مدارس ملک اور انسانیت کی ترقی کے لئے ایک تحفہ

0
0

 

 

غفران اسد

بھکورہر، بیرگنیا، سیتامڑھی، بہار

9661585418

ghufranasad@gmail.com

 

کہتی ہیں لہریں کے دریا سے کھیلو

کہاں تک چلوگے کنارےکنارے

 

یہ ہماری خوش قستی ہے کہ ہم ملک عزیز ہند میں پیدا ہوئے ہیں۔ تعلیم کی اہمیت کو مذھب اسلام نے لگ بھگ 1400 سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا۔ جب اللہ نے قرآن کریم کو ہمارے پیارے نبی محمد صلی االلہ علیہ وسلم پر نازل کرنا شروع کیا تو سب سے پہلی وحی اقراء کے طور پر نازل ہوئی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام نے علم کو دنیا کے تمام چیزوں میں افضل سمجھا اور اس پر شدید زور بھی دیا ہے۔ کئی ساری بُرائیوں کی وجہ جہالت کو بتایا ہے۔ اس بات کو اور بہتر طریقہ سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک بار کسی محفل میں ذلیل القدر صحابی ابوذر غفاری نے حضرت بلال کو اُنکے کالے رنگ کی وجہ سے حقیر سمجھا اور طنز کیا، جب اسکی شکایت حضرت بلال نے آپ صلی االلہ علیہ وسلم کو کی تو آپکا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا اور آپ نے ابو ذر غفاری کو بلا کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا تم میں اب بھی جہالت باقی ہے۔

آج جبکہ رنگ ونسل، زبان اور ذات پات کی سیاست عام ہے ۔ دنیا کے بڑے لیڈران بھی ایسے ایجینڈا سے باہر نہیں نکل پا تے ہیں تو ایسی صورت میں اسلام کا تعلیمی نقطئہ نظر بہت ہی اہم ثابت ہوتا ہے، چونکہ اسلام میں اس طرح کی کوئی بھی بات موجود نہیں ہے کہ انسان کو انسان سمجھنے کے لئے رنگ و نسل، زبان اور ذات پات کی دیوار حائل ہو اس سے باہر نکل کر تعلیم کو اپنانا بہت ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی گئے، دنیا کے جس گوشے میں بھی گئے وہاں انہوں نے تعلیم کو رواج دیا، تعلیمی ادارے قائم کئے ۔ بہت کچھ نہیں تو اُنہونے نے کم سے کم اُس کتاب کے تعلیم کا انتظام ضرور کیا جسکا نزول آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مقدس قرآن کی شکل میں ہوا تھا۔ جہاں ان کی تعلیم ہوتی ہے وہ ادارے ہمارے ملک بھارت میں مختلف ناموں سے جانے جاتے ہیں جیسے مکتب، مدارس، خانقاہ، دارالعلوم وغیرہ وغیرہ۔

ایک بات آپکو بتاتا چلوں، یہ وہی مدارس ہیں جن سے مولانا آزاد، محمد علی جوہر، سر سید احمد خان، الطاف حسین حالی اور علمائےصادق پور جیسے دانشوران نے تعلیم حاصل کر کے ملک، قوم و ملت کے کام آئے۔

عموماً مدارس میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ جہاں رہنے، سہنے اور کھانے پینے کا بھی مفت انتظام ہوتا ہے یا برائے نام کی فیس ہوتی ہے۔ کئی بار تو کتاب اور کاپی کے لئے وظیفہ یا اسکالرشپ بھی دیا جاتا ہے۔ ایک خاص دینی ماحول میں بچوں کو تربیت دی جاتی ہے۔ اُنہیں علم کے ذریعے غلط و صحیح کی تمیز سکھائی جاتی ہے۔ اس وقت ملک کے اکثر مدارس کے طلبہ علم فضیلت کے بعد کسی بھی یونیورسٹی میں گریجویشن میں داخلہ کے اہل ہو جاتے ہیں۔ میں یہ مانتا ہوں مدارس کے طلبہ سائنس و میتھ میں کمزور ہوتے ہیں۔ لیکن آج حالات بدل رہے ہیں۔ اکثر مدارس کے نصاب میں تدیلیاں ہوئی ہیں۔ چنانچہ آپ مدارس کے طلبہ کو عربی، فارسی، اردو اور اسلامک اسٹڈیز کے علاوہ ہندی اور جغرافیہ میں گریجویشن کرتے دیکھ سکتے ہیں۔

جب ہم اپنے ملک میں مدارس کی بات کرتے ہیں تو جان لیں کہ ان مدارس کا بہت اہم رول ہمارے معاشرہ میں رہا ہے۔ آج جبکہ تعلیم ایک تجارت کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ خاص کر اسکولنگ یعنی انڈر گریجویشن کی تعلیم، یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ تعلیم سیاست کی طرح مالداروں کے قدموں کی زینت بن کر رہ گئی ہے۔ سرکاری اسکولوں کا حال ملک میں کسی سے چھپا نہیں ہے۔ ایک کلاس میں ضرورت سے زیادہ بچوں کا داخلہ یا کتابیں۔ بڑے ہی افسوس کے ساتھ کہنا ہوتا ہے کہ کبھی۔کبھی اسکولوں کا کاروبار کاغذ پر شروع ہو کر کاغذ پر ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اگر یہ معاملہ مسلم اکثریت والے علاقوں کا ہو تو پھر کیا کہنا۔ جسکا جیتا جاگتا ثبوت بہار کی 1773 بنا زمین و مکان کے اردو اسکولیں تھی جسے سابق حکومت کے وزیر نے نزدیک کے ہندی اسکولوں میں مرض (ساتھ) کر دینے کا حکم دیا تھا۔ اپنے ملک میں مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک کے طور پر اہمیت حاصل ہے۔ کسی بھی سرکار کو تعلیم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن کی رپورٹ کے مطابق دلّی میں سرکاری اسکولوں میں مسلم بچوں کا داخلہ دس سے بارہ فیصد ہی ہے اندازہ کیجئے ملک کی راجدھانی کا یہ حال ہے تو دوسرے صوبوں کا کیا ہوگا۔ مسلمانوں کے مالی حالات اتنے مستحکم ہیں کہ کیا کہنا۔

سچر کمیٹی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے حالات دلتوں سے بھی کمتر ہیں۔ مسلمان اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں کے بھاری بھرکم فیس دے کر داخلہ نہیں کرا سکتے۔ ایسی صورت حال میں مکتب و مدرسے جو مفت میں بنیادی تعلیم فراہم کرتے ہیں اُنہیں شعور بخشتے ہیں بلکہ تین وقتوں کا کھانا فراہم کرتی ہیں اور یہ غریب مسلمان ماں باپ ان مدارس کی بدولت کم از کم اپنے خاندان کے ایک فرد کے پیٹ بھرنے پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔

مدارس سے میرا رستہ صدیوں پرانا ہے۔ اپنے دادا مولانا تسلیم خان رحمانی سے ہوتے ہوئے والد محترم حافظ سمیع اللہ خان اصلاحی اور بھائی رضوان اسد سنابلی تک کا سفر ہمنے بہت قریب سے دیکھا ہے۔انکی زبانی وہاں کے حالات کو سنا ہے کہ کیسے چھٹیوں میں کچھ بچے گھر نہ جاکر مدرسہ میں ہی رک جاتے تھے۔ اُنکے گھر جانے سے اُنکے والدین پریشان ہو جائینگے۔ اُنہیں ایک اور آدمی کے کھانے کا انتظام کرنا ہوگا۔ حکومت اور اُنکے نمائندوں کے لئے یہ کہنا بہت ہی آسان ہوتا ہے کہ مدارس فتنہ پھیلا رہے ہیں۔ مسلم سماج کے بچوں کی زندگی برباد کر رہے ہیں۔ اُنہیں جدید تعلیم سے دور کر رہے ہیں ان باتوں پر انکو تالیاں بھی ملتی ہیں اور الیکشن میں ووٹ بھی ملتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایسی باتوں سے کچھ مسلمان بھی اتفاق رکھتے ہیں۔ مدرسوں اور مولویوں کے خلاف بولنےکا موقعہ ہم نہیں چھوڑتے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج نہ تو حکومت کے پاس اس بات کی صلاحیت ہے اور نہ ہی مسلمانوں کی ہی نیت درست ہے کہ کورونا جیسی وبا کے چلتے مدرسہ و مدرسین کے جو حالت غیر ہوئے ہیں اسکی بھر پائی کر سکیں۔

ابھی پورے ملک میں کم و بیش 4000 مدارس وجود میں ہیں۔ جس میں اوسط200 سے 350 طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ کیا حکومت کے اندر اتنی قوت ہے کہ وہ ان طلبہ کے مفت تعلیم، طعام و قیام کا انتظام کر سکے؟ کیا اُنکی نیت ہے کہ مسلمان بچّوں کو دینی تعلیم کے ساتھ جدید تعلیم سے آراستہ کر اُنکے لئے مختلف دنیاوی مواقع تیار کر سکیں۔بقول غالب

 

تیرے وعدہ پر جئے ہم، یوں یہ جان چھوٹ جانا

کہ خوشی سے ہم مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

 

حقیقت تو یہ ہے کہ انہیں مدارس کی بدولت ہی لاکھوں بلکہ کروڑوں مسلمان آج پڑھے لکھے اور باصلاحیت ہیں۔ زندگی میں کچھ بہتر کرنے کے قابل ہوئے ہیں۔ ورنہ وہ پنچر، چائے کی دوکانوں، ٹھیلوں یا چوری ڈکیتی کے جرم میں سلاخوں کے پیچھے ہوتے۔

اس بات پر کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ مدارس کے اندر جدید تعلیم دی جائے۔ میں بھی مانتا ہوں وقت کی ضروت ہے دینی تعلیم کے ساتھ ۔ساتھ جدید تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔کمپیوٹر کی بھی تعلیم دی جائے اس سےاُنکے مستقبل کے اور بھی راستے کھل سکتے ہیں۔ اگر حکومت کو لگتا ہے کہ سچ میں وہ مسلمانوں کی خیر خواہ ہے تو وہ مدارس کو ہائی ٹیک بنائے، انفراسٹرکچر فراہمی کے راستے ہموار کرے۔ آج تک میری نظر میں کوئی ایسی خبر نہیں گزری جس میں کسی مدارس انتظامیہ نے حکومت کے کسی اچھی پالیسی کو ماننے و مدد لینے سے انکار کیا ہو۔ اگر سچ مچ حکومت ایمانداری سے مدرسوں کو مدد کرنا چاہتی ہے تو کچھ باتوں کا دھیان رکھتے ہوئےتمام مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

نمبر1۔

مدارس کی اہمیت کو تسلیم کرنا ہوگا۔ اُنہیں یہ ماننا ہوگا کہ مدارس اتنے سالوں سے حکومت کا کام ان کی مدد کے بغیر کر رہے ہیں۔ ملک کے باشندگان کو تعلیم دینا و نوکری کے اہل بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ جسے حکومت نے پوری نہیں کی، مسلمانوں کے معاملہ میں اسے بلکل ہی نظرانداز کر دیا گیا۔ اس صورت میں بھی مدرسہ والوں نے حکومت کا کام انجام دیا۔حکومت نے اسکے بدلہ میں مدارس پر نشانہ لگائے، ریلی و مجالسوں سے بُرا بھلا کہا اور مدارس کے بے قصور بچوں کو دہشت گرد ی کے جھوٹے الزام میں پھنساکر جیل میں ڈال دیا۔ ایک بات میں واضح کرتا چلوں کہ مدرسوں میں قرآن و شریعت کی تعلیم دی جاتی ہے اور اسکو حاصل کرنے والا ایک سچا مومن ہوتا ہے اور کوئی بھی مومن غدّار وطن نہیں ہو سکتا۔

نمبر2۔

ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔ حکومت کو بھی اپنی نیت واضح کرنی ہوگی، یہ صاف کرنا ہوگا کہ مدارس کی طرف بڑھایا ہوا ہاتھ مدد کرنے کا ہےيا اُن پر قبضہ جمانے کا۔ حکومت اپنا سلیبس اپنا پلان مدارس انتظامیہ کے ساتھ شیئر کریں۔ ایڈمنسٹریشن میں انکا ہاتھ بٹائیں لیکن مدارس کی باگ ڈور مدارس انتظامیہ کے ہاتھوں میں ہی ہونی چاہیئے۔

نمبر3۔

سب سے اہم چیز یہ ہے کہ مدارس کاوجود قرآن و حدیث سے ہے۔ اُسکے قیام کا مقصد قرآن کی تعلیم کو عام کرنا ہے۔ آج اسکی اتنی ترقی اور ساری بندشوں کے باوجود اسکے وجود کا بچا رہنا صرف قرآن و سنت کی وجہ سے ہے۔ جدید تعلیم کو شامل کرنے کا مطلب یہ بالکل بھی نہیں کہ قرآن و حدیث کو نصاب سے باہر کر دیا جائے۔ آج تک بعض مدارس کا جدید تعلیم سے دوری کا ایک بہت بڑا سبب یہ ڈر بھی رہا ہے۔

جتنے لوگ بھی آج تک مدارس میں جدید تعلیم کے علمبردار بن کر گزر گئے انکی خواہش جدید تعلیم کو رواج کرنا نہیں بلکہ قرآن و حدیث کو باہر کا راستہ دکھانا مقصد تھا۔ اس بات کا دھیان ہونا بہت ضروری ہے کہ مدارس قرآن و حدیث کا گہوارہ ہے۔ انکی روح اس سے زندہ ہے بغیر قرآن و حدیث کے اُن کی کوئی پہچان نہیں۔ اور اللہ کاشکر ہے کہ مخالف حکومت اور مخالف ماحول کے باوجود بھی ہمارے مدارس کا وجود ابھی باقی ہے۔ بقول اقبال

 

یونان مصر و روماں سب مٹ گئے جہاں سے

اب تک مگر ہے باقی نام و نشان ہمارا

 

جدید تعلیم کی اہمیت سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے۔ مدارس میں بھی اسکی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ انکار بس اس بات سے ہے کہ اگر کوئی کہے کہ آج مدرسوں کی ضرورت نہیں یا جدید تعلیم کے دور میں اُنکی اہمیت نہیں تو میں ان باتوں کو پورے طور پر خارج کرونگا۔ 2 فروری 1835 کو لارڈ میکالے نے اپنی سروے رپورٹ برٹش پارلیمنٹ کے اندر پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہمیں بھارت کو جیتنا ہے تو اُنکے قدیم تعلیمی نظام کو بدلنا ہوگا۔

غرض کہ انگریزوں کی یہی کوشش رہی کہ وہ ملک کے مدارس کو ختم کرنے کے لئے تعلیمی اوقاف ضبط کر لیں اور دھیرے دھیرے مدارس بند ہونے لگیں۔ کم و بیش یہی حالات آج بھی ہے۔ آزادی کی لڑائی میں مدارس کے لوگوں نےسب سے زیادہ بڑھ چھڑ کر حصہ لیا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مدارس ملک کی ترقی کے لئے، انسانیت کی ترقی کے لئے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں اور انشاءاللہ مستقبل میں بھی رہینگے۔

 

جب بھی گلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی

سب سے پہلے گردن ہماری کٹی

پھر بھی کہتے ہیں یہ اہل چمن

یہ ملک ہمارا ہے تمہارا نہیں۔

 

آخر میں ابوالکلام آزاد کے ان لفظوں کے ساتھ اپنی باتوں کو آپکے حوالے کرتا ہوں جو قوم اپنے آپکو بچانے پر قادر نہ ہو اسکو تحفظات نہیں بچا سکتے۔ کاغذوں کے پرچوں پر لکھے قانون تمہیں محفوظ نہیں کر سکتے۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے پاؤں کی نسوں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم اپنے پرکھوں (آبا واجداد) کی وراثت کو بچانے میں کامیاب ہونگے۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا