محمد ارشد خان رضوی فیروزآبادی اتر پردیش انڈیا
925958974
makrazavi@gmail.com
جان آقا پہ ارشد نچھاور کرو
یہ تقاضہ ہے مضبوط ایمان کا
ہمارے ملک کی فضا بہت مسموم ہوتی جا رہی ہے آئے دن کوئی بھی شخص کھڑا ہو کر نبی آخر الزماں صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا نظر آتا ہے
اور ایسے لوگ بہت زیادہ نہیں ہوتے ہیں مگر ان کی پشت پناہی کسی بڑی جماعت کے ہاتھ ہوتی ہے اس لئے یہ چند مٹھی بھر لوگ بے لگام ہوکر مذہب اسلام اور بانی اسلام کے بارے میں کچھ بھی نا زیبا کلمات بولتے جا رہے ہیں۔
اگر ان چند لوگوں پر کسی بڑی جماعت کی پشت پناہی نہیں ہوتی تو یقینا ایسے چند لوگ جو ایسی باتیں کرکے ملک کا ماحول خراب کرتے ہیں بھائی چارے کو خراب کرتے ہیں ایسے لوگوں کی جگہ جیل میں سلاخوں کے پیچھے ہونی چاہیے تھی۔اور ایسے لوگوں پر این۔ایس۔اے۔ لگنا چاہئے تھا۔
مگر افسوس آج بھی یہ لوگ بے پروا گھومتے نظر آرہے ہیں اورہندوستان کی فضا کو مسموم کر رہے ہیں۔روز روز ویڈیو ڈال کر مسلمانوں کے دلوں کو تکلیف دینے کا کام کر رہے ہیں۔
جیسے آپکو معلوم ہے تقریبا آج سے کُچھ روز پہلے ڈاسنا مندر کے پجاری یتی نرسنگھا نند سرسوتی نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جوگستاخی کی اور ایسے نازیبا الفاظوں کا استعمال کیا جسے کوئی بھی غیرت مند مسلمان یہاں نقل کرنا تو دور اپنے نبی کی شان میں سننا تک گوارا نہیں کرسکتا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہندوستان کی راجدھانی دہلی میں ایک پریس کلب میں بیٹھ کر اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ بہت ہی نازیبا جملوں کا استعمال کر کے آقا کی شان میں ایسی گستاخی کیا جس کو سننے کے بعد ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوگئ اور اپنے غم و غصے کا اظہار اس طرح کر نے لگے کہ اپنے اپنے شہروں میں میمورنڈم اور ایف آئی آر بھی درج کراتے رہے۔
اس کے باوجود بھی مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے ان کے ایمان و عقیدے پر چوٹ کی جا رہی ہے اور حکومت نے ایسے شر انگیز اور فتنہ پر ور شخص کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا۔
ایسے میں کون سچّامسلمان ہوگا جو اپنے نبی کی شان میں ایسی گستاخیاں برداشت کرتا ایک عاشق رسول کو کب زیب دیتا کہ وہ خاموش رہتا علامہ سلمان ازہری ایک ایسا مرد مجاہد ہے جس کی رگ حمیت ایمانی پھڑ کی اور مصطفی کے گستاخ کو مباہلے کا چیلنج کر دیا
خرد والے ابھی تک مصلحت بینی میں الجھے ہیں
وہ جا پہنچا سر منزل جسے دیوانہ کہتے ہیں
ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے اور اپنے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بے پناہ محبت میں ایک مرد مجاہد حضرت علامہ مولانا مفتی سلمان ازہری نے ایک ویڈیو کے ذریعے یہ پیغام نر سنگھا نند تک پہنچایا اور کہا کہ اس کو میں چیلنج کرتا ہوں اور انہوں نے مباہلہ کا چیلنج کرتے ہوئے یتی نرسنگھا نند کو یہ پیغام بھیجا اور کہا
کہیں اور نہیں بلکہ دهلی کی سرزمین میں اکھٹا ہو جائیں میں ان کو وقت دیتا ہوں ہو کہ وہ آئیں مناظرے کی بات تو نہیں کرتا مگر ہاں میں کہتا ہوں کہ وہ جس دھرم کو مانتے ہیں وہ اپنے دھرم کی ساری کتابیں لے آئیں اور سب پنڈتوں کو اکھٹا کرلیں اور میں اپنے ساتھ قرآن مجید لے کر آؤں گا اور ایک جگہ آگ جلائی جائے اور میڈیا بھی رہے ،ساری دنیا اس کو دیکھے اور حق و باطل کا فیصلہ کرے جس آگ میں،میں بھی داخل ہونگا اور وہ بھی داخل ہوں جو جل جائے اس کا مذہب باطل اور جو بچ جائے اس کا مذہب سچا اور وہی حق پر ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل تھی محو تماشائے لب بام ابھی۔
اس کو سنتے ہی یتی نرسنگھا نند نے اس چیلنج کو قبول کرلیا۔
ازہری صاحب نے دن اور مقام رام لیلا میدان دلّی کا بھی انتخاب کرلیا انہوں نے کہا کہ جنگ بدر کی مناسبت سے سترہ رمضان المبارک مطابق ۳۰ اپریل کا دن ہو اور ہم یہ کام کریں کیوکِہ اس دن اسلام کی پہلی جنگ ہوئی تھی جسمیں ۳۱۳ کو اللہ ربّ العزت نے فتح نصیب کی اسی دن کو یوم الفرقان بھی کہتے ہیں اسی دن کی مناسبت سے یہ دن وجود میں آئے۔
ساتھ میں یہ بھی کہہ دیا کہ دونوں کے کپڑوں کو بھی اچھی طرح چیک کیا جائے اور اگر اس میں کسی کی جان جاتی ہے تو یہ ذمہ داری ان کی خود کی ہوگی اور اس دن کی پرمیشن وغیرہ کا جو بھی معاملہ ہے وہ سب ان کی ہی ذمہ داری ہوگی۔
مگر آج بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو ڈر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ سلمان ازہری کو اس طرح کا چیلنج نہیں کرنا چاہیے تھا سلمان ازہری اگر مباہلے میں نا کامیاب رہے تو مذہب اسلام کی چاروں طرف بدنامی ہی بدنامی ہوگی
کیونکہ سلمان ازہری ایک عام انسان ہیں کوئی نبی نہیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جن کے لیے اللہ تعالی نے آگ کو سلامتی والا کردیا تھا مگر یہاں تو سلمان ازہری نے اپنی انا پرستی اور جھوٹی شہرت حاصل کرنے کے لیے ایسا قدم اٹھایا ہے میں ان سے کہنا چاہتا ہوں یہ کمزور ایمان کی علامت ہے
ایمان والے ہمیشہ غالب رہے ہیں اور غالب رہیں گے تاریخ اس بات کی شاہد ہیں۔
قرآن میں اللہ ارشاد فرماتاہے
ان الدین عنداللہ الاسلام (کہ اللہ کے نزدیک اسلام ہی دین ہے)
میں ان سے پھر کہنا چاہوں گا یہ جھوٹی شہرت حاصل کرنے کے لیے دنیا میں بہت لوگ ہیں مگر ناموس رسالت صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لیے کون تھا جس نے آواز کو بلند کیا،
کون تھا جس نے باطل کے دل میں دبدبہ پیدا کر دیا ،
کون تھا جس نے باطل کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر جواب دیا
کوئی ہوتا تو کھڑا ہوتا مگر نہیں ناموس رسالت کے لیے اگر کوئی تھا تو وہ سلمان ازہری تھے جنہوں نے لبیک یا رسول اللہ کہا
اس لئے میں سلمان ازہری صاحب کی عظمت کو سلام کرتا ہوں جنہوں نے باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک جرات مندانہ فیصلہ لیا اور چیلنج کردیا اور کہا
یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں
تِرے نام پر سبکو وارا کروں میں۔
میں مسلمانوں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اپنی دعاؤں میں خصوصی افطار کے وقت سلمان ازہری کو یاد رکھے اور اسلام کے حق میں فیصلے کے لیے اپنے رب سے دعا کریں
میں ان کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور رب کریم سے دعا گو ہوں اللہ تعالیٰ مفتی سلمان ازہری کو فتح نصیب فرمائے، باطل کا منہ کالا فرمائے اور اہل سنت وجماعت دین اسلام کا بول بالا فرمائے۔
مضمون نگار مدرسہ حبیبیہ کے مہتمم ہیں