میں نے تو بایئڈن اور کلنٹن کی جیت کے لئے گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے بھی لوگ دیکھے ہیں – مگر پاکستان کی سیاست پر انکا نظریہ بالکل مختلف ہے – میرے ایک دوست پاکستانی سیاست پر بڑی گہری نظر رکھتے ہیں – بڑے ہی روشن خیال اور جمہوریت پسند انسان ہیں اور اڑوس پڑوس کے ممالک میں بھی جمہوریت اور سویلین بالادستی کے حامی ہیں – پچھلے دنوں میں وہ نواز شریف کو اس لئے اخلاقی سپورٹ دے رہے تھے کیونکہ وہ پاکستان میں مارشل لاء اور فوج کی سیاست میں عمل دخل کے سخت مخالف تھے – اور مزید یہ کہ بھارت – پاکستان کے درمیان امن کے کوشاں تھے – میرے ان دوست کا کہنا تھا کہ خوشحال اور جمہوریت پسند پاکستان پورے خطے بشمول ہمارے ملک کے لئے بھی بہتر ہے – لیکن کھندول دانشور انکو پاکستانی کہنے لگ گئے – یہ دانشور زیادہ تر پاکستان آرمی کے بیانیے سے متاثر ہوتے ہیں – وہاں 2018 کے الیکشنز میں جیسے دھاندلی کی گئی اور عمران خان صاحب کی لہر چل رہی تھی تو یہ(کھندول) بھی ‘جب آئے گا عمران’ کے گیت گا رہے تھے –

لوگوں کو ملے اور پوچھے بغیر ان پر یہ تیسرے درجے کے نام نہاد انٹلیکچول ایسی ایسی باتیں کر دیتے ہیں جیسے اگلے پر پی ایچ ڈی کر رکھی ہے – ان باتوں کا اگلے کی ذات سے کچھ لینا دینا نہیں ہوتا – میر ے ایک ہر دلعزیز دوست کہتے ہیں کہ انکا ایک دوست جو کھندول دانشور ہے ایک دن کہنے لگا کہ یار پاکستان کی سیاست پر ڈسکشن نہ کیا کرو – کچھ دیر کے لئے دوست نے اسکو کوئی جواب نہیں دیا-دو گھنٹے بعد اس نے جب اسکو غور سے دیکھا تو مسٹر کھندول کانوں میں تار لگائے مولانا طارق جمیل کو سن رہا تھا – میرے دوست کہتے ہیں کہ یار یہ کونسا لاجک ہوا کہ پاکستانی ڈرامے تو دیکھو بلکہ ان کے ڈائیلاگ بھی رٹ لو – وہاں کے مختلف مکاتب فکر کے دینی علماء نیز اوریا مقبول تک کو سنو لیکن سیاستدانوں سے نفرت کرو – اگر بات کرو بھی تو وہی جو وہاں کی آرمی کا بیانیہ ہے نہیں تو جمہوریت پسند اور خطے میں امن کی بات کرنے والوں کو چور کہو – دوست کہتے ہیں کہ وہ دن اور آجکا دن چار مہینے گذر چکے ہیں لیکن کھندول دانشور کی اس بارے میں سی بھی نہیں نکلی – آخر میں بات کو سمیٹتے ہوئے خلاصہ کلام یہی ہے کہ اپنے اندر کتاب بینی کی عادت ڈالیں، چیزوں کو سیاق سے ہٹا کر پیش کرنا انتہائی مضحکہ خیز بات ہے –

ای میل:- mohdarshid01@gmail.com

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا