سردانا کی کورونائی موت کے بعد کا منظرنامہ

0
0

 

 

 

از قلم: مشتاق احمد نوری [کشن گنج]

کہا جاتا ہے کہ ٹی وی چینلوں پر ہندو مسلم کا لپھڑا کھڑا کرنے والا پہلا شخص روہت سردانا ہی تھا۔وہی روہت سردانا کورونا کی بھینٹ چڑھ گیا۔یعنی اس کے سارے فرقہ وارانہ دنگلوں میں دھرم کا بھانگ چڑھا کر تال ٹھونکنے والے اب نہیں دکھیں گے۔جی ہاں وہی کورونا جس کی آڑ میں پوری میڈیا برادری نے مسلمانوں کو زیرو ڈاؤن کرنے کے لیے اپنا سارا زور لگا دیا تھا۔تبلیغی مرکز کی آڑ میں اپنی مسلم دشمنی نکالنے کا بیٹھے بٹھائے موقع ہاتھ آگیا تھا۔مرکز کی لاشعوری غلطی کا وبال سارے مسلمانوں پر ڈال کر جم کر ان کا چھیچھا لیدر کیا گیا۔ایجنڈا چلانے والے ان اینکروں میں سردانا کا رول کسی بھی دوسرے اینکر سے کم نہیں رہا۔اس کی کورونائی موت سے اہل اسلام کا خوش ہونا لازمی امر ہے۔ایک ایسا اینکر جس نے ہمارے مقدسات و مطہرات کے خلاف بکواس کیا ہو اس کے مرنے پر کسے مسرت نہیں ہوگی۔جس نے اپنے پورے ٹی وی شوز میں اصل مدعوں سے پرے صرف ہندو مسلم کی بحث کرائی ہو، جس نے ہر اینگل سے ہر دنگل میں مسلمانوں کے خلاف محاذ تیار کیا ہو،جس کا مقصد اپنی ڈبیٹ میں ہندوتو کے ایجنڈے کو فروغ دینا اور اسے سوپر ثابت کرنا ہو، جس نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تار تار کرنے میں خاصہ رول پلے کیا ہو، جس نے ہمیشہ ایک طرفہ پترکاریتا کی ہو اس کی موت یقینا اہل اسلام کے لیے ایک راحت فزا خبر ہے۔

