’انتظامیہ اور میرواعظ کی مداخلت سے ہمارا مسئلہ حل ہو گیا‘

0
0

دِلی سے آئے لیڈران کی اشعال انگیزی کیلئے معافی چاہتے ہیں: شرومنی اکالی دل صدر پرمجیت سنگھ
یواین آئی

سرینگر؍؍وادی کشمیر میں درجنوں مذہبی، سماجی، اصلاحی اور ملی تنظیموں پر مشتمل اتحاد ’متحدہ مجلس علما جموں و کشمیر‘ نے ان دعوئوں کو مسترد کیا ہے کہ دو مقامی سکھ لڑکیوں کو زبردستی شادی کے لئے اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔دریں اثنا شرومنی اکالی دل نئی دہلی کے صدر پرمجیت سنگھ نے منگل کو یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران کہا کہ انتظامیہ اور مسلم سکالرز بالخصوص میرواعظ کی مداخلت سے مسئلہ حل ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا: ’’میں انتظامیہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جس نے اقلیتی طبقے کا پورا ساتھ دیا۔ اس کے بعد ہماری ملاقات میرواعظ والوں اور دیگر مسلم سکالرز سے ہوئی۔ انہوں نے ہمیں جو تعاون فراہم کیا وہ ہم زندگی بھر بھول نہیں سکیں گے‘‘۔انہوں نے کہا: ’’ہمارا مسئلہ حل ہو گیا ہے۔ لڑکی پہلے جس کو چاہتی تھی اس کے ساتھ شادی ہو گئی ہے۔ شادی کروانے کے بعد ہی ہم یہاں آئے ہیں‘‘۔پرمجیت سنگھ نے بعض سکھ لیڈران کے مبینہ اشتعال انگیز بیانات پر معافی مانگتے ہوئے کہا: ’’اگر ہماری کیمونٹی میں سے کسی نے اشتعال انگیز باتیں کی ہیں تو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں‘‘۔ان کا مزید کہنا تھا: ’’دلی سے سکھ آیا اس نے باتیں کیں میں اس کے لیے معافی مانگتا ہوں۔ میں اس کی کہی ہوئی باتوں کے لئے آپ سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں‘‘۔اس دوران متحدہ مجلس علما کے ایک ترجمان نے یہاں جاری ایک بیان میں کہا کہ معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مجلس کے سربراہ میرواعظ مولوی عمر فاروق کی ہدایت پر سینئر رہنما آغا سید حسن الموسوی الصفوی کی سربراہی میں مولانا خورشید احمد قانون گو، مفتی غلام رسول سامون اور مولانا ایم ایس رحمن شمس اور دیگر کئی ارکان شامل تھے، نے مقامی سکھ برادری کے ممبروں کے علاوہ شرومنی اکالی دل کے ممبروں سے بھی ملاقات کی تاکہ اس مسئلے کی اصل حقیقت سے واقفیت حاصل کی جاسکے جو مقامی سکھ برادری کے لئے فکر و پریشانی کا باعث بنا ہوا تھا اور اس مسئلہ کا باہمی افہام و تفہیم اور گفت وشنید کے ذریعے پر امن حل نکالا جا سکے۔مجلس علما نے یہ بات واضح کی کہ دین اسلام امن و سلامتی، محبت، مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کا مذہب ہے اس میں عقائد اور مذہب کے معاملے میں جبر و قہر اور زور زبردستی کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ ہر عاقل، بالغ، مرد و خاتون کو اس نے آزادی مذہب کا اختیار دے رکھا ہے تاہم اگر کوئی بھی فرد بخوشی دلی رضامندی کے ساتھ جبر و قہر کے بغیر اسلام قبول کرتا ہے تو وہ اس کی اپنی مرضی ہے۔مجلس علما کے وفد نے سکھ برادری کے وفد کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے معاملات باہمی آپسی برادری کے ماحول میں خوشگوار طریقے سے حل ہو سکتے ہیں۔تاہم مجلس نے مزید واضح کیا کہ ہمیں اس طرح کے معاملات میں حد درجہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ کچھ بیرونی عناصر جان بوجھ کر کشمیر میں موجود صدیوں پرانی مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کی فضا کو خراب کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہاں بسنے والے باشندوں کے درمیان مذہبی منافرت پیدا کر کے پھوٹ ڈالی جائے جس کی ان عناصر کو ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی۔مجلس نے یہ بات زور دیکر کہی کہ ہم کشمیر کی سکھ برادری کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم آپ کے دکھ سکھ میں برابر شامل ہیں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق یہاں کی اکثریت، اقلیت کی عزت و آبرو کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے عہد بند ہیں۔سکھ برادری کے مقامی افراد نے مجلس علما کے اس معاملے میں بھر پور تعاون اور یقین دہانیوں کے لئے شکریہ ادا کیا ہے۔قبل ازیں سکھ گردوارہ مینجمنٹ کمیٹی دلی کے صدر اور اکالی دل کے قومی ترجمان منجندر سنگھ سرسا نے پیر کے روز الزام لگایا تھا کہ وادی کشمیر میں سکھ کمیونٹی سے وابستہ بچیوں کا جبری طور مذہب تبدیل کرنے کے واقعات پیش آئے ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وادی میں گذشتہ ایک ماہ کے دوران چار سکھ بچیوں کو جبری طور پر مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا