مفتی محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری
دار العلوم سبیل السلام حیدرآباد
رابطہ نمبر: 9849085328
سولہویں صدی عیسوی میں فرانس کے انقلاب ہی سے دنیا کے اکثر ملکوں سے شاہی نظام یعنی بادشاہت کا خاتمہ ہوگیا اور عصرِ حاضر کی جمہوریت کی داغ بیل پڑی، اس نئی جمہوریت نے جاہلیت میں ڈوبی اور ظلم کی چکی میں پسی ہوئی انسانیت کے لیے قدرے راحت کا سامان تو پیش کیا؛ لیکن امتِ مسلمہ کے لیے یہ جمہوریت اور سیکولرزم پر مبنی حکومت موت و زیست کا مسئلہ بن گیا، اس نے دین و سیاست میں جدائی پیدا کردی، نتیجتاً عالم اسلام کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے، اور ۱۹۲۳ء میں امت اسلامیہ کا متحدہ پلیٹ فارم خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوگیا، اور فلسطین جیسے مقدس شہر پر اسلام کے کٹر دشمن یہودیوں کو قبضہ دلایا گیا۔
فلسطین کا مسئلہ عالمِ اسلام کا ایک رستاہوا ناسور ہے، تقریباً ایک صدی سے یہ کہانی جاری ہے، نومبر ۱۹۱۷ء میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کی شکست کے بعد برطانیہ کے خارجہ امور کے سکریٹری بالفور (Mr. Bolfore) نے حکومت برطانیہ کی طرف سے ایک اعلان کیا، جو "اعلان بالفور” کہلاتا ہے، جو مسٹر روتھس چائلڈ (Roths Chiled) کے نام ایک خط کے ذریعہ منظر عام پر آیا، اس اعلان کے مطابق صیہونی لیڈروں سے وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطین میں یہودیوں کو ایک علیحدہ وطن دیا جائے گا، کونسل آف لیگ آف نیشنز (اس وقت کی اقوام متحدہ) نے ۲۲/جولائی ۱۹۲۰ء کو فلسطین پر قانونی حکومت کا اختیار برطانیہ کو دے دیا، اسی اختیار کے ساتھ ہی یہودیوں نے دنیا کے مختلف گوشوں سے فلسطین کی طرف نقل مکانی شروع کردی، ۱۹۳۹ء میں برطانیہ نے یہودیوں کی اس نقل مکانی کو محدود کرنا چاہا؛ مگر اس سلسلہ میں اسے صیہونیوں کی دہشت گرد تنظیموں اور امریکہ کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، ۱۹۴۷ء میں برطانیہ نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل حکومت کا سوال اٹھایا، اور ۲۹/مئی ۱۹۴۷ء میں جنرل اسمبلی میں تقسیم فلسطین کی قرارداد منظور کی گئی، ۱۵مئی۱۹۴۸ء میں برطانیہ نے مکمل طور پر فلسطین سے دستبرداری کا اعلان کردیا اور اسی تاریخ کو اسرائیلی ریاست کا بھی اعلان کردیا گیا، اس وقت سے آج تک اسرائیل اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے، سرزمین فلسطین ایک ایک چپے پر دھیرے دھیرے غاصبانہ قبضہ کرتا جارہا ہے، وہاں کے باشندوں پر ان کی زمین تنگ کی جارہی ہے، ایک دن بھی انہیں چین وسکون کی زندگی نصیب نہیں ہورہی ہے۔
اسرائیل کی جانب سے توسیع مملکت کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے فلسطینی نہتے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں، بچے، بوڑھے، عورتیں، جوان سبہوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، جھوٹے جھوٹے الزامات لگا کر ان پر بمباری کی جاتی ہے، میزائیل داغے جاتے ہیں، ان کی آبادیوں پر بلڈوزر چلا دیے جاتے ہیں، اپنے حقوق کے مطالبہ کرنے والوں کو دہشت گرد اور جنگجو کہا جاتاہے، انہیں گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے سڑایا جاتا ہے، اذیتیں دی جاتی ہیں، ایسی ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جن کے بیان سے انسانیت شرمسار ہوجائے۔ہمیں اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ اسرائیل فلسطینیوں کو نیست ونابود کرنے، دیگر مسلم ممالک پر قابض ہونے اور انہیں غلام بنانے کے منصوبے پر پوری طرح عمل پیرا ہے، اسرائیل مشرق وسطیٰ کے پورے مسلم علاقوں کو اور اس پورے حصہ کو اپنی میراث سمجھتا ہے، جس کا اظہار اسرائیلی پارلیمنٹ کی پیشانی پر لکھا ہوا یہ جملہ کرتا ہے: "اے اسرائیل! تیری سرحد نیل سے فرات تک ہے”۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسرائیلی حکومت یورپ و امریکہ کی ناجائز اولا د ہے، جسے مسلمانوں کے خلاف تیار کیا گیا ہے؛ لیکن یہ ایسی قوم ہے جو کبھی بھی کسی کی ہوئی ہے اور نہ ہوگی، اس کی اصل دشمنی تو اسلام اور مسلمانوں سے ہے؛ لیکن حقیقتاً بلا تفریق مذہب و ملت وہ سارے انسانوں کو اپنا غلام سمجھتی ہے، اپنے مفاد کی خاطر کسی سطح تک بھی وہ جاسکتی ہے، یہ وہ قوم ہے جس نے اپنے معصوم انبیا تک کو شہید کرڈالا، ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے اوران کے ساتھ ایسی نازیبا حرکتیں کیں جن کو بیان کرنے کی قلم میں بھی طاقت نہیں، لکھنے سے پہلے ہی اس کی روشنائی خشک ہوا چاہتی ہے، اسی وجہ سے اللہ تعالی نے ان پر بہت سارے عذاب بھیجے۔ بے وفائی، دھوکا دہی، غداری، عہد شکنی ان کی سرشت میں داخل ہے، انہی کرتوتوں کی وجہ سے ہٹلر نے گیس کے چیمبر میں ڈال کر دس لاکھ یہودیوں کو مارڈالا تھا اور اس کے بعد یہ بھی کہا تھا کہ: "میں کچھ یہودیوں کو صرف اس وجہ سے چھوڑ دے رہا ہوں؛ تاکہ دنیا ان کو دیکھ کر یہ جان لے کہ میں نے انہیں کیوں مارا تھا”۔ یہودیوں نے تواپنے سب سے بڑے آقا امریکی صدر کو بھی نہیں چھوڑا…