ایک بار پھر اس کورونا مہاماری میں جیسے ساری دنیا لاک اپ میں بند ہوگئی ہے۔پچھلے سال مودی حکومت کو بچانے، اس کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے میڈیا کو مرکز کا سہارا تھا۔سو اس کا جم کے فائدہ بھی اٹھایا گیا۔ٹی آر پی بھی بٹوری گئی اور ایجنڈہ بھی بڑھایا گیا۔آج ملک کو اس سے زیادہ برے حالات میں پہنچا دیا گیا ہے۔اس کووڈ سنامی میں مودی حکومت کی ملک و بیرون ملک کرکری ہورہی ہے۔دن بدن اس کی امیج گر رہی ہے۔اسے بچانے کے لیے اس بار بھی میڈیا گدھ کی طرح پر تول رہا ہے کہ کہیں سے ایسا کچھ مل جاۓ جسے اپنے چینلس پر خوب گھسیٹا جاسکے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ ابھی پچھلے مہینہ دو مہینے سے جس طرح اسلام مخالف ماحول تیار کیا جارہا تھا۔پیغمبر اسلام کو انسانیت دشمن باور کرایا جارہا تھا۔ایسے میں ہمارے پاس اس کے دفاع کے لیے کچھ بھی خاص نہیں تھا۔مگر ہماری ہزار خطاؤں، لغزشوں و عملی بے سمتی کے بعد بھی قدرت کو ہم پر ترس آگیا اس نے ایسے ماحول پیدا کر دیئے کہ ہماری ناک اونچی ہوگئی۔سر اٹھا کے چلنے کا موقع مل گیا۔جاتا ہوا کورونا اچانک لوٹ آیا اور اس شدت سے لوٹا کہ ہر طرف ہاہاکار مچ گئی، ملک کو آکسیجن کی ضرورت پر گئی۔ایسے میں سعودیہ عربیہ سے ۸۰ میٹرک ٹن آکسیجن کی امداد پہنچ گئی۔یہی بات اہم تھی کہ آکسیجن کی بروقت امداد ان تمام نفرت پھیلانے والے باباؤں، اور ایجنڈہ چلانے والے اینکروں کے منہ پر زور کا طمانچہ تھا۔اور ہمارے لیے قدرت کی طرف سے انعام۔
آکسیجن آنے پر ہم لوگوں نے سوشل میڈیا پر ضرورت سے زیادہ دھما چوکری مچائی۔مگر جس طریقے سے منائی گئی وہ فرقہ پرستوں کو راس نہیں آئی۔کیسی کیسی پوسٹ شیئر کی جانے لگی۔کیسے کیسے کمینٹ کیے گئے۔اس کا ری ایکشن یہ ہوا کہ روبیکا لیاقت کو بھی برا لگ گیا۔اس نے زہریلے ٹویٹ کر کے مسلمانوں کو نصیحت دے ڈالی کہ بھارت نے سعودی کو پہلے کووڈ ویکسین دیا ہے جب کہ بھارت سعودی کے درمیان کووڈ ویکسین کمرشیل سطح کا لین دین تھا کوئی تعاون نہیں۔اور سعودی کی بھیجی گئی آکسیجن بطور امداد ہے بنا پیسے کی۔
آج جیسے ہی سردانا کی موت کی خبر نشر ہوئی سوشل میڈیا پر خوش فہمیوں کی باڑھ آگئی۔سب لوگ اچھل اچھل کر خوشیوں کے تبادلے کرنے لگے۔یہ بن موسم کی برسات جیسے جذبات ہیں۔ان جذبات کو جلد بازی میں غیر محل میں خرچ کیا جارہا ہے اسے بچا کر رکھیے۔جو موجودہ سیاست،حالات کا اتار چڑھاؤ اور ہندوتو کی خفیہ پالیسی سمجھتے ہیں انہیں یہ جذباتی کیفیت کے اظہاریے بالکل بے معنی لگیں گے۔بلکہ یہ کل کو ہمارے لیے خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔کیوں کہ ہماری ہر ہر نقل و حرکت پر ان کی پینی نظر ہے۔وہ ہم سے بالکل بھی غافل نہیں ہے۔فیسبک کا بھارتی انچارج ایک آر ایس ایس پروڈکٹ ہے۔اور اس کا آنر مکیش امبانی جیسا گجراتی تاجر ہے۔کل کو اگر ٹی وی چینلوں پر چلایا جاۓ کہ دیکھو جہادی سماج سردانا کی موت پر خوشی منا رہا ہے تو اس سے پورا مسلم سماج گھیرے میں آجاۓ گا۔ایک نئی مصیبت کھڑی ہوجاۓ گی۔سارے کیے کراۓ پر سستے میں پانی پھر جاۓ گا۔اور اس وقت میڈیا کو ایسا چارہ چاہیے بھی۔

ممکن ہے آپ حدیث و سیرت سے خوشی منانے کا جواز نکال بھی لیں تب بھی یہ اعلی اسلامی اخلاقیات کے خلاف ہے۔اور حالات تو ہمیں قطعی اس کی اجازت نہیں دیتے۔وقت کہ نزاکت کو سمجھیں۔کہیں شعوری یا غیر شعوری طور پر بھڑاس نکالنے کے چکر میں پاکھنڈی نرسمہانند کو سچ تو ثابت نہیں کر رہے ہیں؟ ان سب کے باوجود ہمیں بہت کچھ سوچنا ہوگا غور کرنا ہوگا کہ آخر ہم اتنے جذباتی کیوں ہورہے ہیں، اس قدر عجلت پسندی اور غیر مستقل مزاجی کا ثبوت کیوں دے رہے ہیں۔آج ایک سردانا کی موت سے ہم پھولے نہیں سما رہے ہیں اس طرح ری ایکٹ کر رہے جیسے کوئی بڑی جنگ فتح کر لی ہو۔کوئی بڑا محاذ سر کر لیا گیا ہو۔کیا ہم بھول گیے کہ سردانا جیسے ہزاروں افراد اس کی جگہ لینے کے لیے پہلے سے تیار بیٹھے ہیں۔ایسے زہریلے پروڈکٹس آر ایس ایس کے ٹکسال میں روز ڈھالے جارہے ہیں۔
آر ایس ایس کی انتھک محنت اور صبر آزما استقلال کو آفرین کہیے کہ آج اس کی آئڈیالاجی ہندوؤں کے سر چڑھ کے بول رہی ہے۔اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے ہمارے درمیان سے اپنے وکیل پیدا کر لیے ہیں۔یہ تارک فتح، وسیم رضوی، عارف محمد خان، شاذیہ علمی ،نکہت عباس، سبوحی خان جیسے ہزاروں لوگ ہیں جو آر ایس ایس کے لیے دن رات ایک کیے ہوۓ ہیں۔اسے نہ چاہتے ہوئے بھی داد دیجیے کہ دیش میں بین کیے جانے کے بعد بھی اس نے اس شدت سے تحریکی و تنظیمی عمل کو آگے بڑھایا کہ آج وہ جسے چاہے بین کروا دے جسے چاہے ملک کی ملک کی باگ ڈور تھما دے۔جسے چاہے ملک بدر کروا دے۔یہاں کٹگھرے میں صرف ہمارے ارباب بست و کساد ہیں کہ انہوں نے اس کے مقابلے میں کونسا تنظیمی کام آگے بڑھایا۔اگر اس جیسا ایمپائر کھڑا کرنے میں دقت تھی تو کم سے کم کچھ تو کیا ہوتا۔کیا وسائل کی کمی تھی؟ افراد کار کی قلت تھی؟مالی تعاون کمزور تھا؟ پھر کیوں نہیں کیا گیا؟آخر کب تک ایک رویش کمار آپ کا دفاع کرتا رہے گا ان کو بھی اپنا گھر پریوار اپنا دھرم دیکھنا ہے۔تجربہ بتاتا ہے کہ زیادہ دباؤ پڑنے پر آدمی ٹوٹ بھی جاتا ہے۔ویسے بھی اس دور زوال میں کون زیادہ دیر تک سیکولر رہتا ہے۔
یہ جو ہم مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیت اہل حدیث، جمعیت علما ہند، علما و مشائخ بورڈ اور تحریک رضاۓ مصطفی نام کی تنظیمیں دیکھ رہے ہیں ملک میں ان کی حیثیت عضو معطل سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ایسی ہزاروں تنظیمیں تحریکیں ادارے تنہا آر ایس ایس کے معیار کو چھو نہیں سکتیں۔آج یہ دنیا کا سب سے بڑا آرگنائزڈ ہندو پلیٹ فارم ہے۔اسے فالو کرنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔افرادی قوت سے لیس مالی اعتبار سے بھی دنیا کی کسی بھی تنظیم سے بہت آگے ہے۔اس کے سرسنگھ چالک کی ایک آواز پر لوگ اپنی تجوریوں کے تالے کھول دیتے ہیں۔آر ایس ایس نے اپنی آئڈیالاجی سیٹ کر دی ہے کوئی آۓ کوئی جاۓ خاصہ فرق نہیں پڑتا۔اب وہاں صرف چہرے بدلیں گے سوچ وہی رہے گی۔اس لیے زیادہ خوش ہونا بھی خوش فہمی ہے۔وجود ذہنی کو اتنا ہی خوش رکھیے جتنا وجود خارجی جھیل سکے۔
ہم میڈیا کو تو اپنا دشمن ضرور مانتے ہیں مگر اس سے لڑنے کے لیے نہ ہمارے پاس کوئی ہتھیار ہے نہ ہمارے ارباب حل و عقد کے پاس کوئی کارگر پلان ہے۔جب کہ اہل بصیرت پر ظاہر ہے کہ آج میڈیا کا جواب میڈیا ہی ہو سکتا ہے۔یہ ہمارا کتنا بڑا فیلیور ہے کہ آج تک ایک میڈیا ہاوس کا قیام عمل میں نہیں لاسکے۔اگر سردانا کے بعد سدھیر و ارنب جیسوں کی موت پر جشن فتح منا کر خوش ہونا ہے تو ہوتے رہیے اس سے سواۓ بگڑنے کے، کیا بنتا ہے۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا