شیخ المشائخ حضور شعیب الاولیائ:حیات اور کارنامے

0
0

 

نعیم الدین فیضی برکاتی،ریسرچ اسکالر
اعزازی ایڈیٹر:ہماری آواز(مہراج گنج)
دارالعلوم برکات غریب نواز کٹنی (ایم۔پی)

 

اس خاک دان گیتی پر اللہ رب العزت کے کچھ ایسے برگزیدہ ومقرب بندے تشریف لائے،جن کو صلحائے امت اور صوفیائے کرام کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ وہ ہستیاں ہیں جن کی زندگیاںبڑی مثالی ہوا کرتی ہیں۔یہ اپنے تقویٰ،پاسداری سنت اور تزکیہ قلوب کے سبب اس اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیںکہ صفات خداوندی کے مظہر نظر آتے ہیں۔ان کی زندگیاں اللہ اور اس کے رسول کے لیے وقف ہوا کرتی ہیں۔اسی لیے یہ حضرات تبلیغ اسلام اور اشاعت دین مصطفویﷺکی خاطر خدمت خلق کو اپنے زندگی کا نصب العین سمجھ کر عالم انسانیت کی دارین میں کامیابی کے لیے مصروف عمل رہتے ہیں۔انہیں برگزیدہ بندوں میں سے ایک زندہ وتابندہ اور مقدس شخصیت شعیب الاولیائ،شیخ المشائخ صوفی شاہ محمد یار علی صاحب قدس سرہ العزیز کی بھی ہے،جن کی تعلیمی اوراصلاحی خدمتوں نے کروڑوں قلوب کی ویران دنیاکو آباد کردیا اور بے شمار مردہ دلوں کو زندہ کر دیا۔
ولادت اور نام و لقب
آپ کا مبارک نام ـ’’محمد یار علی‘‘ہے۔اور آپ کا لقب ’’شعیب الاولیاء اور شیخ المشائخ‘‘ہے ۔اہل علم کے طبقہ میں آپ انہیں القاب سے متعارف و مشہور ہیں۔آپ کی تاریخ پیدائش1307ہجری ہے۔آپ نسلاً علوی سادات سے تھے۔آپ کا سلسلہ نسب 28ویںپشت پرحضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے جا ملتا ہے۔
استقامت علی الدین
یہ وہ کٹھن منزل ہے جو ہاتھوں میں چنگاری پکڑنے کے مانند ہے۔صوفیائے کرام فرماتے ہیں :استقامت کرامت سے بڑھ کر ہے۔استقامت اور تصلب فی الدین میں حضرت شاہ محمد یار علی قدس سرہ العزیز ممتاز نظر آتے ہیں۔بستی اور گونڈہ کے علاقے گمراہیت وبے دینی کے گڑھے میں تقریباً غرقاب ہونے والے تھے۔اللہ کے عطا کردہ فضائل وکمالات سے اس مرد حق آگاہ نے تنہا صرف اپنی روحانیت سے اس علاقے میں وہ کمال پیدا کیا کہ آج ہر چہار جانب اس کا اثر مدرسوں اور مسجدوں کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔آپ ہمیشہ بلا خوف وخطرباطل کا مقابلہ کرنے کے لیے سینہ سپر رہتے اورمہینوں علمائے کرام کولے کر گاؤں گاؤںوعظ وتقریر کراتے اور لوگوں تک دین کی تعلیمات واحکامات کو پہنچانے میں ہر ممکن کوشش کرتے۔
اتباع شریعت وسنت
حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمہ کا یہ طرہ امتیاز تھا کہ خلاف شریعت وسنت کوئی بھی کام دیکھنا تک آپ کو پسند نہ تھا۔اسی کا ثمرہ تھا کہ اس دور کے علماء نہ کہ صرف آپ کے سامنے جھک گئے بلکہ آپ کے فیض یافتہ ہو کر دنیا کے لیے مثالی بن گئے ۔آپ کا تدین امتیازی تھا۔اسی وجہ سے نماز وجماعت کی پابندی کے ساتھ تکبیر اولیٰ کا اس قدر التزام تھاکہ تقریباً45سال تک کبھی سفر وحضر میںآپ کی تکبیر اولیٰ فوت نہ ہوئی۔اسی دوران حرمین شریفین کی زیارت سے بھی مشرف ہوئے۔کئی مرتبہ بمبئی اور دیگر شہروں کا دورہ بھی ہوا۔یہ آپ کا وہ نمایاں اور منفرد المثال وصف ہے جو آپ کے اتباع شریعت پر غماز ہے۔اس لیے کہ ہمارا (استثناء کے ساتھ)سفر میں صرف نماز پڑھنا دشوار ہوتا ہے۔چہ جائے کہ جماعت اور تکبیر اولیٰ۔لیکن حضور شعیب الاولیاء نے اپنے پینتالیس سالہ عمل سے یہ ثابت کردیا کہ انسان اگر عزم محکم رکھے اور خود کاہلی وسستی نہ کرے تو سفر میں بھی جماعت کی پابندی مشکل امرنہیں ہے۔اس وصف میں آپ کے زمانے سے لے کر آپ کا کوئی ثانی نظر نہیں آتا ہے۔یہ کمال ہی اتنا بڑا ہے کہ اس کے مقابلے میں ہزارہا سالہ خلوت گزینی و چلہ کشی بھی ہیچ ہے۔ترمذی شریف میں ہے کہ نبی معظمﷺ نے فرمایا:
ترجمہ:جس نے اللہ کی رضا کے لیے صرف چالیس دن تک تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھی تو اللہ اس کو جہنم اور نفاق سے آزادی کا پروانہ عطا کرتا ہے۔
حضور سیدناحمزہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لوگ اشغال واذکار کے پیچھے رہتے ہیں،جب کہ سب سے بڑا ذکر ومجاہدہ نماز باجماعت ہے۔
شیخ المشائخ کا عظیم علمی کارنامہ دارالعلوم فیض الرسول کا قیام:یہ ادارہ حضور شعیب الاولیاء کاعظیم دینی شاہکار ہے،جس کو آپ نے 1375ہجری میںمکتب سے دارالعلوم کی شکل میں تبدیل کر دیا تھا۔علوم دینیہ کی نشر واشاعت سے آپ کو کافی دلچسپی تھی۔کیوںکہ جو خدا دوست ہو وہ علم دوست نہ ہو ایساہو ہی نہیں سکتا۔آپ دارالعلوم کی ترقی پر بہت زیادہ توجہ دیتے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ بہت کم مدت میں وہ اہل سنت کامرکزی ادارہ بن گیا۔یہ ادارہ اپنی حسین کارناموں اور گوناگوں خصوصیات کی بنا پر ملک و بیرون ملک میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔یہ شمالی مشرقی یوپی کے ضلع سدھارتھ نگر کے ایک گاؤں بنام ’براؤں شریف‘ میں واقع ہے۔جہاں کے لوگوں کا علم وعمل سے کوئی تعلق نہ تھا۔لیکن اللہ کے نیک بندوں کی شان ہی نرالی ہوتی ہے کہ وہ صحرا کو گلزار بنانے میں یقین رکھتے ہیں۔پہلے اپنی خانقاہ ہی میں مکتب سے شروعات کی ۔جس کو آپ کی مساعی جمیلہ اور کاوش پیہم نے کم مدت میں ایک دارالعلوم کی شکل میں تبدیل کردیا۔ جہاں ہر سال ہزارہا ہزار کی تعداد میں تشنگان علوم نبویہ اپنی علمی وعملی سیرابی کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور فیض یافتہ ہوکرپوری دنیامیںاحسن طریقے سے تبلیغ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔۔ادارہ اور بانی ادارہ کی عظمتوں کا اندازا بانی الجامعۃ الاشرفیہ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے اس تاثر سے لگایا جاسکتا ہے جو آپ نے اس ادارے کو دیکھنے کے بعد فرمایا تھا:
’’بفضلہ تعالیٰ طلبہ میں علمی استعداد کے ساتھ دین داری اور سلامت روی بھی میں نے پائی۔یہ آستانہ فیض الرسول کا فیض اور عظیم المرتبت مخدوم معظم مولانا الشاہ یار علی کا خاص فیض ہے‘‘
سفر آخرت:حضور شعیب الاولیاء نے اپنی پوری زندگی خدمت دین و خلق میںگزاری۔22محرم الحرام1387ہجری مطابق4مئی1967ء کا دن گذار کررات میں ایک بج کر پندرہ منٹ پراپنے مالک حقیقی سے جا ملے۔براؤں شریف میں آپ کا مزارپاک مرجع خلائق اور منبع فیوض وبرکات ہے۔22محرم کو ہر سال آپ کا عرس نہایت تزک واحتشام کے ساتھ آپ کے فرزند ارجمند،جانشین شعیب الاولیاء حضرت علامہ غلام عبد القادر علوی صاحب قبلہ صاحب سجادہ و ناظم اعلیٰ دارالعلوم کی نگرانی وانتظام میں منایا جاتا ہے۔اسی موقع پرآپ کی عظیم یادگار دارالعلوم کے فارغ التحصیل علماء ،قراء وحفاط کی رسم دستار بندی بھی ادا کی جاتی ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا