مرکزی حکومت جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کریں

0
0

خصوصی آئینی حیثیت کی لڑائی سپریم کورٹ میں لڑیں گے: عمر عبداللہ
کہامرکزی حکومت ہمیں بتائے کہ وہ طالبان کو کیسے دیکھتی ہے؟
لازول ڈیسک

جموں؍؍ نیشنل کانفرنس کے نائب صدر و سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکزی حکومت کو نیک کام میں دیری نہ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ بحال کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی لڑائی سپریم کورٹ میں لڑتی رہے گی۔عمر عبداللہ نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بھارتی سفیر کی طالبان کے سیاسی امور کے سربراہ سے ملاقات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب اگر طالبان بھارت کے لئے دہشت گرد تنظیم نہیں ہے تو کیا بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے صدارتی رکن کی حیثیت سے اس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے باہر نکلوائے گا۔انہوں نے کہا کہ اگر طالبان دہشت گرد تنظیم ہے تو بھارت کیوں ان سے بات کرتا ہے اور اگر وہ اب دہشت گرد تنظیم نہیں ہے تو اس کے بینک کھاتوں پر پابندی کیوں لگا رکھی ہے اور ان کی حکومت کو تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ہے۔عمر عبداللہ نے بدھ کو یہاں اپنے والد ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی صدارت میں منعقد ہونے والے نیشنل کانفرنس کے ایک روزہ اجلاس کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا: ‘انتخابات کرانے کا فیصلہ الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔ ہم تو 2019 میں انتخابات کی تیاری کر بیٹھے تھے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ آپ انتخابات کرانے سے پہلے ہمیں ہمارا ریاستی درجہ لوٹا دیں’۔انہوں نے کہا: ‘ہم خصوصی آئینی حیثیت کے لئے لڑائیاں سپریم کورٹ میں لڑتے رہیں گے۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ پارلیمنٹ میں ریاستی درجے کی واپسی کا وعدہ کر چکے ہیں۔ ہم کہتے ہیں نیک کام میں دیری کیسی؟ ہم کہتے ہیں کہ آپ انتخابات سے پہلے ریاستی درجہ بحال کریں اور پھر شوق سے یہاں انتخابات کرائیں’۔جب ان سے ایک صحافی نے پوچھا کہ اگر انتخابات سے پہلے ریاستی درجہ بحال نہیں ہوتا ہے تو آپ کی جماعت کیا کرے گی تو ان کا جواب تھا: ‘میں بیس یا بائیس سال سے سیاست میں ہوں۔ میں اگر مگر جیسے سوالات کا جواب نہیں دیتا کیوں کہ اگر مگر سوالوں کا جواب آپ کو پھر اگر مگر میں ہی ملے گا’۔عمر عبداللہ نے بی جے پی جموں و کشمیر یونٹ کے صدر روینہ روینہ کے ایک بیان کہ دفعہ 370 کی ہڈیاں گنگا میں بہا دی جا چکی ہیں کے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا: ‘گنگا میں کس چیز کا وسرجن ہوا وہ ہم نے کووڈ کے دوران دیکھا۔ مجھے لگتا ہے کہ رویندر رینہ اور بی جے پی کو اس طرح کی باتیں نہیں کرنی چاہئیں’۔ان کا کہنا تھا: ‘ابھی زخم ہرے ہیں۔ ہم وہ تصویریں بھول نہیں گئے ہیں جب لوگوں نے مجبوری کی حالت میں اپنے رشتہ داروں کی لاشیں گنگا کنارے ریت میں دفن کیں۔ پہلے تو انہیں کووڈ کے دوران ملک میں پیدا ہوئے حالات کے لئے معافی مانگنی چاہیے۔ پھر جا کر دفعہ 370 پر تبصرہ کریں’۔عمر عبداللہ نے جموں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، تجارت میں کمی اور چھوٹے صنعتی یونٹس کے بند ہونے سے متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا: ‘شکر ہے آپ نے یہ سوال کیا۔ تو پھر پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کا مقصد کیا تھا؟ جموں و کشمیر کے لوگوں سے کہا گیا تھا کہ دفعہ 370 ہی ایک رکاوٹ ہے اور اس کے ہٹنے کے بعد یہاں بے روزگاری کا خاتمہ ہوگا’۔انہوں نے کہا: ‘آپ نے خود سوال میں کہا کہ یہ بے روزگاری روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے۔ تو پھر کہاں گئے وہ روزگار کے راستے؟ کہاں گئی وہ سرمایہ کاری؟ جو کوئی کچھ کما رہا تھا اس سے اس کی کمائی چھینی گئی’۔انہوں نے کہا: ‘جموں کی کمائی کا ایک بڑا ذریعہ دربار مو تھا۔ ہمیں یہ بات ماننی چاہیے کہ سری نگر کے نسبت جموں کے تاجروں کو دربار مو کا زیادہ فائدہ ہوتا تھا۔ یہ روایت ختم کرنے سے جموں کے تاجروں کا بہت زیادہ نقصان ہوا ہے۔ یہ پانچ اگست کے فیصلوں کی دین ہے’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘میں مجبور ہو جاتا ہوں یہ سوال کرنے کے لئے کہ پانچ اگست کے فیصلوں کا فائدہ کس کو ہوا؟ اگر بے روزگار اور کرپشن کا خاتمہ نہیں ہوا۔ لوگ مسلسل شکایت کر رہے ہیں کہ ترقی نہیں ہے۔ آپ نے ڈی ڈی سی انتخابات کرائے لیکن کوئی بھی ڈی ڈی سی چیئرمین مطمئن نہیں ہے’۔نیشنل کانفرنس نائب صدر نے پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی کے طالبان پر حالیہ بیان کے متعلق پوچھے جانے پر کہا: ‘میں محبوبہ مفتی صاحبہ کے بدلے جواب نہیں دے سکتا۔ وہ پی اے جی ڈی کے پلیٹ فارم سے نہیں بول رہی تھیں۔ میں تو پی اے جی ڈی کا عہدیدار بھی نہیں ہوں’۔اس موقع پرانہوں نے کہا: ‘بھارت اور طالبان بات کرنے لگے ہیں۔ یہ آج کے اخبارات کی خبر ہے کہ قطر میں طرفین کے درمیان بات چیت ہوئی ہے۔ طالبان دہشت گرد تنظیم ہے یا نہیں۔ آپ (بھارتی حکومت) مہربانی کر کے ہمیں بتائیں کہ آپ طالبان کو کیسے دیکھتے ہیں؟’انہوں نے کہا: ‘اگر طالبان دہشت گرد تنظیم نہیں ہے تو کیا آپ اقوام متحدہ میں جا کر اس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے باہر نکلوائیں گے۔ کیوں کہ اس وقت آپ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت کر رہے ہیں’۔عمر عبداللہ نے مرکزی حکومت سے پوچھا کہ اگر طالبان دہشت گرد تنظیم ہے تو آپ طالبان اور دوسری دہشت گرد تنظیموں کے درمیان کیسے فرق کرتے ہیں۔انہوں نے کہا: ‘اگر یہ دہشت گرد تنظیم نہیں ہے تو مہربانی کر کے اقوام متحدہ جا کر اس کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے باہر نکلوائیں تاکہ ان کے بینک کھاتے کام کر سکیں اور ان کو الگ نظر سے نہ دیکھا جائے’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘مگر آپ کا مختلف دہشت گرد تنظیموں کے تئیں الگ الگ رویہ نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ دہشت گرد تنظیم ہے تو آپ کیوں ان سے بات کرتے ہیں۔ اگر وہ دہشت گرد تنظیم نہیں ہے تو آپ نے ان کے بینک کھاتوں پر پابندی کیوں لگا رکھی ہے اور ان کی حکومت کو تسلیم کیوں نہیں کرتے ہیں’۔جب عمر عبداللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا افغانستان کی صورتحال کا جموں و کشمیر پر کوئی اثر پڑے گا تو ان کا جواب تھا: ‘جہاں تک افغانستان کی صورتحال کا سوال ہے اس سے متعلق کوئی بھی سوال آپ کو مرکزی حکومت سے کرنا چاہیے۔ میرے پاس کوئی ایسی جانکاری نہیں ہے جس کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکوں کہ ہاں جی افغانستان کے حالات کا اثر جموں و کشمیر پر پڑے گا’۔ان کا مزید کہنا تھا: ‘افغانستان میں جو ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ اس کا کوئی اثر جموں و کشمیر پر پڑے گا یا نہیں پڑے گا یہ مرکزی حکومت ہی بتا سکتی ہے’۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا