حمیرا گل
دسویں جماعت
کنگن ،کشمیر
6006504858
ہمارے ملک ہندوستان کو آزاد کرانے کے لئے ہمارا طرز عمل دوسری جماعتوں سے کتنا ہی مختلف ومتضاد کیوں نہ ہو، لیکن ہم میں سے کوئی بھی سردار بھگت سنگھ کی متبرک ہستی کو کیسا فراموش کرسکتا ہے جس نے طوقِ غلامی اُتار کر پھینک دینے کے لئے اپنی عزیز زندگی کا ہر لمحہ اس مقصد کے لئے وقف کیا اور جس نے اپنے گلے کو پھانسی کے پھندے کے نذر کردیا ۔
بھگت سنگھ28ستمبر1907ء کو چک نمبر105، ضلع لائل پور (فیصل آباد) موجودہ پاکستان میں پیدا ہوئے ۔ جس خاندان میں بھگت سنگھ کی ولادت ہوئی، ان کے آباء واجداد کی جذبہ آزادی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ پہلے لاہور اور اب امرتسر کا نارلی گاؤں اس خاندان کا آبائی گاؤ ں ہے۔
سردار بھگت سنگھ کا خاندان اپنی قومی خدمات اور قربانیوں کے لئے ہمیشہ یاد کیاجائے گا ۔ مہاتماگاندھی کے بعد سردار بھگت سنگھ کی ہی ایسی ہستی ہے جس نے بہت جلد پورے ملک میں شہرت حاصل کرلی اور جن کا سکہ سب کے دل پر بیٹھ گیا ۔
سردار بھگت سنگھ کا نام ہر ایک کی زبان پر تھا اور ان کی تصویر ہر کمرے میں لٹکی تھی۔ انگریز حکومت بھگت سنگھ کی ہر دل عزیزی سے گھبرائی اوراس کانام ونشان مٹا دینے پر تُل گئی ۔ سرکاری احکامات جاری ہوئے کہ کوئی حکومت یا عوام بھگت سنگھ کی یاد نہ قائم رکھنے پائے ۔ بھگت کی تصویر اور سوانح عمری ضبط کرلی گئی اور وہ پرچہ بھی ضبط کیے گئے جن میں بھگت سنگھ کا ذکر تھا انگریزی حکومت نے بھگت سنگھ کو پھانسی دے کر بھی چین نہ لیا اورایسے ذرائع کام میں لائے جن سے لوگ بھگت سنگھ کو بھلا دیں۔ بھگت سنگھ کا نام لینا بھی گناہ ہوگیا لیکن ایک عزت دار قوم جواپنی آزادی حاصل کرنے کے لئے جان توڑ کوشش کررہی ہے وہ اپنے شہیدانِ وطن کو کیسے بھلا سکتی ہے ۔ بھگت سنگھ کی دلیری اوربہادری ہمارے دِلوں پر نقش کرگئی۔ اُنہوں نے ایثار کا ایک بہت اونچا معیار قائم کیا ۔ ان کا حکومت ِ وقت سے یہ مطالبہ تھا کہ ’’مجھے پھانسی کے بجائے گولی کانشانہ بناؤ‘‘ والا یہ جذبہ ہماری قوم کی شان کو بڑھانے والا تھا۔ بھگت سنگھ ایک انقلابی ذہن والے تھے ۔ وہ ہندوستان کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے ۔ ہندوستان میں ایک نئی شوشل زندگی قائم کرنا چاہتے تھے اور سماج سے امیر وغریب کا فرق مٹا دینا چاہتے تھے ۔ اُن کے حوصلے بلند تھے ۔ اُن میں قوم وملک کو منظم کرنے کا مادہ تھا۔ وہ بزدلوں کو بھی دلیر بنا دیتے تھے ۔ ان میں ایک ایسی کشش تھی کہ نو جوان بھگت سنگھ کے قریب آتے۔ اُن کے جذبہ آزادی سے ایسے متاثر ہوتے کہ بھگت سنگھ کے نقش وقدم پر چلنے کو تیار ہوتے ۔ دیگر انقلاب پسندوں اور بھگت سنگھ میں ایک بڑا فرق ہے کہ انہوں نے غیر معمولی طریقہ سے اس بات کا اعلان کیا کہ ہندوستانیوں کو انگریز وں کے خلاف انقلاب لانے کا پورا حق ہے ۔ بھگت سنگھ نے کوئی بات چھپائی نہیں اور اپنی صداقت کے لئے موت کو گلے سے لگایا ۔
بھگت سنگھ کی دلیری اور بہادری ایک خاص چیز ہے جو ہمیشہ ہمارے لئے ایک مثال رہے گی ۔ اُن کانام سنتے ہی دِلوں میں بجلی کوند جاتی ہے ۔ تھوڑی دیر کے لئے انسانی کمزوریاں دور ہوجاتی ہیں۔ اور ہر فرد وبشر اپنے آپ کو جذبات کی ایک نئی دنیا میں پاتا ہے ایسے ملک وقوم کے ’’ہیرو‘‘کو یاد رکھنا قوم کا اولین فرض ہے۔
مہاتما گاندھی بھگت سنگھ کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں:
’’حالانکہ میں نے بھگت سنگھ کو لاہور میں بارہا ایک طالب علم کی حیثیت سے دیکھا ہوگا ، لیکن اب مجھ کو اُن کی شکل یاد نہیں ہے ۔ یہ میری خوش قسمتی تھی کہ میں نے پچھلے مہینوں میں بھگت سنگھ کی دیس بھگتی۔ ان کی ہمت اور باشندگانِ ہند سے ان کی گہری محبت کی کہانیاں سنی ہیں۔ میں نے اس معاملہ میں جو کچھ سنا ہے اُس سے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ہمت کااندازہ لگانا غیر ممکن ہے۔‘‘
(بھگت سنگھ ، ص۷)
اسی طرح پنڈت جواہر لال نہرو یوں رقم طراز ہیں:
’’کہ یہ لڑکا یکایک اتنا مشہور اور دوسروں کے لئے رہنما ہوگیا کہ مہاتما گاندھی بھی آج بھگت سنگھ کی اس بڑی قربانی کی تعریف کرتے ہیں ۔ ویسے تو پشاور، شولاپور، بمبئی اور دیگر مقامات میں سینکڑوں آدمیوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں مگر بھگت سنگھ کا تیاگ اور اُن کی جوان مردی بڑے بلند مرتبے کی تھی۔‘‘
(بھگت سنگھ ، ص۹)
بھگت سنگھ کی پھانسی سے شہیدانِ وطن کی تعداد میں صرف ایک شہید کا اضافہ نہیں ہوا بلکہ اُن کا درجہ ہزاروں میں بلند ہے اور وہ اس تعریف کے مستحق بھی ہیں۔ ایسے اشخاص بہت ہی کم ہوں گے جنھوں نے اس طرح سے ہنسی خوشی جامِ شہادت نوش کیا ہو ۔
بھگت سنگھ نے دوران مقدمہ اور اپیل کی کارروائیوں میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں لی ایسا صرف وہی شخص کرسکتا ہے جو جذبات شہادت سے مخمور ہو اور جس نے زندگی کے فلسفے کو بخوبی سمجھ لیا ہو۔ بھگت سنگھ میں یہ ساری خوبیاں بدرجہ اُتم موجود تھیں۔
شہید بھگت سنگھ کے حالات وواقعات اور اُن کی عظیم شہادت کو ایک مضمون میں سمیٹنا میرے بس کی بات نہیں ہے ۔ میں آخر میں آج آزادی کے 75 سال گذرنے کے بعد بھی یہ محسوس کرتی ہوئی کہ بھگت سنگھ آج بھی ہمارے دِلوں میں زندہ ہے اور رہیں گے۔ ہم تمام ہندوستانی رواں سال یعنی 2021ء میں ہندوستان کی یومِ آزادی کا 75 سال بڑے دھوم دھام سے منارہے ہیں اور ہم سب کا فرض ہے کہ ان شہیدوں کو یاد کیا جائے جن کی عظیم قربانیوں نے ہمیں یہ آزاد ملک دیا ہے۔
آخر میں اپنی بات تلوک چند محروم کی نظم سے ختم کرتی ہوں جس میں بھگت سنگھ کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے۔
’’زنداں میں شہیدوں کا وہ سردار آیا
شیدائے وطن پیکر ایثار آیا
ہے دار و رسن کی سرفرازی کا دن
سردار بھگت سنگھ سردار آیا
ہے نقش تیرے اہل وطن کے دل پر
پھانسی کی رسن کو چومنا تیرا
(اردو میں قومی شاعری کے سو سال میں، ص۲۳۸)
میں آخر میں اپنے ملک کی75یوم آزاد ی کے موقعہ پر تمام اہل ِوطن کو مبارک پیش کرتی ہوں،اللہ تعالیٰ دعا گو ہوں کہ ہمارے ملک میں امن،شانتی،پیار،محبت،اتحاد واتفاق قائم رہے اور ہمارا ملک ترقی کی نئی منزلوں کو چھوئے۔
پتہ